انتہا پسندانہ خیالات اور فتوؤں سے لڑکیوں کی تعلیم کو بدنام نہ کیا جائے، عالمی تعلیمی کانفرنس
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
اسلام آباد:
رابطہ اسلامی اور مسلم ورلڈ لیگ کے زیراہتمام ’’ مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم، چیلنجز اور مواقع ‘‘کے موضوع پر2 روزہ بین الاقوامی تعلیمی کانفرنس کے اختتام پر جاری اعلامیے میں واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اسلام میں لڑکیوں کی تعلیم کی بڑی اہمیت ہے،انتہا پسندانہ خیالات اورفتوؤں سے اسے بدنام نہ کیا جائے۔
اس کانفرنس میں او آئی سی، اقوام متحدہ، رابطہ اسلامی سمیت دنیا بھر سے مفکرین و ماہرین نے شرکت کی۔کانفرنس میں لڑکیوں کی تعلیم کے متعدد معاہدوں پر دستخط کیے گئے،کانفرنس کے اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ مسلم ممالک نے صحیح سمت میں قدم اٹھاتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم کو سراہا ہے۔
شرکا نے لڑکیوں کی تعلیم صرف مذہبی نہیں بلکہ معاشرتی اعتبار سے اہم قرار دی۔ کانفرنس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تعلیمی عمل کو منظم کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے ۔اعلامیے میں غربت اور سماجی چیلنجز والے معاشروں میں لڑکیوں کو تعلیمی سکالر شپ دینے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔
کل کانفرنس کے اختتامی سیشن میں کلیدی خطاب کرتے ہوئے نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ نبی کریمؐ پر نازل ہونے والی پہلی وحی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سیکھنا اسلام کی بنیاد ہے، یہ تمام مردوں، عورتوں، لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے پیغام ہے کہ وہ لکھنے، پڑھنے اور سیکھنے کے ذریعے ترقی اور بااختیار ہونے کی کوشش کریں لیکن طالبان نے ایک دہائی سے تعلیم کا حق چھین رکھا ہے،وہ خواتین کو انسان نہیں سمجھتے۔
طالبان نے خواتین کے حقوق چھیننے کیلیے 100 سے زائد قانون سازیاں کی ہیں دوسری طرف اسرائیل نے اسکولوں سمیت غزہ میں پورا نظام تعلیم تباہ کردیا ہے،وہاں 90 فیصد یونیورسٹیاں بھی تباہ ہوچکی ہیں،فلسطین کے بچوں نے اپنی زندگی اور اپنا مستقبل کھودیاہے،اسرائیل طرف سے عالمی قوانین کی ان خلاف ورزی پرآوازبلند کرتی رہوں گی۔
ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ مسلم ورلڈ لیگ کا شکریہ جنہوں نے ہمیں یہاں اکٹھا کیا ہے،پاکستان سے میں نے اپنا سفر شروع کیا اور میرا دل ہمیشہ پاکستان میں رہتا ہے۔
دنیا میں 12 کروڑ جبکہ پاکستان میں سوا کروڑ لڑکیاں سکول نہیں جاتیں۔ملالہ نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوگا جب تک ہم افغان لڑکیوں کی تعلیم کی بات نہ کریں، طالبان اپنے جرائم کو ثقافت اورمذہبی جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں، ہمیں یہ بات بالکل واضح کرنی چاہیے کہ اس میں کچھ بھی اسلامی نہیں ہے۔
حضرت عائشہ اور فاطمہ جناح جیسی خواتین ہمارے لیے مشعل راہ ہیں،معیشت کی بہتری کیلیے خواتین کا کردار اتنا ہی اہم ہے جتنا مردوں کا، وقت آگیا ہے کہ مسلم لیڈردنیا کو اسلام کا اصل اور مثبت تشخص دکھائیں۔
وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ مسلم ورلڈ لیگ نے بہت اہم موضوع پر تعلیمی کانفرنس کا انعقاد کیا، پاکستان میں کانفرنس کا انعقاد ہمارے لیے خوش آئند ہے۔خواتین کو بااختیار بنانے میں تعلیم کا سب سے اہم کردار ہے، تعلیم کے باعث ہی معاشرے ترقی کرتے ہیں، پاکستان میں ہر لڑکی کیلیے معیاری تعلیم کی رسائی ممکن بنائیں گے۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ تعلیم ترقی کی کنجی ہے، ہمارے مذہبی عقائد بھی ہمیں تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرواتے ہیں، خواتین کو بااختیار بنانے اور بہتر مستقبل کیلیے تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا،ملالہ یوسفزئی تعلیم سے متعلق دنیا بھر کی لڑکیوں کیلیے رول ماڈل ہیں۔
مسلم ورلڈ لیگ کا شکرگزار ہوں، جنہوں نے ہمیں اکٹھا کیا۔حضور پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ علم حاصل کرنا ہر ایک پر فرض ہے،شہید محترمہ بینظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں،ہمیں صنفی امتیاز سے بالاتر ہوکر سوچنا ہوگا، ہر لڑکی کے حصول تعلیم تک حکومت اپنا مشن جاری رکھے گی۔
تقریب میں ملالہ کو مسلم ورلڈ لیگ کی جانب سے اعزازی شیلڈ سے نوازا گیا۔بین الاقوامی کانفرنس کے اختتامی روزچیئرمین سینٹ سید یوسف رضاگیلانی کی جانب سے کانفرنس کے شرکاء کے اعزازمیں ایک سادہ مگرپروقارتقریب کااہتمام کیاگیا،جس میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی ،سیکرٹری جنرل مسلم ورلڈلیگ محمد بن عبدالکریم العیسیٰ،سعودی عرب کے پاکستان میں سفیر،ناروے کے سابق وزیراعظم اور معروف گلوکار شہزادرائے ،اراکین پارلیمنٹ اورمختلف ممالک کے اراکین پارلیمنٹ اورسفیروں نے شرکت کی۔
مہمانوں کاپارلیمنٹ ہاؤس میں ریڈ کارپٹ استقبال کیاگیا۔ تقریب کے بعد ملالہ یوسفزئی کی سویٹ ہوم کی یتیم بچیوں سے ملاقات بھی کروائی گئی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لڑکیوں کی تعلیم ملالہ یوسفزئی پاکستان میں میں لڑکیوں کانفرنس کے تعلیم کی کہ مسلم نے کہا گیا ہے
پڑھیں:
375 ٹریلین کی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار
حکومت نے آڈیٹر جنرل کی حالیہ رپورٹ میں مبینہ 375 ٹریلین روپے (تین لاکھ 75 ہزار ارب روپے) کی بے ضابطگیوں کے انکشاف کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا ہے جس کا مقصد حکومت کو بدنام کرنا اور پورے نظام کو مشکوک بنانا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق یہ معاملہ محض ’’ٹائپنگ کی غلطی‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’جان بوجھ کر کیا گیا اقدام‘‘ ہے جس کے پیچھے اصل نیت حکومت کو ہدف بنانا تھا۔
اگرچہ آڈیٹر جنرل آفس نے کئی ہفتوں تک رپورٹ کا دفاع کرنے کے بعد گزشتہ ہفتے تسلیم کیا کہ اس میں ’‘ٹائپنگ کی غلطیاں‘‘ (ٹائپوز) موجود تھیں، لیکن سرکاری حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ مبالغہ آرائی حادثاتی نہیں تھی۔
سرکاری حلقوں کا الزام ہے کہ یہ سب ایک اعلیٰ افسر کی منصوبہ بندی تھی جو ایک مخصوص سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھتا ہے اور اس نے حکومت کو اسکینڈل کا شکار کرنے کے لیے یہ راستہ اختیار کیا۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اس افسر کو اپنا موجودہ عہدہ ایک طاقتور سابق انٹیلی جنس سربراہ کی آشیرباد سے ملا تھا۔ حکومت کو جمع کرائی گئی ایک انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق مذکورہ افسر نے سروس کے دوران سیاسی وابستگی رکھی اور مبینہ طور پر پارٹی سے جڑے افسروں کو آڈٹ کے اہم عہدوں پر تعینات کیا۔
ایک موقع پر اس افسر پر الزام لگا کہ اس نے حساس آڈٹ کا دائرہ کار مقررہ مدت سے آگے بڑھا دیا تاکہ اپوزیشن رہنماؤں کے لیے سیاسی گنجائش پیدا کی جا سکے جب کہ بیک وقت حکومت اور عسکری قیادت کے حصوں کو ہدف بنایا گیا۔ گزشتہ برسوں کے دوران ہم خیال افسران کو خاص طور پر صوبائی حکومتوں، وفاقی محکموں اور ہائی پروفائل منصوبوں کے آڈٹ پر مامور کیا گیا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یہ تقرریاں اس نیت سے کی گئیں کہ ایسی آڈٹ پیراز اور رپورٹس تیار ہوں جو حکومت کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کی جا سکیں۔
مالی حکام نے آڈیٹر جنرل آفس کے بعض اندرونی فیصلوں پر بھی اعتراض کیا، مثلاً اپنے افسروں کے لیے خصوصی الاؤنسز کی منظوری جو فنانس ڈویژن کی ہدایات کے برعکس تھا تاہم بعد میں وزارتِ خزانہ نے یہ فیصلہ واپس لے کر اضافی رقم کی وصولی کا حکم دیا۔
رپورٹ کے مطابق حالیہ انٹیلی جنس جائزوں میں یہ خدشات ظاہر کیے گئے کہ اس افسر نے سابقہ اور موجودہ حکومتوں کے حساس آڈٹ ریکارڈ جمع کر رکھے ہیں، جن سے سیاسی لحاظ سے کسی بھی موزوں وقت پر لیک کر کے اپوزیشن بیانیے کو تقویت دی جا سکتی ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ ’’ٹائپنگ کی غلطی‘‘ (ٹائپوز) عام بات ہیں، لیکن 375 ٹریلین روپے کا اسکینڈل صرف غفلت نہیں بلکہ بدنام کرنے کی ایک منظم کوشش تھی۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ریاستی اداروں کے اندر سے ایسی چالیں براہ راست استحکام اور حکمرانی کے لیے خطرہ ہیں۔
انصار عباسی
Post Views: 8