القادر ٹرسٹ کیس کے فیصلے کے عمران خان اور حکومت پی ٹی آئی مذاکرات پر کیا اثرات ہوں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف القادر ٹرسٹ کے 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا کل اڈیالہ جیل میں سنائیں گے۔
ایک طرف سینیئر سیاستدان فیصل واوڈا کہہ چکے ہیں کہ اس کیس میں عمران خان کو ضرور سزا ہوگی تو دوسری طرف حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کی بات آگے بڑھ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سیاسی تناؤ کا خاتمہ چاہتے ہیں، پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے کوئی دباؤ نہیں، خواجہ آصف
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہے کہ تمام اراکین ہیں پارلیمنٹ کے لیے میرے دفتر کے دروازے 24 گھنٹے کھلے ہیں۔
وی نیوز نے قانونی ماہرین اور سیاسی تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس کے فیصلے کے بعد عمران خان کا مستقبل کیا ہوگا اور حکومت اور پی ٹی ائی کے مذاکرات پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟
عمران خان کو قید میں رکھنے پر سوال اٹھیں گےسینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو اگر کل القادر ٹرسٹ کیس سے بری کیا جاتا ہے تو میرا نہیں خیال کہ ان کی رہائی ممکن ہوگی، لیکن ایک بات ہے کہ یہ تاثر مزید جنم لے گا کہ عمران خان کو بے قصور قید کیا گیا ہے۔ جس طرح پی ٹی آئی رہنما اور کارکن کہتے ہیں کہ ان کے لیڈر عمران خان بے گناہ ہیں، اگر کل کا فیصلہ عمران خان کے حق میں آ جاتا ہے تو عمران خان کو قید میں رکھنے پر سوال اٹھیں گے، لیکن فیصلے پر تجزیہ کرنا صحیح نہیں ہے جو بھی فیصلہ آئے گا وہ قانونی تقاضے پورے کر کے شہادتوں کی روشنی میں آئے گا۔
یہ بھی پڑھیں:ایسا نہیں ہوسکتا کہ عمران خان کو سزا سنائی جائے اور مذاکرات خوشگوار ماحول میں ہوں، حامد رضا
فیصلہ حکومت اور پی ٹی ائی کے مذاکرات پر اثر انداز نہیں ہوگامجیب الرحمٰن شامی نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ حکومت اور پی ٹی ائی کے مذاکرات پر اثر انداز نہیں ہوگا، حکومت بھی مذاکرات چاہتی ہے اور پی ٹی آئی بھی مذاکرات چاہتی ہے۔ اگر فیصلہ عمران خان کے حق میں آ جائے تو مذاکرات کچھ تیزی سے بڑھ سکیں گے، لیکن اگر فیصلہ خلاف آئے تو کچھ تلخی بڑھے گی لیکن فریقین مذاکرات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:خواجہ آصف اور مریم نواز مذاکرات ناکام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اسد قیصر
عمران خان کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گیماہر قانون حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر کل عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں سزا ہو جاتی ہے تو عمران خان کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی، لیکن اگر ان کو اس کے کیس سے بری کر دیا جاتا ہے تو عمران خان کی رہائی آئندہ چند روز میں ممکن ہو سکے گی، کیونکہ اس وقت صرف یہی ایک خاص کیس ہے جس میں عمران خان قید ہیں دیگر کیسز میں یا تو عمران خان کی سزا معطل ہو چکی ہے یا پھر ان کو ضمانت مل چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بھی کسی ملزم کو کسی کیس سے بری کیا جاتا ہے تو اس کے روبکار جاری کرتے وقت اس میں آخر میں لکھا جاتا ہے کہ اگر کسی اور مقدمے میں ملزم مطلوب نہیں ہے یا گرفتار نہیں ہے تو اسے فوری طور پر رہا کر دیا جائے۔
اس کیس میں اختیارات سے تجاوز کرنے کا بھی معاملہ ہےحسن رضا پاشا نے کہا کہ عدالت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وکلا جس طرح یہ کہہ رہے ہیں کہ القادر ٹرسٹ کیس بہت کمزور ہے اور عمران خان کی رہائی ممکن ہو جائے گی یا ان کو بری کیا جائے گا، میرا نہیں خیال کہ ایسا کچھ ہے، میرے خیال میں کہ اس کیس میں اختیارات سے تجاوز کرنے کا بھی معاملہ ہے اور دوسرا جو سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ کیا جو کچھ کیا گیا وہ مجرمانہ ارادے سے شعوری طور پر کیا گیا اور قانون کیخلاف ورزی کی گئی، لیکن پھر بھی یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور کل فیصلہ آنے کے بعد ہی سب کچھ واضح ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی سے مذاکرات میں موجودہ صورتحال کی ذمہ دار ن لیگ نہیں، عرفان صدیقی
عمران خان کی فوری رہائی ممکن نہیںسینیئر تجزیہ کار انصار عباسی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ القادر ٹرسٹ کیس کا جو بھی فیصلہ آئے ایک بات تو واضح ہے کہ عمران خان کی فوری رہائی ممکن نہیں ہے۔ عمران خان کیخلاف 9 مئی کے بھی مقدمات زیر سماعت ہیں جو کہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:حکومت پی ٹی آئی مذاکرات خوش آئند، ایک دوسرے کا وجود تسلیم کرنا ہوگا، انوارالحق کاکڑ
مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑے گاانصار عباسی نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کیس کے فیصلے کا حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ پی ٹی آئی اور عمران خان کہہ چکے ہیں کہ اس کیس کے فیصلے کا مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کو معلوم ہے اس کیس میں عمران خان اور جو دیگر ملزمان ہیں ان کو سزا ملنی ہے، لیکن اگر پی ٹی آئی کو یا عمران خان کو کچھ ریلیف چاہیے تو وہ مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہو گا، اس لیے پی ٹی آئی بھی یہ نہیں چاہتی کہ اس کیس کا فیصلہ مذاکرات کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ بنے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
190 ملین پونڈ کیس انصارعباسی پی ٹی آئی حسن رضا پاشا عمران خان۔ مجیب الرحمان شامی مذاکرات.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 190 ملین پونڈ کیس پی ٹی ا ئی حسن رضا پاشا مجیب الرحمان شامی مذاکرات کہ القادر ٹرسٹ کیس حکومت اور پی ٹی تو عمران خان عمران خان کی کہ عمران خان عمران خان کو اور پی ٹی ا کے مذاکرات رہائی ممکن مذاکرات پر اس کیس میں پی ٹی ا ئی پی ٹی آئی کہ اس کیس کا فیصلہ نہیں ہے ممکن ہو ہیں کہ ہے اور کیس کا
پڑھیں:
کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔
بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔
صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔
طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔
ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔
یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔