Express News:
2025-09-18@11:28:30 GMT

ویت نام ایسا نہ تھا!

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

لگ بھگ 32 سال قبل کا ذکر ہے، ایک کاروباری سلسلے میں ویتنام جانے کا موقع ملا۔ ہوچی من شہر کے ایئرپورٹ پر اترے تو خستہ حال پرانی آرمی بیرک کا گمان گزرا۔کسی بھی طور پر بین الاقوامی ہوائی اڈے جیسا انفرااسٹرکچر نہ تھا۔ ایئرپورٹ کی جھلک سے اندازہ ہو رہا تھا کہ ملک میں مفلسی کا راج ہے۔

تین چار روز ہوچی من شہر میں رہنے اور گھومنے کا موقع ملا۔سڑکوں پر سب سے زیادہ ٹرانسپورٹ ہونڈا 50 موٹر سائیکلز اور ٹرائی سائیکل تھی۔ ہوٹل کی تلاش میں بھی کافی دقت پیش آئی۔ بمشکل ایک تھری اسٹار ہوٹل میں بکنگ مل سکی، ہوٹل کا انفرااسٹرکچر خاصہ پرانا اور واجبی سا تھا۔

بازاروں میں گھومتے ہوئے جا بجا 18 سال قبل ختم ہوئی ویتنام امریکا جنگ کے گھاؤ محسوس ہوئے۔ بازاروں میں یہ منظر عام پایا کہ دکانوں کے باہرا سٹول پر فقط بنیان اور پتلون پہنے لوگ گھنٹوں بیکار بیٹھے دکھائی دیے۔ چہروں ںسے بھوک اور اداسی صاف دکھائی دیتی تھی۔ ہم ایک کورین کمپنی کی میزبانی میں وہاں گئے تھے۔ شام کو ٹرائی سائیکل پر سوار شہر گھومنے نکلے تو جا بجا لڑکیوں نے پیچھا کیا، ون ڈالر مساج! ون ڈالر مساج!

90 کی دہائی کے آغاز میں جنوبی کوریا، تائیوان، سنگاپور، ہانگ کانگ اور جاپان دھڑا دھڑا معاشی ترقی کے زینے پھلانگ رہے تھے۔ ان تمام ممالک میں لیبر انڈسٹری کو سستے ممالک میں منتقل کرنے کا رجحان عام ہونے لگا۔ ممکنہ میزبان ملک کے طور پر بار بار ویت نام کا نام سنا۔نمایاں ترغیبات میں انتہائی آسان شرائط پر زمین اور انفرااسٹرکچر کی دستیابی، حکومت کی ہر طرح سے سہولت کاری، میزبان کلچر انتہائی موافق اور سستی لیبر شامل تھی۔

دیکھتے ہی دیکھتے 90 کی دہائی کے آخر تک اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ویتنام میں ہونے لگی۔ ویت نام جس کا نام پچھلی کئی دہائیوں میں جنگ و جدل اور مارا ماری کے حوالے سے ہی دنیا میں گونج رہا تھا، 90 کی دہائی کے آخر تک ایک ابھرتے ہوئے صنعتی ملک کے طور پر گونجنے لگا۔

اپنے میزبان کے ہمراہ ہمیں ویت نام کے بہت سے دفاتر اور فیکٹریوں میں جانے کا موقع ملا۔ فیکٹریوں اور دفاتر کا حال عموما خستہ پایا۔انگریزی بولنے والے لوگ بہت کم دیکھے۔ تاہم لوگوں میں عالمی تجارت سے جڑنے کی شدید خواہش دیکھی۔

ہماری مترجم نے ایک گر کی بات بتائی کہ یہاں سینیئر مینجمنٹ کے اکثر لوگوں کی سیلری کے دو حصے ہیں، تنخواہ کا ایک حصہ جو وہ اپنی کمپنی سے وصول کرتے ہیں اور دوسرا وہ جو اپنے سپلائرز یا عالمی تجارت میں فیور کے طور پر حاصل کرتے ہیں، جسے مترجم نے مسکراتے ہوئے سافٹ انکم کے نام سے موسوم کیا۔گزشتہ ایک صدی سے زائد ویت نام بڑی طاقتوں کی چشمک اور پراکسی وار کا شکار رہا۔

یہاں جاپان نے بھی قبضہ کیے رکھا ،40 کی دہائی میں فرانسیسیوں نے اسے اپنی کالونی بنا لیا جس کی مزاحمت میں ایک طویل جنگ کا آغاز ہوا۔ ملک شمالی ویت نام اور جنوبی نام کی صورت میں تقسیم ہو گیا۔شمالی ویتنام پر کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی۔انھوں نے بزور جنوبی ویت نام کو شامل کر کے متحدہ ویتنام بنانے کی کوشش کی۔

جنوبی ویتنام کی پشت پر امریکا موجود تھا اور مغربی ممالک اس کے حلیف۔ یوں سردجنگ کی پراکسی وار کے کھیل میں جنوبی اور شمالی ویتنام میں امریکا اور روس نے طویل عرصے تک خوفناک جنگ کے شعلے بھڑکائے رکھے۔1955 سے 1975 تک ویتنام وار جاری رہی جس نے امریکا کی چولیں ہلا کر رکھ دیں اور ویت نام کو بارود اور بربادی کا ڈھیر بنا دیا۔ اس جنگ میں 20 لاکھ سے زائد سویلنز اور دونوں اطراف سے 10 لاکھ سے زائد ویتنامی فوجی ہلاک ہوئے۔بالاخر شمالی ویتنام جنوبی ویتنام پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے اور امریکا کو بے دخل کرنے میں کامیاب ہوا۔

فاسٹ فارورڈ 2024 ویت نام کی ایکسپورٹس 405 ارب ڈالرز جب کہ امپورٹس 380 ارب ڈالر تھی یوں 25 ارب ڈالر کا تجارتی سرپلس رہا۔ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ یہ داستان سبق آموز بھی ہے اور قابل غور بھی۔ تاریخ بدلاؤ کے اس عمل میں ویتنام کو کئی مشکل فیصلے کرنے پڑے جن کی مدد سے سو سال سے زائد بڑی طاقتوں کے لیے میدان جنگ بنے رہنے والا ویت نام اب ایک متوسط درجے کا خوشحال ملک ہے۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔21 ویں صدی میں ابھرتے ہوئے معاشی منظر میں ویتنام نمایاں ترین نظر آرہا ہے۔

یہ سب کچھ کیسے اور کیوں کر ہوا؟ چند نکات قابل ذکر ہیں۔80 کی دہائی کے وسط میں ویت نام نے محسوس کیا کہ معاشی ترقی کے بغیر گذارا نہیں۔ 1986 میں معیشت میں بنیادی اصلاحات کا عمل شروع کیا گیا۔کچھ عرصے بعد زرعی اصلاحات کا عمل بھی شروع کیا گیا۔ 90 کی دہائی میں ویتنام کی حکومت نے عالمی تجارت کے ساتھ جڑنے کی کوششوں کا مسلسل جتن جاری رکھا۔

90 کی دہائی میں امریکا نے ویت نام پر عائد پابندیاں اٹھا لیں۔ 2000 میں امریکی صدر بل کلنٹن نے ویتنام کا دورہ کیا۔ دونوں ملکوں کے مابین ایک تجارتی معاہدہ طے پا گیا جس نے ویتنام کی ترقی کا راستہ کھول دیا۔ 2007 میں ویت نام ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا ممبر بنا۔ اس سے قبل 90 کی دہائی میں وہ آسیان کا ممبر بن چکا تھا۔ 90 کی دہائی اور 2000 کے بعد ویتنام کی سالانہ شرح نمو سات فی صد سے زائد رہی۔

ویت نام حکومت نے بالخصوص پرائمری تعلیم پر توجہ دی۔ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ پر توجہ اور تعلیم پر انتہائی زیادہ فوکس کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ صنعتی اور معاشی ترقی کے لیے درکار ہنر بند ویتنامی دھڑا دھڑ تیار ہونے لگے۔ ویتنام کا تمام تر فوکس معاشی ترقی پر رہا۔جیو پولیٹیکل صورتحال میں چین اور امریکا کے درمیان انڈو چائنہ اور ایشیا پیسیفک ریجن میں چپقلش نے ویتنام کو سنہری موقع عطا کیا۔ ویتنام نے امریکا اور یورپی ممالک کے ساتھ تجارتی اور جیو پولیٹیکل معاہدوں میں بہترین انداز میں اور عمدہ شرائط پر شرکت کی۔

ایسا نہیں کہ ویتنام میں مسائل کم ہیں، کرپشن عام ہے ،سنگل پارٹی حکومت ہے، اپوزیشن کا نام و نشان نہیں، سنگل پارٹی سوشلسٹ حکومت کا شکنجہ پورے نظام پر حاوی ہے۔فوج اور پارٹی طاقت کے سکے کے دو رخ ہیں۔ معروف معنوں میں ملک میں جمہوریت نہیں ہے لیکن پورے ریجن میں ویتنام ایک مستحکم معیشت اور ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔اس نہج پر پہنچنے میں چند بنیادی فیصلوں میں ایک فیصلہ یہ بھی تھا کہ تاریخ کے پرانے زخم بھلا دیے جائیں ، جنگ و جدل اور دشمنی پر مبنی تاریخ کا ملبہ دفن کر کے ایک نئے جہان کی تعبیر کرنے کا جذبہ تھا۔

پاکستان کی تاریخ اقتدار کی چپقلشوں سے بھرپور ہے۔ ویت نام کے تاریخ بدلاؤ عمل میں پاکستان جیسے ملک کے لیے بہت سے سبق پنہاں ہیں، عقل والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں، اگر کوئی سمجھنا چاہے…تو!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی دہائی میں کی دہائی کے کے طور پر نام کو نام کی ملک کے

پڑھیں:

عوام کی خدمت پر تنقید کی جارہی ہے، ایسا کرنے والوں کی بے بسی سمجھتی ہوں، مریم نواز

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ عوام کی خدمت اور عملی اقدامات پر آج ان پر تنقید کی جا رہی ہے، مگر وہ بخوبی جانتی ہیں کہ ایسے اعتراضات محض بے بسی کا اظہار ہیں۔

میانوالی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہاکہ گجرات جو انتظامی لحاظ سے پنجاب کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے، وہاں ڈرینج سسٹم موجود ہی نہیں تھا۔ اب صوبائی حکومت 26 ارب روپے کی خطیر لاگت سے نیا نظام قائم کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا جلالپور پیروالا کا دورہ، سیلاب متاثرین میں امدادی چیک تقسیم کیے

انہوں نے کہاکہ پنجاب کے تمام شہری برابر ہیں، صرف بیانات دینا اور دعوے کرنا آسان ہوتا ہے، مگر اصل خدمت کے لیے میدان میں اترنا پڑتا ہے۔

سیلاب میں جس کی جان چلی گئی ہے اس کو 10 لاکھ ملے گا ، جن کا مکمل گھر گر گیا ان کو 10 لاکھ اور جن کے گھر کا کچھ حصہ گرا ہے انکو 5 لاکھ روپے دیے جائیں گے جبکہ جس کی گائے یا بھینس بہہ گئی ہے ان کو 5 لاکھ ملے گا ،وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز pic.twitter.com/9crSE6yaJB

— WE News (@WENewsPk) September 15, 2025

وزیراعلیٰ نے کہا کہ گزشتہ 3 ماہ کی مسلسل بارشوں کے بعد بدترین سیلابی صورتحال کا سامنا ہے، مگر اس کڑے وقت میں بھی کچھ لوگ صرف تنقید کو ہی اپنا معمول بنائے ہوئے ہیں۔

مریم نواز نے کہاکہ جب وہ دریائے روای میں کشتی پر گئیں تو یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اگر کوئی حادثہ پیش آجاتا تو کیا ہوتا، لیکن وہ جانتی ہیں کہ اس طرح کی باتیں صرف ناقدین کی لاچاری کو ظاہر کرتی ہیں۔

وزیراعلیٰ نے کہاکہ سیلاب متاثرین کے لیے تین وقت کے کھانے کا بندوبست کیا گیا ہے، ہر خیمہ بستی میں موبائل اسپتال قائم کیا گیا ہے جبکہ جانوروں کی دیکھ بھال اور چارے کا انتظام بھی موجود ہے۔

انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ سیلاب سے ہونے والے تمام نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا، اور اس مقصد کے لیے ابھی سے عملی اقدامات شروع کر دیے گئے ہیں۔

مریم نواز نے کا کہنا تھا کہ پانی میں ڈوبنے اور دیواریں گرنے کے واقعات میں 100 جانیں ضائع ہوئیں۔ جاں بحق افراد کے لواحقین کو فی کس 10 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جن کا مکمل کچا مکان تباہ ہوا انہیں 10 لاکھ روپے، جزوی نقصان والے گھروں کے مالکان کو 5 لاکھ روپے، بڑے مویشی جیسے گائے یا بھینس کے مرنے یا بہہ جانے پر 5 لاکھ روپے جبکہ چھوٹے جانوروں کے نقصان پر 50 ہزار روپے فی کس ادا کیے جائیں گے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ماضی میں امداد کی حد 4 لاکھ روپے تک محدود تھی، لیکن اب وہ 10،10 لاکھ روپے دینے جا رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرین کو ایئر لفٹ کرنے کے لیے پنجاب حکومت کتنے ڈرون استعمال کررہی ہے؟

مریم نواز نے اعلان کیا کہ سیلاب متاثرین ہمارے مہمان ہیں اور جب تک وہ اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹتے، حکومت چین سے نہیں بیٹھے گی۔

2022 میں سیلاب آیا تو اس وقت کے وزیراعظم نے فضائی دورہ کیا، عینک ٹھیک کی نیچے دیکھا اور کہا او ہو بہت نقصان ہوگیا ہے سیلاب آنے کے کل 15 دنوں بعد ان کو ہوش آیا اور اس کیمپ پر جاکر تصویریں بنوا کر آئے جہاں مریم نواز کا ریسکیو کیمپ بنا ہوا تھا ، مریم نواز pic.twitter.com/LRcnqgel7t

— WE News (@WENewsPk) September 15, 2025

انہوں نے عمران خان کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ 2022 میں جب سیلاب آیا تو اس وقت کے وزیراعظم نے فضائی دورہ کیا، عینک ٹھیک کی، نیچے دیکھا اور کہا او ہو! بہت نقصان ہوگیا ہے، سیلاب آنے کے کل 15 دنوں بعد ان کو ہوش آیا اور اس کیمپ پر جاکر تصویریں بنوا کر آئے جہاں مریم نواز کا ریسکیو کیمپ بنا ہوا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بے بسی تنقید سیلاب متاثرین مخالفین مریم نواز وزیراعلٰی پنجاب وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بند ہونا چاہیے‘، رانا ثنا اللہ نے ایسا کیوں کہا؟
  • ویتنام : ٹرک حادثے میں 3 افراد ہلاک‘ کئی زخمی
  • ’اب خود کو انسان سمجھنے لگا ہوں‘، تیز ترین ایتھلیٹ یوسین بولٹ نے خود سے متعلق ایسا کیوں کہا؟
  • زینت امان کو اپنا آپ کبھی خوبصورت کیوں نہ لگا؟ 70 کی دہائی کی گلیمر کوئین کا انکشاف
  • کیا ہم اگلی دہائی میں خلائی مخلوق کا سراغ پا لیں گے؟
  • پی ٹی آئی کے اندر منافق لوگ موجود ہیں، ایک دن بھی ایسا نہیں کہ بانی کی رہائی کیلئے کوشش نہ کی ہو،علی امین گنڈاپور
  • عوام کی خدمت پر تنقید کی جارہی ہے، ایسا کرنے والوں کی بے بسی سمجھتی ہوں، مریم نواز