گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ ملتوی ہونا عدالت کا فیصلہ ہے۔ تحریک انصاف کو این آر او نہیں ملنے والا، فیصلہ مذاکرات کی وجہ سے ملتوی نہیں ہوا۔

گورنر فیصل کریم کنڈی نے پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ تحریک انصاف والے دہشتگردوں کے سہولت کار ہیں۔ وزیراعلیٰ اپنے ضلع میں امن قائم نہیں کرسکتا۔ یہ دہشتگردوں کو لیکر آئے۔ میں نے اے پی سی بلائی انتشار پارٹی نہیں آئی لیکن ہم جرگے کے لیے وزیراعلیٰ ہاؤس گئے۔

گورنر کا کہنا تھا کہ وزیراعلی کو چاہیے کہ کوہاٹ میں اس وقت تک بیٹھے جب تک کرم روڈ کھل جائے۔ نااہلی کی وجہ سے کرم میں 25 کلومیٹر کا روڈ نہیں کھل سکا۔ ہم اسی لیے وفاقی حکومت اور فوج سے مداخلت کی اپیل کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ کیس: فیصلہ ایک بار پھر کیوں مؤخر ہوا؟

گورنر کنڈی کا کہنا تھا کہ 5 سو ارب روپے صوبائی حکومت کو ملے کہاں خرچ کیے گئے؟ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی ملازمین حق مانگتے ہیں تو ان پر لاٹھی چارج کرتے ہیں۔ بلدیاتی ملازمین کا کنونشن گورنر ہاؤس میں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ امن قائم نہ ہونا حکومت کی ناکامی اور نالائقی ہے۔ ٹیکنیکل کمیٹی صوبے کے حوالے سے صدر اور وزیراعظم سے ملاقات کرے گی۔ گورنر نے خیبر پختونخوا کی ایپکس کمیٹی میں وزیراعلیٰ کی نمائندگی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اعتراض ہے ایسا شخص ایپکس کمیٹی میں نہیں بیٹھ سکتا جس پر قتل کی ایف آئی آر ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

190 ملین پاؤنڈ کیس این آر او فیصل کریم کنڈی گورنر خیبر پختونخوا گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: 190 ملین پاؤنڈ کیس این ا ر او فیصل کریم کنڈی گورنر خیبر پختونخوا گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی ملین پاؤنڈ کیس فیصل کریم کنڈی خیبر پختونخوا

پڑھیں:

کے پی سے فوج کا انخلا

تحریک انصاف کی تنظیمی کمیٹی نے ایک متفقہ قرارداد پا سکی ہے جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں آئین کے آرٹیکل 245کے تحت جو فوج تعینات کی گئی ہے، اس نوٹیفکیشن کو پندرہ دن کے اندر واپس لیا جائے۔ ویسے تو شاید تحریک انصاف کی کے پی کی تنظیمی کمیٹی کو یہ علم نہیں کہ وفاق براہ راست کسی صوبے میں فوج کی تعیناتی کے احکامات نہیں دے سکتا۔ پہلے صوبائی حکومت سفارش کرتی ہے، پھر وفاق آٗئین کے آرٹیکل 245کے تحت کسی جگہ فوج تعینات کرتا ہے۔

لہٰذا خیبرپختونخوا میں کہیں بھی فوج تعینات ہے تو وہ صوبائی حکومت کی مرضی سے تعینات ہے۔پی ٹی آئی یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ ہماری حکومت سے پہلے حکومت نے فوج تعینات کر دی تھی کیونکہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی مسلسل تیسری حکومت ہے۔ تحریک انصاف تنظیمی کمیٹی کو اپنی اس قرارداد میں یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ ہماری حکومت کی درخواست پر تعینات فوج کو ہماری ہی حکومت واپس بھیجے۔

کے پی میں دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے سویلین اینڈ آرمڈ آرڈیننس کے تحت فوج کو خصوصی اختیارات دیے گئے تھے۔ اس آرڈیننس کو قانون کا درجہ تحریک انصاف کی کے پی حکومت نے دیا تھا۔ اس کا دائرہ اختیار پورے کے پی تک بانی تحریک انصاف کے دور وزات عظمیٰ میں کیا تھا۔

پشاور ہا ئی کورٹ نے اس قانون کو ایک درخواست میں ختم کر دیا تھا۔ لیکن بانی تحریک انصاف کی ہدایت پر خیبرپختونخوا حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کیا۔ آج کے پی میں دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے پاک فوج کے پاس جو اضافی اختیارات ہیں، وہ تحریک انصاف کی حکومت کے پاس کر دہ قانون اور اس کی حکومت کے حاصل کردہ حکم امتناعی کی وجہ سے ہیں۔

اس میںن لیگ‘ پیپلزپارٹی یا کسی اور سیاسی جماعت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ جب تحریک انصاف کی تنظیمی کمیٹی اپنی ہی حکومت سے فوج کی تعیناتی ختم کرنے کا کہہ رہی ہے تو وہ کس کا کام کر رہی ہے۔ کیا فوجی انخلاء کا مطالبہ، پی ٹی آئی کا بیانیہ یا دشمن کی زبان نہیں؟کیا دہشت گرد یہ نہیں چاہتے؟ کیا پاکستان کے دشمن یہ نہیں چاہتے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ تحریک انصاف کی تنظیمی کمیٹی کا یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صوبے میں دہشت گردی عروج پر ہے اور پاک فوج روزانہ 190 سے زائد انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز میں مصروف ہے اور روزانہ کی بنیادوں پر قربانیاں دے رہی ہے۔ کیافوجی انخلاء کا مطالبہ دراصل دہشت گردوں کے لیے سہولت کاری کے مترادف نہیں ہے۔ کیا یہ وہی مطالبہ نہیں جو بھارتی پراکسیز اور دشمن طاقتیں استعمال کررہی ہیں چاہے،فتنہ الخوارج ہو، فتنہ الہندوستان یا بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اب پی ٹی آئی بھی اسی بیانیے کو دہرا رہی ہے۔

تیرہ، بنوں، کرم اور پاراچنار جیسے واقعات دراصل 12 سالہ پی ٹی آئی حکومت کی ناقص حکمرانی اور گورننس کے خلاء کا نتیجہ ہیں۔کیا آج امن وامان کی جو صورتحال ہے اس کی ذمے د اری کے پی حکومت کی نہیں ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان آرمی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف اپنی جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں۔ یہ قربانیاں ان پالیسیوں کا نتیجہ ہیں جو 2021 میں دہشت گردوں کی واپسی اور بحالی سے متعلق پی ٹی آئی حکومت نے اختیار کی اور اب گورننس کے یہ خلاء پاک فوج اپنے خون سے پورا کر رہی ہے جو اصل میں صوبائی حکومت کی ذمے داری تھی۔ صوبائی حکومت اپنی ناقص کارکردگی کی ذمے داری اب فوج پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

2022 کی پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا CTD اپنا 96 فیصد بجٹ صرف تنخواہوں پر خرچ کرتا ہے۔صرف 4 فیصد بجٹ آپریشنز کے لیے مختص ہے، جب کہ جدید سازوسامان، تربیت اور انفرااسٹرکچر کی کوئی تیاری نہیں کی گئی۔ خیبر پختونخوا میں CTD کے افسران اور ملازمین کی تعداد ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے، مگر یہ عملہ نااہل، کم تعلیم یافتہ اور ناکافی سہولیات سے لیس ہے۔جب آپریشن کے لیے بجٹ ہی نہیں ہے تو سی ٹی ڈی کیاکام کرے گی۔ صرف بھرتیوں سے تو سی ٹی ڈی کارکردگی بہتر نہیں ہو سکتی۔ آپ کو دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے انھیں بجٹ اور سہولیات بھی دینی ہیں، اس ضمن میں تحریک انصاف کی کے پی حکومت کی کارکردگی صفر ہے۔ اس کے مقابلے میں پنجاب اور سندھ نے اپنی سی ٹی ڈی کی فورس کو کافی مضبوط کیا ہے وسائل اور بجٹ بھی دیے ہیں۔

یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ کے پی کی صوبائی حکومت نے انسداد دہشت گردی کے لیے سنجیدگی سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ فوجی انخلاء کا مطالبہ دراصل پی ٹی آئی کی اپنی کرپشن، نا اہلی خصوصاً 5 اگست کے ناکام احتجاج سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ صوبائی حکومت کا یہ رویہ سیکیورٹی کے حساس ترین معاملات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خطرناک مثال ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ضم شدہ اضلاع سے فوج نکالی گئی تو دہشت گرد یقیناً دوبارہ منظم ہو جائیں گے‘ایسی صورت میں نہ صرف قبائلی علاقے بلکہ پورا پاکستان خطرے میں ہوگا۔

پاک فوج وہ خلا پر کر رہی ہے جوصوبائی سول حکومت اپنی نااہلی کے باعث پیدا کر چکی ہے۔ یہ مطالبات اس بیانیے کی واضح نفی کرتے ہیں جو پی ٹی آئی دے رہی ہے، اور ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے مطالبات صرف اندرونی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور دشمن قوتوں کے مقاصد کو تقویت دینے کی ایک کوشش ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ایسے حساس معاملات پر نہ تو سیاست کرنی چاہیے اور نہ ہی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنی چاہیے۔ اگر تحریک انصاف کی اسٹبلشمنٹ سے محاذ آرائی ہے بھی تو اس میںیہ خطرناک کھیل نہیں کھیلنا چاہیے۔

لاء اینڈ آرڈر صوبائی حکومت کا کام ہے مگر ملکی سلامتی کی خاطر پاک فوج وہاں اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں اور ہر روز قربانیاں اپنے خون سے دے رہی ہے لیکن اگر صوبائی حکومت اپنی باقی نا اہلیوں کو چھپانے کے لیے یہ انتہائی خطرناک قدم اٹھانا چاہتی ہے تو صوبائی حکومت کے اس فیصلے کے بعد فوج ایک دن بھی وہاں نہیں ٹھہرے گی لیکن فوج کے جانے کے بعد خیبر پختونخوا میں جو کچھ بھی ہوگا اس کی ساری ذمے داری گنڈاپور اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت پر ہوگی۔ پھر ذمے دار بھی وہی ہوںگے۔

متعلقہ مضامین

  • جو جو نو مئی میں ملوث تھا اس کو سزا ملنی چاہیے؛ فیصل کریم کنڈی
  • آج جمہوریت کے لیے ایک افسوس ناک دن ہے، تحریک انصاف کا پارٹی رہنماؤں کو سزاؤں پر ردعمل
  • خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کی ملاقات بے نتیجہ
  • فیصل آباد: 9 مئی کے مقدمات کا فیصلہ سنادیا گیا، 167 ملزمان کو سزائیں سنادی گئیں
  • خیبر پختونخوا ہمارا صوبہ ہے، ہماری مشاورت کے بغیر فیصلے مسلط نہ کیے جائیں، وزیراعلیٰ گنڈاپور
  • گورنرخیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی سے کرم چیمبرآف کامرس اینڈانڈسٹری کے نمائندہ وفدکی ملاقات
  • فیصل کریم کنڈی کو نتھیاگلی گورنر ہاؤس استعمال کرنے کی اجازت مل گئی
  • وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا بیوروکریسی سے دفعہ 144 اور کرفیو نافذ کرنے کا اختیار واپس لینے کا فیصلہ
  • پشاورہائیکورٹ نے فیصل کریم کنڈی کو نتھیاگلی گورنر ہاؤس استعما ل کرنے کی اجازت دیدی
  • کے پی سے فوج کا انخلا