Nai Baat:
2025-04-25@05:03:18 GMT

پی ٹی آئی سے مذاکرات کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

پی ٹی آئی سے مذاکرات کیوں؟

عام حالات میں تو مذاکرات کو سیاسی نظام کے استحکام اور روانی کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے کامیاب مذکرات اور اس کے نتیجہ میںمیثاق جمہوریت کے دستخط ہونے کے ثمرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں ، لیکن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ مذاکرات ، وہ بھی اس وقت، نہ تو سمجھ میں آنے والی بات ہے اور نہ ہی ان سے کوئی خاص امید رکھی جانی چاہے۔

اگرچہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات کو بعض تجزیہ کار اور سیاسی پنڈت ایک خوش آئند قدم قرار دے رہے ہیں لیکن جو لوگ مسٹر عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے رویوں اور سوچ سے اچھی طرح آگاہ ہیں کم از کم وہ تو پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اول تو اس قسم کے مذاکرات کی کامیابی کے امکانات ہی کافی کم ہیں اور اگر کسی طور یہ کامیاب ہو بھی جائیں تو اس کے اثرات دیر پا نہیں ہوں گے۔

پاکستان کی سیاست کا عمومی جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس میں کرپشن ، بڑھک بازی اور ہلڑ بازی کی گنجائش کافی زیادہ ہے اور بدقسمتی سے اسی قسم کی سرگرمیوں میں ملوث کردار ہی سیاست کے میدان میں زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں۔
سیاسی پارٹیوںکا مذکورہ بالا سرگرمیوں میں کردار کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چند سال میں پاکستان تحریک انصاف نے کرپشن، بے ایمانی، جھوٹ اور یو ٹرن کے ساتھ ساتھ ریاست کے ساتھ دشمنی نبھانے کا جو سلسلہ قائم کیا ہے اس کی پہلے کوئی مثال موجود نہ تھی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ کچھ برس سے پاکستان میں، خاص طور پر 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے حوالہ سے، سیاسی ہنگامہ خیزی کا مرکز رہی ہے۔ یہ تاریخیں ملک کے سیاسی اور سماجی تانے بانے میں پی ٹی آئی کے کردار کے بارے میں تاثر کو تشکیل دینے میں اہم ہیں۔نو مئی کے واقعات میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد بڑے پیمانے پر تشدد، توڑ پھوڑ اور فوجی تنصیبات پر حملوں کے واقعات رونما ہوئے۔ مظاہرین نے راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹر (جی ایچ کیو) اور لاہور اور پشاور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہوں سمیت ریاستی طاقت کی علامتوں کو نشانہ بنایا۔

اس دن ہونے والی لاقانونیت کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی، حتیٰ کہ ناقدین نے پی ٹی آئی کی قیادت پر ریاست کی سالمیت پر حملے کے لیے اکسانے والوں کا لیبل تک لگا دیا۔
ہمیں یاد ہے کہ یہی سیاسی جماعت سال 2014 میں صرف اور صرف اقتدار کے حصول کا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے دھرنا کے نام پر 126 دن تک وفاقی دالحکومت کو مفلوج بنا کر بیٹھی رہی تھی۔ اس کے علاوہ یہی جماعت ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد متعدد بار اسلام آباد پر یلغار کرنے اور اسے مفلوج بنانے کی ناکام کوششیں بھی کر چکی ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ ملک کی اقتصادی صورتحال کو نقصان پہنچانے کے لیے بین الاقوامی ادروں کو خط لکھنا اور سول نافرمانی کی کالیں دینا بھی اسی سیاسی پارٹی کا خاصہ رہا ہے ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ چونکہ پی ٹی آئی جھوٹ اور یو ٹرن کی چیمپین بھی گردانی جاتی ہے اسی وجہ سے انہوں پہلے تو اپنے کارکنان کو ورغلانے اور بھڑکانے کے بعد ریاستی اداروں پر حملے کروائے اور پھر ریاستی اداروں کے حرکت میں آنے کے بعد ان بلوائیوں سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اعلان بھی کر ڈالا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے ہتھکنڈے پاکستان کے سیاسی کلچر میں ایک خطرناک نظیر کی عکاسی کرتے ہیں۔

ٖغرض ایک بات تو طے ہے کہ ریاست کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں پی ٹی آئی کسی بھی سطح تک جا سکتی ہے۔ یہ بھی کوئی ماننے والی بات نہیں کہ پاکستان کے ریاستی ادارے اتنے کمزور ہیں کہ اس قسم کی صورتحال کو مکمل طور پر کنٹرول نہ کر سکیں، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب تک انہیں کھلی چھٹی کیوں ملی ہوئی ہے؟
اس کی دو بنیادی اور موٹی وجوہات سمجھ میں آتی ہیں پہلی یہ کہ اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث کرداروں نے تحفظ کے لیے اپنے اوپر ایک سیاسی جماعت کی چھتری تانی ہوئی ہے اور جب بھی ریاستی سطح پر ان کے خلاف کوئی ایکشن ہونے لگتا ہے ہے تو ان کا پراپیگنڈہ سیل اسے سیاسی استحصال کا رنگ دے کا بچت کا کوئی پہلو نکال لیتا ہے ۔ اس وقت بھی ریاستی اداروں پر حملے کرنے ، انہیں نقصان پہنچانے اور سوشل میڈیا پر منفی پراپیگنڈا کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار افراد کو سیاسی قیدی بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

دوسری وجہ بین الاقوامی پراپیگنڈا ہے جس کا ٹھیکہ وسیع فنڈز کے عوض بڑی بڑی لابسٹ فرموں کو دیا گیا ہے جو یورپ، برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں میڈیا اور سیاسی حلقوں کے ذریعے یہ تاثر قائم کرنے کی کوششیں کرتی ہیں کہ اگر ان ہلڑ بازوں اور تخریب کاروں کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی تو وہ بہت بڑا ظلم، ریاستی جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی۔

شائد یہ اسی پراپیگنڈا اور بین الاقوامی پریشر کا اثر ہے کہ حکومت اور ریاست آج پی ٹی آئی سے مذاکرات پر مجبور ہیں اور انہیں مختلف حیلے بہانوں سے ریلیف دینے پر بھی غور ہو رہا ہے۔ اگر ریاستی اداروں پر حملے کرنا اور انہیں نقصان پہنچانا اور ڈیوٹی پر موجود سرکاری اہلکاروں کو شہید کرنا قابل معافی جرم قرار پا گیا ہے اور اس قسم کے واقعات میں ملوث افراد سے مذاکرات بھی ہونے لگے ہیں اور انہیں ریلیف بھی دیا جا نے لگا ہے تو کیا یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کل اسی قسم کی سہولت پاکستانی طالبان اور فتنہ الخوارج جیسے کرداروں کو بھی حاصل ہو گی؟
سانحہ نو مئی اور 26نومبر کے ذمہ داروں کے خلاف ریاست کے ایک مستحکم رویہ سے ریاست کی مضبوطی کا جو تاثر ابھرا تھاحکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات اور ریاست پر حملہ آور ہونے والوں کے لیے لچکدار رویہ کی وجہ سے شائد وہ ضائع ہونے کو ہے۔

اگر حکومت میں شامل جماعتیں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (نواز) یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی سیاسی ساکھ کو داو پر لگا کر ملک کو درپیش بدترین معاشی مشکلات کے دوران حکومت سنبھالی تھی تو میرا خیال ہے کہ انہیں پی ٹی آئی سے مذاکرات اور انہیں کسی بھی قسم کا ریلیف دینے سے انکار کر کے اس قسم کی قربانی ایک مرتبہ پھر سے دینی چاہیے تھی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پاکستان تحریک انصاف ریاستی اداروں پی ٹی ا ئی کے سے مذاکرات کے واقعات اور انہیں پر حملے کے ساتھ ہے اور کے لیے کے بعد قسم کی ہیں کہ

پڑھیں:

تجارتی مسائل دباؤ سے نہیں مذاکرات اور سفارتکاری سے حل کرنے کی ضرورت ہے: عاصم افتخار احمد

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مسقتل مندوب عاصم افتخار—تصویر بشکریہ غیر ملکی میڈیا

پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے کہا ہے کہ تجارتی مسائل دباؤ سے نہیں مذاکرات اور سفارت کاری سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں کثیر الجہتی نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مستقل مندوب عاصم افتخار نے کہا ہے کہ ہمیں اپنے اختلافات کو بات چیت کے ذریعےحل کرنا چاہیے، دباؤ کے ذریعے شرائط پر عمل درآمد کے لیے حکم دینا مناسب نہیں ہو گا۔

عاصم افتخار نے یو این میں پاکستان کے مستقل مندوب کا منصب سنبھال لیا

سفیر عاصم افتخار احمد نے سفیر منیر اکرم کی جگہ لی ہے، جو 31 مارچ 2025 کو اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد اس منصب سے سبکدوش ہوئے ہیں۔

پاکستانی مندوب نے کثیر الجہتی اقدامات کے لیے اعتماد کی بحالی پر زور دیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آج دنیا جنگوں، عدم برابری، معاشی عدم استحکام اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی کا سامنا کر رہی ہے، یہ بات امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سری نگر میں مسلح غیر ملکی موجود ہیں، پاکستان جانتا ہے کہ وہ کیوں وہاں موجود ہیں
  • پیر پگارا کی حر جماعت کو دفاع وطن کیلئے تیار رہنے کی ہدایت
  • تجارتی مسائل دباؤ سے نہیں مذاکرات اور سفارتکاری سے حل کرنے کی ضرورت ہے: عاصم افتخار احمد
  • بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
  • پیر پگارا کا افواج پاکستان سے مکمل اظہارِ یکجہتی، حر جماعت کو دفاع وطن کے لیے تیار رہنے کی ہدایت
  • نیشنل ایکشن پلان کا اجلاس فوری طور پر بلایا جائے ، تحریک انصاف شامل ہو: فیصل واوڈا
  • نیشنل ایکشن پلان کا اجلاس فوراً بلایا جائے جس میں پی ٹی آئی بھی شامل ہو، فیصل واوڈا
  • آئی ایم ایف کے پاکستانی سول سروس سسٹم پر خدشات، تقرریوں میں سیاسی مداخلت کی نشاندہی
  • آئی ایم ایف کے پاکستانی سول سروس سسٹم پر خدشات، تقرریوں میں سیاسی مداخلت کی نشاندہی
  • یہ سونا بیچنے کا نہیں بلکہ خریدنے کا وقت ہے، مگر کیوں؟