سندھ کو وسائل کی کمی کا سامنا، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں صوبے نے وفاق کو پیچھے چھوڑ دیا، بلاول بھٹو
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سندھ کو ہمیشہ وفاق سے وسائل کی کمی کا سامنا رہا ہے، تاہم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں صوبے نے وفاق کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت اپنے عوام کو صحت کی مفت اور معیاری سہولیات فراہم کررہی ہے، جسے عالم سطح پر تسلیم کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں وسائل کی تقسیم میں سندھ کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے، بلاول بھٹو کا شکوہ
انہوں نے کہاکہ سندھ میں بچوں کی شرح اموات کے حوالے سے بات کی جاتی ہے اور تھر میں ہونے والی اموات کو خبروں میں زیادہ اچھالا جاتا ہے، حالانکہ ہمارے صوبے میں بچوں کی شرح اموات 1.
بلاول بھٹو نے کہاکہ سندھ حکومت بچوں کی صحت سے متعلق انقلابی اقدامات کررہی ہے، جو سفر 2010 میں شروع ہوا تھا وہ آج بھی جاری ہے، چائلڈ لائف منصوبہ 2010 میں شروع کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت نے صحت کے شعبے میں نمایاں کام کیا، آج ہر تحصیل میں ٹیلی میڈیسن کی سہولت موجود ہے، ہم عوام کی خدمت کا یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔
چیئرمین پی پی پی نے کہاکہ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا نے اپنی رپورٹ میں بچوں کی شرح اموات میں کمی کو تسلیم کیا۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا جو سفر سندھ نے شروع کیا وہ دوسرے صوبوں کے لیے مثال ہے۔
یہ بھی پڑھیں ن لیگ چاہتی ہے اسے کوئی کچھ نہ پوچھے، مگر یکطرفہ فیصلے قبول نہیں، بلاول بھٹو زرداری
بلاول بھٹو نے کہاکہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو صحت کے اداروں کو سنبھالنے کی ذمہ داری دی گئی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ بینظر بھٹو نے متعارف کرائی تھی، فخر سے کہتا ہوں کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں سندھ وفاق کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بلاول بھٹو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ چیئرمین پی پی پی ڈاؤ یونیورسٹی شعبہ صحت وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلاول بھٹو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ چیئرمین پی پی پی ڈاؤ یونیورسٹی وی نیوز نے کہاکہ سندھ بلاول بھٹو بچوں کی
پڑھیں:
امدادی کٹوتیاں: یو این ادارہ نائیجریا میں کارروائیاں بند کرنے پر مجبور
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جولائی 2025ء) امدادی وسائل کی شدید قلت کے باعث عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے نائجیریا میں تشدد اور بھوک کی لپیٹ میں آئے شمال مشرقی علاقے میں 13 لاکھ لوگوں کے لیے ہنگامی غذائی مدد کی فراہمی معطل کر دی ہے۔
ادارے نے بتایا ہے کہ امدادی کارروائیوں کی بدولت رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران اسے علاقے میں بھوک کو پھیلنے سے روکنے میں نمایاں کامیابی ملی لیکن وسائل کی کمی کے باعث یہ کامیابیاں خطرے میں ہیں اور ضروری امدادی پروگرام رواں ماہ کے آخر تک بند ہونے کا خدشہ ہے۔
Tweet URL'ڈبلیو ایف پی' کے پاس مقوی خوراک کے ذخائر پوری طرح ختم ہو چکے ہیں اور وسائل کی ہنگامی بنیاد پر فراہمی کے بغیر لاکھوں لوگ امدادی خوراک سے محروم ہو جائیں گے۔
(جاری ہے)
ادارے نے بتایا ہے کہ باقیماندہ وسائل تقسیم ہو جانے کے بعد لاکھوں لوگوں کو شدید بھوک کا سامنا کرنے، نقل مکانی یا خطے میں سرگرم شدت پسند گروہوں کے ہاتھوں استحصال کا نشانہ بننے جیسے خطرات درپیش ہوں گے۔
بچوں کے لیے بدترین حالاتنائجیریا میں 'ڈبلیو ایف پی' کے ڈائریکٹر ڈیوڈ سٹیونسن نے کہا ہے کہ ملک میں تین کروڑ سے زیادہ لوگوں کو شدید بھوک کا سامنا ہے ضروری امداد کی فراہمی معطل ہونے سے بچوں کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
بورنو اور یوبے میں ادارے کی معاونت سے چلنے والے 150 سے زیادہ ایسے طبی مراکز بند ہونے کو ہیں جہاں کمزور بچوں کو غذائیت فراہم کی جاتی ہے۔ ان مراکز کے لیے وسائل کی اشد ضرورت ہے، بصورت دیگر تین لاکھ بچے ان خدمات سے محروم ہو جائیں گے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ محض انسانی بحران نہیں بلکہ علاقائی استحکام کے لیے بھی بڑھتا ہوا خطرہ ہے جبکہ بدترین حالات سے دوچار لوگوں کے پاس مدد کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔
شدت پسند گروہوں کا خطرہنائجیریا کے شمالی علاقوں میں شدت پسند گروہوں کے تشدد کے باعث بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہو رہے ہیں۔ جھیل چاڈ کے علاقے میں رہنے والے تقریباً 23 لاکھ لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ ان حالات میں محدود وسائل پر بوجھ کہیں بڑھ گیا ہے اور ہنگامی غذائی مدد کی عدم موجودگی میں نوجوانوں کے ان گروہوں کا حصہ بننے کا خدشہ ہے۔
سٹیونسن نے کہا ہے کہ جب امداد کی فراہمی بند ہو جائے گی تو بہت سے لوگ خوراک اور پناہ کی تلاش میں دوسرے علاقوں کی جانب جائیں گے جبکہ دیگر اپنی بقا کے لیے ممکنہ طور پر شدت پسند گروہوں کے لیے کام کرنے لگیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ غذائی مدد کی فراہمی سے ان حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے اور اس مقصد کے لیے 'ڈبلیو ایف پی' کو رواں سال کے آخر تک 130 ملین ڈالر کی ضرورت ہو گی۔