پی ٹی آئی قیادت نے کہا ہے کہ القادر ٹرسٹ ایک بھونڈا کیس ہے جس میں عمران خان اور بشری بی بی نے کوئی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔یہ بات سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز، اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب اور پی ٹی آئی سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔عمر ایوب نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کیس بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف بنا، یہ ایک بھونڈا کیس ہے برطانیہ کی این سی اے ایک طرف اور سپریم کورٹ ایک طرف، این سی اے نے 190 ملین پانڈ برطانیہ سے سپریم کورٹ میں بھیجے اور سپریم کورٹ نے یہ پیسہ حکومت کے خزانے میں جمع کروایا اس میں عمران خان اور بشری بی بی نے کوئی ذاتی مفاد حاصل نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ القادر یونیورسٹی سیرت نبوی صلی اللہ علیہ پڑھانے کے لیے بنائی گئی، یہ بھونڈا کیس ہے یہ ہر جگہ چیلنج ہوگا فیصل واوڈا اور خواجہ آصف اتوار سے شروع ہوگئے تھے انہوں نے کل سے ہی فیصلہ سنادیا دیا کیا یہ جج ہیں؟ ان کے پاس فیصلہ کہاں سے آیا؟ ان کے پاس تحریر کہاں سے آئی ؟ یہ کینگرو کورٹ ہے؟شبلی فراز نے کہا کہ القادر کیس کا فیصلہ آج پھر نہیں سنایا گیا، کہا گیا بانی چیئرمین پی ٹی آئی عدالت پیش نہیں ہوئے، بانی پی ٹی آئی تو جیل میں ہیں انہیں پیش کرنا آپ کا کام تھا۔انہوں نے کہا کہ القادر یونیورسٹی عمران خان نے اپنے مدینہ کی ریاست کے نظریے کے مطابق بنائی، مسلمانوں کے ذاتی اور اسلامی تشخص کے تناظر میں اس یونیورسٹی کو بنایا گیا۔سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس مقدمے میں غلط فہمی پھیلائی گئی ہے، برطانیہ میں ملک ریاض نے کوئی پراپرٹی خریدی، وہاں کے اداروں نے دیکھا کہ یہ اتنی مہنگی پراپرٹی کیوں خریدی گئی ہے؟ وہ مقدمہ آگے نہیں بڑھا، وہاں سٹیلمنٹ ہوئی اور کہا گیا کہ رقم واپس پاکستان لے جائیں۔انہوں ںے کہا کہ یہ رقم ملک ریاض اپنی منشا سے پاکستان لائے انہوں نے سپریم کورٹ میں کچھ رقم جمع کروانی تھی وہ کروادی۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: نے کہا کہ القادر پی ٹی آئی انہوں نے نے کوئی

پڑھیں:

سزا کیلئے شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے‘سپریم کورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 جون2025ء) سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے جس میں ڈیجیٹل شواہد کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر کسی فوٹیج کو درست طریقے سے تصدیق شدہ قرار دیا جائے تو وہ سائلنٹ وِٹنس تھیوری(خاموش گواہ اصول) کے تحت بنیادی شہادت کے طور پر قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔صرف حالات و واقعات کی بنیاد پر سزا دینا قانوناً ممنوع نہیں لیکن ایسے شواہد ملزم کی بیگناہی سے مطابقت نہیں رکھنے چاہئیں اور ان شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے۔

جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے 13 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں اس قدر شامل ہو چکی ہے کہ ہر کوئی کسی نہ کسی شکل میں اسے استعمال کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

جسٹس محمد ہاشم کاکڑ نے اس 3 رکنی بینچ کی سربراہی کی جس نے 20 مئی کو ظاہر ذاکر جعفر کی سزائے موت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی اپیل مسترد کر دی تھی، یاد رہے کہ نور مقدم کے 2021 کے اندوہناک قتل نے ملک بھر میں صدمے کی لہر دوڑا دی تھی۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ مجرم عدالت میں ایک مایوس شخص کے طور پر سامنے آیا، جس پر بینچ کے کسی بھی رکن کو کوئی ہمدردی محسوس نہیں ہوئی، تاہم بینچ کے رکن جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ وہ جلد ہی اپنا اضافی نوٹ جاری کریں گے۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ پچھلے 25 سالوں میں تقریباً تمام ممالک میں ’سائلنٹ وٹنس تھیوری‘ (خاموش گواہ کا اصول) کو اپنایا گیا ہے، اس اصول کے تحت، اگر کسی تصویر یا ویڈیو کو اس طریقہ کار یا نظام کی درستگی سے ثابت کیا جا سکے جس کے ذریعے وہ بنائی گئی ہے، تو پھر وہ خود بخود ایک گواہ کے طور پر تسلیم کی جا سکتی ہے، یعنی یہ تصاویر یا ویڈیوز اپنی صداقت خود بیان کرتی ہیں۔

سائلنٹ وٹنس تھیوری ایک ایسا قانون ہے جو تصویر، ویڈیو یا دیگر ریکارڈ شدہ مواد کو اس بات کے پختہ ثبوت کے طور پر قبول کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ وہ جس واقعے کو دکھا رہے ہیں، وہ حقیقت میں پیش آیا اور اس کے لیے کسی عینی شاہد کی گواہی درکار نہیں ہوتی کہ اس نے وہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔عدالت نے تسلیم کیا کہ کافی عرصے تک ملکی عدالتیں ڈیجیٹل شواہد کو بروئے کار نہ لا سکیں کیونکہ انہیں صرف سنی سنائی باتوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا تھا، حالانکہ یہ شواہد صرف قانونِ شہادت 1984 کے آرٹیکل 164 کے تحت قابلِ قبول تھے۔

تاہم، مجرموں کی شناخت اور سراغ رسانی میں ڈیجیٹل شواہد کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو دیکھتے ہوئے بعض اہم قانونی تبدیلیاں کی گئیں تاکہ ان شواہد کو بنیادی شہادت کا درجہ دیا جا سکے۔عدالت نے فوٹیج کی شہادتی حیثیت کے حوالے سے برطانیہ، کینیڈا اور امریکا کی مثالیں بھی دی ہیں، ماضی قریب تک پاکستان میں اس قسم کے شواہد کو ثانوی یا سنی سنائی شہادت سمجھا جاتا تھا، لیکن مجرموں کی شناخت میں اس کی افادیت کے پیش نظر متعلقہ قوانین میں تبدیلی کی گئی اور ڈیجیٹل شواہد کو بنیادی شہادت تسلیم کیا گیا۔

عدالت نے مزید وضاحت کی کہ یہ بات عام طور پر تسلیم شدہ ہے کہ سزا محض حالات و واقعاتی شواہد کی بنیاد پر بھی دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ وہ سخت اصولوں اور معیارات پر پورا اتری.سپریم کورٹ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ درخواست گزار (ملزم) نے یہ وضاحت پیش نہیں کی کہ مقتولہ اس کے گھر پر کیوں موجود تھی اور اس کی لاش اسی جگہ سے کیوں برآمد ہوئی۔واضح رہے کہ 27 سالہ لڑکی نور مقدم 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد میں ظاہر جعفر کی رہائش گاہ سے انتہائی بے دردی سے قتل شدہ حالت میں ملی تھیں، ظاہر جعفر کو مرکزی ملزم کے طور پر گرفتار کیا گیا اور 24 فروری 2022 کو ٹرائل کورٹ نے اسے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی۔

عدالت نے اسے جنسی زیادتی کا بھی مجرم قرار دیتے ہوئے 25 سال قیدِ بامشقت اور 2 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا، بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزائے موت برقرار رکھتے ہوئے زیادتی کے جرم میں عمر قید کو بھی سزائے موت میں تبدیل کر دیا۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے وفاقی بجٹ کو بھونڈا کہہ دیا
  • سزا کیلئے شواہد کی ایک مکمل اور بغیر کسی وقفے کی کڑی سے ملزم کا جرم سے تعلق ثابت ہونا چاہیے‘سپریم کورٹ
  • آج القادر کیس پر بانی اور بشری بی بی کی ضمانتوں پر سماعت ہونی تھی مگر بنچ توڑدیاگیا‘ عمرایوب
  • مالی گنجائش میں رہتے ہوئے تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیا، برآمدات کو بھی فائدہ ہوگا، وزیر خزانہ
  • عمران خان اور بشری بی بی کی القادر ٹرسٹ کیس میں سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت نہ ہوسکی
  • پاکستان ٹیک آف پوزیشن میں، تنخواہ دار پوچھ رہے ہیں اشرافیہ نے کتنا بوجھ اٹھایا: شہباز شریف
  • افغانستان کے ساتھ بار بار بدلتا ہوا تعلق چیلنج بنا ہوا ہے،شیری رحمن
  •  اگر بھارت نے پانی کے مسئلے پر کوئی اقدام اٹھایا تو پاکستان اسے جنگ تصور کرے گا، یوسف رضا گیلانی 
  • بانی سے کوئی ڈیل نہیں ،رہائی عدالت سے ہو گی، وفاقی وزیرریلوے
  • بھارت کو بین الاقوامی معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا کوئی اختیار نہیں