ہمارے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے،جج صاحب نے اپنی مرضی سے فیصلہ موٴخر کیا، بیرسٹرگوہر
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
راولپنڈی(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13 جنوری 2025)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹرگوہر کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے،عدالتی عملے نے آگاہ کیا تھا کہ فیصلہ آج سنایا جائیگا،ہمیں نہیں پتہ جج اتنی جلدی عدالت کیسے پہنچ گئے،جج صاحب نے اپنی مرضی سے فیصلہ موخر کیا،راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیںجیل میں داخل ہونے سے پہلے بتادیا گیا کہ فیصلہ موخر کر دیا گیا ہے۔
ہم فیصلے کیلئے تیار ہو کر آئے تھے۔عدالتی عملے نے بتایا تھا کہ فیصلہ آج 11بجے سنایا جائیگا۔ فیصلہ انصاف پر ہوا تو بانی پی ٹی آئی عمران خان کو آج بری ہونا تھا۔ہمیں دیوار پر لکھا صاف نظر آرہا ہے ۔بانی پی ٹی آئی عمران خان کو کیسز کی پروا نہیں ہے ۔(جاری ہے)
190ملین پاﺅنڈ کیس بے بنیاد ہے ۔ بانی پی ٹی آئی نے کوئی مالی فائدہ نہیں اٹھایا ۔قبل ازیں احتساب عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کیخلاف 190 ملین پاونڈ کیس کا فیصلہ ایک مرتبہ پھر موخر کردیا گیا ۔
عدالت کیس کا فیصلہ اب جمعے کو سنائی گی۔ 190 ملین پاونڈز ریفرنس کا فیصلہ تیسری بار موخر کیا گیا ۔اڈیالہ جیل میں کیس کیسماعت احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے کی۔احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا اڈیالہ جیل پہنچے جب کہ نیب پراسیکیوٹر چوہدری نذر، نیب لیگل ٹیم کے ممبران عرفان احمد،سہیل عارف اور اویس ارشد، احتساب عدالت اسلام آباد کا عملہ اور بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکلا سلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ اور دیگر بھی جیل پہنچے تھے۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو دو بار پیغام بھیجا لیکن وہ نہیں آئے اور نہ ہی بشریٰ بی بی یا ان کے وکلا کی طرف سے کوئی پیش ہوا۔اڈیالہ جیل میں ہونے والی سماعت میں بانی پی ٹی آئی کی بہنیں علیمہ خان اور عظمیٰ خان بھی عدالت پہنچیں تاہم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی خود عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت نے کیس کا فیصلہ موخر کردیا جو اب 17 جنوری کو سنایا جائے گا۔ اڈیالہ جیل کے باہر پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی، جس میں لیڈیز پولیس اہلکاروں سمیت ایلیٹ فورس کے تازہ دم دستے بھی شامل تھے۔ اڈیالہ جیل گیٹ نمبر 5 پر سکیورٹی ہائی الرٹ کی گئی تھی اور داخل ہونے والے سرکاری اہلکاروں کی بھی جامہ تلاشی لی گئی تھی۔.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بانی پی ٹی آئی عمران خان احتساب عدالت اڈیالہ جیل کا فیصلہ
پڑھیں:
غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
2002 میں آئینی طور پر ہٹائے جانے والے پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے تین سال گزر جانے کے بعد اپنی برطرفی قبول نہیں کی حالانکہ تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے والے غیر قانونی منسوخ کیے جانے والے اجلاس کے دوبارہ انعقاد کا حکم عدالت کا تھا اور آئینی طور پر ہٹائے جانے والے وزیر اعظم اجلاس سے قبل ہی ایوان وزیر اعظم چھوڑ کر اپنے گھر بنی گالہ چلے گئے تھے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا فیصلہ انھوں نے قبول کر لیا تھا، اسی لیے انھوں نے اس وقت اپنی برطرفی اور نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا قومی اسمبلی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا تھا جو ظاہر ہے کہ ملک کے آئین کے مطابق ہی تھا اور چیلنج ہو بھی نہیں سکتا تھا۔
پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی و دیگر نے مل کر شہباز شریف کی قیادت میں جو حکومت بنائی تھی وہ تقریباً 16 ماہ کے لیے تھی جس کے بعد عام انتخابات ہونے ہی تھے۔ نئی حکومت نے جن برے معاشی حالات میں حکومت سنبھالی تھی وہ اپنے 16 ماہ کے عرصے میں کوئی کامیابی حاصل کرسکتے تھے نہ اچھی کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں تھے اور مسلم لیگ (ن) میں میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے پر باہمی اختلافات بھی تھے کہ نئے الیکشن ہونے ضروری ہیں تاکہ نئی حکومت 5 سال کے لیے منتخب ہو سکتی۔
اس وقت پی ٹی آئی عدم مقبولیت کا شکار بھی تھی اور اس کی مخالف پارٹیاں مل کر کامیابی حاصل کر کے اپنی حکومت بنا سکتی تھیں مگر لگتا ہے کہ ملک کے برے معاشی حالات کے باوجود میاں شہباز شریف نے چیلنج سمجھ کر وزارت عظمیٰ کو قبول کیا، دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی اپنی جان چھڑا کر 16 ماہ کا اقتدار (ن) لیگ کو دلانا چاہتی تھی تاکہ بعد میں اپنے اقتدار کی راہ ہموار کر سکے۔
اس طرح نئی حکومت بن گئی اور وہ سولہ ماہ تک ملک کی خراب معاشی صورتحال کا ذمے دار پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیتی رہی۔ آئینی برطرفی پر بانی پی ٹی آئی نے نئی حکومت کے خلاف انتہائی جارحانہ سیاست کا آغازکیا اور اپنی برطرفی کا الزام مبینہ سائفر کو بنیاد بنا کر کبھی امریکا پر کبھی ریاستی اداروں پر عائد کرتے رہے۔ حقائق کے برعکس بانی نے منفی سیاست شروع کی اور غیر ضروری طور پر ملک میں لاتعداد جلسے کیے اور راولپنڈی کی طرف نئے آرمی چیف کی تقرری روکنے کے لیے جو لانگ مارچ کیا۔
اس سے انھیں کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی ہوا۔ جلد بازی میں وقت سے قبل کے پی اور پنجاب اسمبلیاں تڑوانے جیسے بانی کے تمام فیصلے غیر دانشمندانہ ثابت ہوئے اور انھوں نے دونوں جگہ اپنے وزرائے اعلیٰ مستعفی کرا کر دونوں صوبوں کا اقتدار اپنے مخالفین کے حوالے کرا دیا اور چاہا کہ دونوں صوبوں میں دوبارہ اقتدار حاصل کرکے وفاق میں پی ٹی آئی کو اکثریت دلا کر اقتدار میں آ سکیں مگر سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں نئے انتخابات کی تاریخ بھی مقرر کر دی مگر الیکشن نہ ہوئے کیونکہ حکومت بانی کے عزائم جان چکی تھی اور کے پی و پنجاب میں وفاقی حکومت کی اپنی نگراں حکومتیں آنے سے وفاق مضبوط ہو گیا اور قومی اسمبلی میں حاصل معمولی اکثریت کو اپنے حق اور مفاد میں استعمال کرکے پی ڈی ایم حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے تمام غیر دانشمندانہ سیاسی فیصلوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ انھیں گرفتار کرا کر عوام سے بھی دور کر دیا تھا۔
نگراں حکومتوں میں جو انتخابات 8 فروری کو ہوئے ایسے ہی الیکشن جولائی 2018 میں ہوئے تھے جن میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت پونے چار سال چلی تھی اور اب 8 فروری کی حکومت اپنا ڈیڑھ سال گزار چکی۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی واحد بڑی پارٹی ہے مگر اپنی پارٹی کے بجائے ایک نشست والے محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کا بانی کا فیصلہ تو خود پی ٹی آئی میں بھی قبول نہیں کیا گیا جو انتہائی غیر دانشمندانہ، غیر حقیقی اور اصولی سیاست کے خلاف تھا ۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی غلط پالیسی سے اپنے لیے ہی مشکلات بڑھائی ہیں اور ان کے ساتھ سزا پارٹی بھی بھگت رہی ہے جو بانی کے غیر دانشمندانہ فیصلوں کا نتیجہ ہے۔