Jasarat News:
2025-09-18@23:30:38 GMT

آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد انسانیت کو علم سکھانا ہے،ممتاز سہتو

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

جیکب آباد (نمائندہ جسارت)تنظیم اساتذہ ضلع جیکب آباد کی جانب سے حمیدہئی ہائی اسکول جیکب آباد میں ’’آپ ﷺ بحیثیت معلم‘‘ کے عنوان سے کانفرنس، ممتاز حسین سہتو ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان کا خطاب۔تفصیلات کے مطابق تنظیم اساتذہ ضلع جیکب آباد کی جانب سے ’’نبی مہربانﷺ بحیثیت معلم‘‘ کے عنوان سے حمیدیہ ہائی اسکول لائبریری میں ہیڈ ماسٹر کے زیر صدارت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز حسین سہتو ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ آپ ﷺکی بعثت کا مقصد ہی انسانیت کو علم سکھانا ہے، ایسا علم جس سے انسانیت پہلے بے خبر تھی۔ آپ ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے تم میں سے بہتر وہ ہے جو علم سیکھے اور سکھائے،قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ ہم نے تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیات سناتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیمات دیتا ہے اور وہ کچھ سکھتا ہے جس سے تم پہلے ناواقف تھے‘‘ ۔انہوں نے کہا کہ یقیناً آپ اساتذہ بھی ایک پیغمبری شعبہ سے منسلک ہیں جن کا کام بھی معاشرے کو اپنے علم و بحیثیت معلم ہونے کی بدولت ایسے طلبہ دینے ہے جو ان کی اصلاح میں ایک اہم کردار ادا کریں۔انہوں نے کہا عرب جو ہر سطح پر جہالت کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے ان کو بھی آپ ﷺ کی آسان، عام فہم اور محبت سے بھرپور علم و تعلیمات نے ایسا تبدیل کر کے رکھ دیا کہ وہ جو جھگڑالو تھے موم بن گئے وہ جو سالہ سال سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اب جگری دوست بن گئے، اور وہ جو چرواہے تھے وہ حکمران بن گئے غرض آپ ﷺ معلم کامل ہیں۔کانفرنس جس میں اساتذہ کے علاوہ نائب امیر ضلع عبدالصمد کٹبار امیر جماعت اسلامی جیکب آبادشہر، مقامی امیر رند واہی عنایت اللہ ٹالانی، قیم شہر عبدالجبار قلندرانی، شکارپور سے تنظیم اساتذہ کے رہنما عبدالوحید کٹبار شریک تھے۔ امیر جماعت اسلامی ضلع جیکب آباد ابوبکر سومرو اور ضلعی صدر تنظیم اساتذہ مشتاق احمد لغاری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: تنظیم اساتذہ جماعت اسلامی جیکب ا باد

پڑھیں:

اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-03-5

 

غلام حسین سوہو

یہ مضمون اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ تعلیمی کارکنوں کی اندرونی تحریک کو کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ اس جمی ہوئی بے حسی کا مقابلہ کیا جا سکے جو ایک خطرناک اور ہر طرف پھیلی ہوئی بلا کی طرح پروان چڑھ چکی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اس آفت سے ناآشنا ہیں جس نے ہماری قومی اساس کو خود انحصاری اور خوشحالی کے لیے کھوکھلا کر دیا ہے۔

“I hope when the going gets tough, the tough get going” کے مطابق اگر ہم کامیاب ہو گئے تو ہم تدریسی شعبے کو قربانی، ہمدردی اور مسلسل نشوونما کی بنیاد پر ایک باوقار پیشے میں بدل سکیں گے۔ لوگ استاد کے کردار کو محض تدریسی ذمے داری نہیں بلکہ طلبہ کو علم کی بھول بھلیوں میں رہنمائی کرنے، تجسس کی آگ جلانے، مہارتیں، قابلیتیں اور باوقار کردار حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اسی پیمانے پر جب ہم یہ سوال کرنے کی ہمت کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور تعلیمی رجحانات کس طرف بڑھ رہے ہیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ٹیکسٹ بْک، رٹے بازی اور مبہم تعلیمی منتقلی کا کلچر حاوی ہے۔ جدید بورڈز، اسمارٹ کلاس رومز اور ہائی ٹیک لیب کے باوجود تعلیمی ترقی جمود کا شکار ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کی موجودگی یا غیر موجودگی کا نہیں بلکہ جذبے، لگن اور جدت کی کمی کا ہے۔

یہ موجودہ کلچر گھوڑے کی لاش کو پیٹنے کے مترادف ہے، جہاں تعلیم حوصلہ افزا نہیں بلکہ مایوس کن ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اساتذہ کو زیادہ پیشہ ورانہ خودمختاری دی جائے تو وہ اپنے کام کو ذاتی ذمے داری سمجھیں گے۔ مثال کے طور پر اگر اساتذہ کو نصابی کتب اور باندھے ہوئے وسائل سے ہٹ کر اپنی تدریسی حکمت ِ عملیاں بنانے اور نافذ کرنے کی آزادی دی جائے تو وہ طلبہ کو ذمے دار شہری اور روزگار کے قابل بنانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ اسی طرح معاونتی نظام بھی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ اساتذہ اپنی فلاح و بہبود کو ترجیح دے سکیں، مثلاً وسائل میں سہولت، رعایتیں اور انتظامی بوجھ میں کمی۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معزز اساتذہ اپنی علمی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بعض کا ماننا ہے کہ ہاں، مگر عملی رکاوٹیں جیسے نصاب کی تکمیل کے لیے وقت کی کمی، وسائل کی قلت اور ناکافی تحریک انہیں مزید ترقی سے روکتی ہے۔ دوسری طرف کچھ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اساتذہ میں پائی جانے والی بے حسی پورے نظام تعلیم کو کمزور کر سکتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ایسا احتسابی کلچر پیدا کریں جو ہمدردی پر مبنی ہو۔ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ احتساب کا مطلب صرف سزا نہیں بلکہ نشوونما اور بہتری ہے۔ اساتذہ کو بااختیار بنانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کریں اور اجتماعی ذمے داری کا ماحول پیدا ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی کلچر میں جذبے، جدت اور لگن کی کمی ہے۔ ہمیں ایسے کلچر کی ضرورت ہے جہاں استاد خود کو تبدیلی کے ایجنٹ سمجھیں اور نئے تجربات کرنے سے نہ گھبرائیں۔ اسی طرح طلبہ پر مرکوز تدریسی طریقے مثلاً تحقیق پر مبنی اور منصوبہ جاتی تدریس اساتذہ میں تدریس کی خوشی دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔

’’سماج اکثر یہ خواب دیکھتا ہے کہ اساتذہ کو اپنے آپ کو روشنی کے نگہبان سمجھنا چاہیے — ایسے افراد جو دوسروں کی راہوں کو روشن کرنے کے لیے اپنی قربانی پیش کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے لیے ہمدردی اور نرمی پر زور دینا لازمی ہے۔ جذباتی ذہانت کی تربیت اساتذہ کو یہ سکھا سکتی ہے کہ طلبہ کے ساتھ بامعنی تعلقات کیسے قائم کیے جائیں، اعتماد اور تعاون کا ماحول کیسے پیدا کیا جائے۔

’’میٹا کوگنیٹو مہارتوں کی پرورش اساتذہ کو یہ قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی تدریسی حکمت ِ عملیوں کا تنقیدی جائزہ لیں اور طلبہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ضروری تبدیلیاں کریں‘‘۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی، واضح تدریسی طریقے اور عملی تربیت کو ملانا ضروری ہے تاکہ طلبہ کو صاف اور منظم رہنمائی ملے۔ اسی طرح مضمون پر مبنی تربیت اساتذہ کے علمی اثاثے کو گہرا کرتی ہے جس سے وہ زیادہ مؤثر اور دلچسپ اسباق فراہم کر سکیں۔

کامیاب تعلیمی نظام کا انحصار مسلسل سیکھنے، ہمدردی اور جدت پر ہے۔ اس طرح ہم اپنے اساتذہ کو حقیقی روشنی کے نگہبان میں بدل سکتے ہیں جو قربانی، نرمی اور غیر متزلزل لگن کے ساتھ اپنے کردار کو نبھائیں۔ جب ہم ان کی ترقی میں سرمایہ کاری کریں گے اور ان کو ضروری سہولتیں فراہم کریں گے تو ہم ایسا ماحول تشکیل دیں گے جہاں استاد اور طلبہ دونوں ترقی کریں اور آئندہ نسلوں کی زندگیوں کو روشن، بااختیار اور بہتر بنائیں۔

(مصنف ایک ماہر ِ تعلیم ہیں جنہوں نے مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن میں: سینئر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈی جی ایجوکیشن، ایف ڈی ای اسلام آباد۔ ڈائریکٹر (سرٹیفکیشن) NAVTTC۔ ڈائریکٹر (آپریشنز اینڈ لیگل) STEVTA۔ ریجنل ڈائریکٹر وفاقی محتسب حیدرآباد۔ چیئرمین، بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی)

متعلقہ مضامین

  • بے حیا کلچر کے فروغ نے نوجوان نسل کو تباہ کردیا، نصر اللہ چنا
  • جیکب آباد ،8 گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ ،شہر تاریکی میں ڈوبا رہا
  • پارلیمنٹ میں قرآن و سنت کے منافی قانون سازی عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، حافظ نصراللہ چنا
  • گزشتہ 15 سال میں کراچی کی ترقی کے 3360 ارب روپے غبن کیے گئے، حافظ نعیم الرحمان
  • مسلم مالک غزہ میں اسرائیلی جارحیت روکنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں،حافظ نعیم الرحمن
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کیساتھ خصوصی نشست
  • ویٹ پالیسی پر صوبوں سے مشاورت شروع، اوزون بچانا انسانیت کا فریضہ: مریم نواز
  • اسلامی ملکوں کے حکمران وسائل کا رخ عوام کی جانب موڑیں: حافظ نعیم 
  • اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو
  •  اوزون کو بچانا انسانیت کا اہم ترین فریضہ ہے:مریم نواز