آئین اچھا ہے یا برا، اس کو فالوکرنا چاہئے،شاہد خاقان عباسی
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)سینئر سیاستدان شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ ہمیں الزامات کا کھیل ختم کرنا ہوگا، آئین اچھا ہے یا برا، اس کو فالوکرنا چاہئے۔
شاہد خاقان عباسی کاکہناتھا کہ کسی کو آئین پسند نہیں تو ملکر اسے تبدیل کریں لیکن توڑیں نہیں،ان کا کہناتھا کہ معیشت ٹھیک ہو گی تو ملک بھی ٹھیک ہو جائے گا، آج کا نوجوان معاشی حل چاہتا ہے،آپ نے جو کرنا ہے آئین کے اندر رہ کرکرنا ہے،شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ آئین سے باہر جاتے ہیں تو مشکل ہوتی ہے،جو کہتا ہے مجھے کام نہیں کرنے دیا ، اسے چاہئے استعفیٰ دے اور گھر جائے۔
عمران خان کی جانب سے این آر اوپر دستخط کا سوال، حامد رضا نے کیا جواب دیا؟
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: شاہد خاقان عباسی
پڑھیں:
شاہد حامد قتل کیس کا 28 سال بعد فیصلہ سنا دیا گیا، منہاج قاضی کو بڑا ریلیف مل گیا
انسداد دہشتگردی عدالت نے 28 سال بعد سابق ایم ڈی کے ای ایس سی شاہد حامد قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا،عدم شواہد کی بنا پر منہاج قاضی اور محبوب غفران کو بری کردیا گیا ہے۔
پراسیکیوشن کے مطابق مقدمے میں ملوث صولت مرزا کوعدالت نے 1999میں سزائے موت سنائی تھی، 2016 میں پولیس نے منہاج قاضی اور محبوب غفران کو گرفتار کیا تھا، صولت مرزا، منہاج قاضی اور دیگر کے خلاف ڈیفنس پولیس نے مقدمہ درج کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: صولت مرزا نے کبھی اعترافِ جرم نہیں کیا تھا، سزا سنانے والے جج نے مزید کیا انکشافات کیے؟
18 مارچ 2015 کو ویڈیو پیغام میں صولت مرزا نے کھا تھا کہ کس طرح انہیں استعمال کر کے ٹشو پیپرکی طرح پھینک دیا گیا، صولت مرزا نے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین پر کے ای ایس سی کے سابق سربراہ شاہد حامد کے قتل کا حکم دینے کا الزام عائد کیا تھا۔
صولت مرزا نے حکام سے اپیل کی تھی کہ ان کی سزا پر عمل درآمد میں کچھ تاخیر کی جائے تاکہ وہ مزید انکشاف کرسکیں اور ان کے ’ایسے بہت سے ساتھی ہیں جو ملک کے اندر اور باہر اس بات کا اعتراف کریں گے کہ ایم کیو ایم نے ان سے کیا کروایا، وہ خوف کی وجہ سے اعتراف نہیں کرپارہے، اس بیان کے بعد ان کی سزا پر عملدر آمد روک دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وہ اعترافی بیانات جن سے براہِ راست اعلیٰ سیاسی قیادت متاثر ہوئی
پولیس کے مطابق صولت مرزا کو دسمبر 1998 میں بینکاک سے واپسی پر کراچی ایئرپورٹ پر گرفتار کیا تھا اور اُن کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ہوئی، عدالت نے 1999 میں صولت مرزا پر جرم ثابت ہونے پر انھیں پھانسی کی سزا سنائی تھی، اس سزا کے خلاف انھوں نے سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جو مسترد ہو گئیں۔
محکمہ داخلہ سندھ اور صدرِ پاکستان کے پاس اُن کی رحم کی اپیل ایک بڑے عرصے تک التوا کا شکار رہی، پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دیگر کئی اپیلوں کے ساتھ صدر پاکستان نے صولت مرزا کی بھی اپیل مسترد کردی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news انسداد دہشتگردی عدالت شاہد حامد قتل کیس کے ای ایس ای