پولیس پر فائرنگ کا الزام: پی ٹی آئی کے رہنما کامران بنگش پر فرد جرم عائد
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
پشاور:
انسداد دہشت گردی پشاور کی خصوصی عدالت نے پولیس پر فائرنگ کرنے کے مقدمے میں پی ٹی آئی کے رہنما کامران بنگش پر فرد جرم عائد کر دی۔
پولیس پارٹی پر فائرنگ کیس میں نامزد پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر کامران بنگش کے مقدمے کی سماعت ہوئی، سماعت اے ٹی سی جج اسد اللہ نے کی۔
پراسیکیوشن نے کہا کہ تھانہ چمکنی پولیس نے پی ٹی آئی کے روپوش رہنماء مراد سعید کی گرفتاری کے لیے کامران بنگش کے حجرے پر چھاپہ مارا تھا، چھاپے کے دوران کامران بنگش اور دیگر ساتھیوں نے پولیس پارٹی فائرنگ کی تھی، فائرنگ سے دو پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔
پراسیکیوشن نے استدلال کیا کہ واقعہ 20 دسمبر 2023 کو پیش آیا تھا ، پولیس نے کامران بنگش اور دیگر کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا ہے، پولیس نے تحقیقات مکمل کرکے چالان عدالت میں پیش کردی ہے۔
دوران سماعت عدالت نے پولیس پر فائرنگ کرنے کے مقدمے میں پی ٹی آئی کے رہنما کامران بنگش پر فرد جرم عائد کر دی، ملزم نے صحت جرم سے انکار کردیا۔
عدالت نے اگلی سماعت پر استغاثہ گواہان طلب کرتے ہوئے مقدمے کی مزید سماعت 20 جنوری تک ملتوی کردی۔
عدالت نے فرد جرم عائد ہونے کے بعد ملزم کے خلاف باقاعدہ ٹرائل شروع کردیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کامران بنگش پر فائرنگ عدالت نے
پڑھیں:
جرمنی؛ گستاخِ اسلام کو چاقو مارنے کے الزام میں افغان نژاد شخص کو عمر قید
جرمنی کی ایک عدالت نے افغان شہری کو اسلام مخالف ریلی میں چاقو سے حملہ کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنا دی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق مئی 2024 میں ہونے والے اس واقعے میں ایک پولیس افسر ہلاک جب کہ پانچ شہری شدید زخمی ہوگئے تھے۔
یہ حملہ مغربی شہر مانہائیم میں اسلام مخالف تنظیم پیکس یورپا کے ایک احتجاجی مظاہرے میں کیا گیا تھا جس میں مقرر نے مبینہ طور پر مذہبِ اسلام کی گستاخی کی تھی۔
سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار نے حملہ آور کو روکنے کی کوشش جس پر اس نے پولیس پر بھی چاقو کے وار کیے تھے۔
ملزم کی شناخت صرف سلیمان اے کے نام سے ظاہر کی گئی ہے جس کے پاس سے شکار کے لیے استعمال ہونے والا ایک بڑا چاقو برآمد ہوا تھا۔
اس حملے کے دوران ملزم بھی شدید زخمی ہوگیا تھا جو کئی روز تک انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل رہا اور جون 2024 میں عدالتی تحویل میں منتقل کر دیا گیا۔
استغاثہ کے مطابق سلیمان اے کے شدت پسند تنظیم داعش سے نظریاتی روابط تھے، تاہم اسے دہشت گردی کے بجائے قتل اور اقدامِ قتل کے الزامات کے تحت مجرم قرار دیا گیا۔