پی ٹی آئی سے مذاکرات کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
عام حالات میں تو مذاکرات کو سیاسی نظام کے استحکام اور روانی کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے کامیاب مذکرات اور اس کے نتیجہ میںمیثاق جمہوریت کے دستخط ہونے کے ثمرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں ، لیکن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ مذاکرات ، وہ بھی اس وقت، نہ تو سمجھ میں آنے والی بات ہے اور نہ ہی ان سے کوئی خاص امید رکھی جانی چاہے۔
اگرچہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات کو بعض تجزیہ کار اور سیاسی پنڈت ایک خوش آئند قدم قرار دے رہے ہیں لیکن جو لوگ مسٹر عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے رویوں اور سوچ سے اچھی طرح آگاہ ہیں کم از کم وہ تو پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اول تو اس قسم کے مذاکرات کی کامیابی کے امکانات ہی کافی کم ہیں اور اگر کسی طور یہ کامیاب ہو بھی جائیں تو اس کے اثرات دیر پا نہیں ہوں گے۔
پاکستان کی سیاست کا عمومی جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس میں کرپشن ، بڑھک بازی اور ہلڑ بازی کی گنجائش کافی زیادہ ہے اور بدقسمتی سے اسی قسم کی سرگرمیوں میں ملوث کردار ہی سیاست کے میدان میں زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں۔
سیاسی پارٹیوںکا مذکورہ بالا سرگرمیوں میں کردار کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چند سال میں پاکستان تحریک انصاف نے کرپشن، بے ایمانی، جھوٹ اور یو ٹرن کے ساتھ ساتھ ریاست کے ساتھ دشمنی نبھانے کا جو سلسلہ قائم کیا ہے اس کی پہلے کوئی مثال موجود نہ تھی۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ کچھ برس سے پاکستان میں، خاص طور پر 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے حوالہ سے، سیاسی ہنگامہ خیزی کا مرکز رہی ہے۔ یہ تاریخیں ملک کے سیاسی اور سماجی تانے بانے میں پی ٹی آئی کے کردار کے بارے میں تاثر کو تشکیل دینے میں اہم ہیں۔نو مئی کے واقعات میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد بڑے پیمانے پر تشدد، توڑ پھوڑ اور فوجی تنصیبات پر حملوں کے واقعات رونما ہوئے۔ مظاہرین نے راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹر (جی ایچ کیو) اور لاہور اور پشاور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہوں سمیت ریاستی طاقت کی علامتوں کو نشانہ بنایا۔
اس دن ہونے والی لاقانونیت کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی، حتیٰ کہ ناقدین نے پی ٹی آئی کی قیادت پر ریاست کی سالمیت پر حملے کے لیے اکسانے والوں کا لیبل تک لگا دیا۔
ہمیں یاد ہے کہ یہی سیاسی جماعت سال 2014 میں صرف اور صرف اقتدار کے حصول کا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے دھرنا کے نام پر 126 دن تک وفاقی دالحکومت کو مفلوج بنا کر بیٹھی رہی تھی۔ اس کے علاوہ یہی جماعت ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد متعدد بار اسلام آباد پر یلغار کرنے اور اسے مفلوج بنانے کی ناکام کوششیں بھی کر چکی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ ملک کی اقتصادی صورتحال کو نقصان پہنچانے کے لیے بین الاقوامی ادروں کو خط لکھنا اور سول نافرمانی کی کالیں دینا بھی اسی سیاسی پارٹی کا خاصہ رہا ہے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ چونکہ پی ٹی آئی جھوٹ اور یو ٹرن کی چیمپین بھی گردانی جاتی ہے اسی وجہ سے انہوں پہلے تو اپنے کارکنان کو ورغلانے اور بھڑکانے کے بعد ریاستی اداروں پر حملے کروائے اور پھر ریاستی اداروں کے حرکت میں آنے کے بعد ان بلوائیوں سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اعلان بھی کر ڈالا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے ہتھکنڈے پاکستان کے سیاسی کلچر میں ایک خطرناک نظیر کی عکاسی کرتے ہیں۔
ٖغرض ایک بات تو طے ہے کہ ریاست کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں پی ٹی آئی کسی بھی سطح تک جا سکتی ہے۔ یہ بھی کوئی ماننے والی بات نہیں کہ پاکستان کے ریاستی ادارے اتنے کمزور ہیں کہ اس قسم کی صورتحال کو مکمل طور پر کنٹرول نہ کر سکیں، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب تک انہیں کھلی چھٹی کیوں ملی ہوئی ہے؟
اس کی دو بنیادی اور موٹی وجوہات سمجھ میں آتی ہیں پہلی یہ کہ اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث کرداروں نے تحفظ کے لیے اپنے اوپر ایک سیاسی جماعت کی چھتری تانی ہوئی ہے اور جب بھی ریاستی سطح پر ان کے خلاف کوئی ایکشن ہونے لگتا ہے ہے تو ان کا پراپیگنڈہ سیل اسے سیاسی استحصال کا رنگ دے کا بچت کا کوئی پہلو نکال لیتا ہے ۔ اس وقت بھی ریاستی اداروں پر حملے کرنے ، انہیں نقصان پہنچانے اور سوشل میڈیا پر منفی پراپیگنڈا کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار افراد کو سیاسی قیدی بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
دوسری وجہ بین الاقوامی پراپیگنڈا ہے جس کا ٹھیکہ وسیع فنڈز کے عوض بڑی بڑی لابسٹ فرموں کو دیا گیا ہے جو یورپ، برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں میڈیا اور سیاسی حلقوں کے ذریعے یہ تاثر قائم کرنے کی کوششیں کرتی ہیں کہ اگر ان ہلڑ بازوں اور تخریب کاروں کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی تو وہ بہت بڑا ظلم، ریاستی جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی۔
شائد یہ اسی پراپیگنڈا اور بین الاقوامی پریشر کا اثر ہے کہ حکومت اور ریاست آج پی ٹی آئی سے مذاکرات پر مجبور ہیں اور انہیں مختلف حیلے بہانوں سے ریلیف دینے پر بھی غور ہو رہا ہے۔ اگر ریاستی اداروں پر حملے کرنا اور انہیں نقصان پہنچانا اور ڈیوٹی پر موجود سرکاری اہلکاروں کو شہید کرنا قابل معافی جرم قرار پا گیا ہے اور اس قسم کے واقعات میں ملوث افراد سے مذاکرات بھی ہونے لگے ہیں اور انہیں ریلیف بھی دیا جا نے لگا ہے تو کیا یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کل اسی قسم کی سہولت پاکستانی طالبان اور فتنہ الخوارج جیسے کرداروں کو بھی حاصل ہو گی؟
سانحہ نو مئی اور 26نومبر کے ذمہ داروں کے خلاف ریاست کے ایک مستحکم رویہ سے ریاست کی مضبوطی کا جو تاثر ابھرا تھاحکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات اور ریاست پر حملہ آور ہونے والوں کے لیے لچکدار رویہ کی وجہ سے شائد وہ ضائع ہونے کو ہے۔
اگر حکومت میں شامل جماعتیں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (نواز) یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی سیاسی ساکھ کو داو پر لگا کر ملک کو درپیش بدترین معاشی مشکلات کے دوران حکومت سنبھالی تھی تو میرا خیال ہے کہ انہیں پی ٹی آئی سے مذاکرات اور انہیں کسی بھی قسم کا ریلیف دینے سے انکار کر کے اس قسم کی قربانی ایک مرتبہ پھر سے دینی چاہیے تھی۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پاکستان تحریک انصاف ریاستی اداروں پی ٹی ا ئی کے سے مذاکرات کے واقعات اور انہیں پر حملے کے ساتھ ہے اور کے لیے کے بعد قسم کی ہیں کہ
پڑھیں:
پاکستان بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے لیے تیار، شہباز شریف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) اسلام آباد میں بدھ کے روز برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔ اس موقع پر شہباز شریف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ لڑائی کے دوران کشیدگی کو کم کرنے میں برطانیہ کے کردار کو سراہا۔
ریڈیوپاکستان کے مطابق اس موقع پر پاکستانی وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ "پاکستان تمام تصفیہ طلب معاملات پر بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے لیے تیار" ہے۔
پاکستان نے پہلے بھی بھارت کو کشمیر کے تنازعہ اور پانی کی تقسیم سمیت تمام متنازعہ مسائل کو حل کرنے کے لیے جامع مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ تاہم بھارت نے ابھی تک اس کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔
پاکستانی وزیر اعظم نے برطانوی حکومت کی جانب سے برطانیہ کے لیے پی آئی اے کی پروازیں بحال کرنے کے فیصلے کا بھی خیرمقدم کیا اور ہائی کمشنر کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا، "یہ (فیصلہ) پاکستانی-برطانوی کمیونٹی کو درپیش مشکلات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے درمیان عوامی تبادلے کو بڑھانے میں ایک طویل سفر طے کرے گا۔
(جاری ہے)
"وزیر اعظم پاکستان نے کہا، "پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی برطانیہ کے ساتھ قریبی تعاون کر رہا ہے، جس کی اس وقت پاکستان کے پاس ماہانہ صدارت ہے۔" میریٹ نے وزیر اعظم شہباز کو اپنے حالیہ دورہ لندن کے بارے میں آگاہ کیا، جہاں انہوں نے دوطرفہ تعلقات کو بڑھانے کے حوالے سے وسیع مشاورت کی۔
سلامتی کونسل میں پاکستانی سفیر کا بھارت پر جوابی حملہبدھ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کے ایلچی عثمان جدون نے سرحد پار دہشت گردی سے متعلق بھارتی الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "بھارت مظلوم بننے اور الزام تراشی کے تھکے ہوئے بیانیہ" کا سہارا لینے کے بجائے اب اپنا رویہ بدلے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اقوام متحدہ میں بھارتی سفیر پرواتھنی ہریش نے پاکستان پر "سرحد پار دہشت گردی پھیلانے" کا الزام لگایا تھا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کے نائب مستقل نمائندے عثمان جدون نے سکیورٹی کونسل کے 15 رکنی ادارے کو بتایا کہ اصل میں: "یہ بھارت ہے جو میرے ملک اور اس سے باہر بھی دہشت گردی کو فعال طور پر تعاون، مدد اور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "گھمنڈ اور رعونت کے غلط احساس سے اندھے ہونے کے بجائے، مظلوم ہونے اور الزام تراشی کے اپنے تھکے ہوئے بیانیے کا سہارا لینے کے بجائے، بھارت کو سنجیدگی سے خود کا جائزہ لینا چاہیے۔ اپنے رویے میں تبدیلی لانی چاہیے اور تمام معاملات پر اپنی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کی تعمیل کرنی چاہیے۔"
عثمان جدون نے کہا کہ خاص طور پر افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارتی سفیر نے منگل کے روز پاکستان کو اس وقت نشانہ بنایا، جب دن کے اوائل میں ہی کونسل نے اتفاق رائے سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں اور تنازعات کے پرامن حل، بین الاقوامی قانون کے احترام اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر موثر عمل درآمد کی ضرورت کی حمایت کی تھی۔
کشمیر پر 'بھارت کی خلاف ورزیاں'پاکستانی ایلچی نے اپنی تقریر کے دوران اس بات پر زور دیا کہ "سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے پر بھارت کا غیر قانونی قبضہ ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "اقوام متحدہ کے چارٹر اور مبینہ طور پر تنازعات کے پرامن حل کے اصول کی پاسداری کا دعویٰ کرتے ہوئے، بھارت جموں و کشمیر کے تنازعے پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اس کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اس طرح اس نے کشمیری عوام کو ان کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے استعمال سے بھی منع کر رکھا ہے۔"انہوں نے مزید کہا کہ "ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارت، جو خود جموں و کشمیر کے تنازعے کو سلامتی کونسل میں لے کر آیا تھا، اس تنازعہ کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے کونسل کی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کرنے سے انکار کر رہا ہے۔"
جدون نے مزید کہا کہ "بھارت کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، جموں و کشمیر کے مقبوضہ علاقوں سے بھی باہر پھیلی ہوئی ہیں اور اقلیتوں کے ساتھ اس کا جو ہولناک سلوک ہے اسے بھی بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا ہے۔
" بھارت کے چھ طیارے تباہ کرنے کا دعویپاکستانی سفیر نے اس موقع پر مئی کے اوائل میں بھارت کے حملے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ جواب میں پاکستان اپنے دفاع کے حق کے تحت "مناسب لیکن نپی تلی جوابی کارروائی کی"۔ انہوں نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد خصوصی طور بھارت کے فوجی اہداف کو نشانہ بنانا تھا، جس کے نتیجے میں "دیگر اہم فوجی نقصانات کے علاوہ جارحیت میں حصہ لینے والے چھ بھارتی طیاروں کو مار گرایا گیا۔
"جدون نے مندوبین کو بتایا، "پاکستان کی طاقت اور ذمہ دارانہ اندازِ فکر اور پھر امریکہ کی سہولت کاری کی وجہ سے اس دشمنی کا خاتمہ ہوا، جیسا کہ صبح امریکہ کے بیان میں بھی اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔"
بھارتی مندوب نے اس سے قبل کیا کہا تھا؟منگل کے روز اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب نے پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا اورپہلگام واقعے کے بعد پاکستان پر بھارتی حملوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ اس نے "دہشت گردوں کے ٹھکانوں" کو ہی نشانہ بنایا۔
اور کہا کہ بھارت "اقوام متحدہ کی امن فوجوں میں سب سے بڑا حصہ دینے والا ملک ہے۔"واضح رہے کہ بھارت متنازعہ خطہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ حصہ بتاتا ہے اور پاکستان کے زیر انتظام علاقے پر بھی اپنا دعوی کرتا ہے۔
بھارتی مندوب ہریش نے پاکستان پر نکتہ چینی کرنے کے لیے بھارتی معیشت کی ترقی کو اجاگر کیا اور کہا بھارت ایک بڑی معیشت کے طور پر ابھر رہا ہے، جبکہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کی بنیاد پر ٹکا ہے۔
واضح رہے کہ 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد ایٹمی ہتھیاروں سے لیس بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی تصادم شروع ہو گیا تھا، کیونکہ نئی دہلی نے اس کا الزام اسلام آباد پر لگایا۔ تاہم پاکستان نے اس کی سختی سے تردید کی اور واقعے کے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا اور پھر چار روز ہ لڑائی کے بعد امریکی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی نے لڑائی کا خاتمہ کیا۔
اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید تعطل کا شاکر ہو گئے ہیں۔
ادارت: جاوید اختر