آج پھر مجھے پولیس پر لکھنا پڑ رہا ہے،ایک بار اپنے ایک انٹرویو میں جناب سہیل وڑائچ نے مجھے ’’پولیس اسپیشلسٹ‘‘ قرار دیا تھا،اْن کے اس کہے کی لاج رکھنے کے لئے نہ چاہتے ہوئے بھی پولیس کی کچھ اچھائیوں اور کچھ خرابیوں پر لکھنا پڑ جاتا ہے،البتہ کچھ پولیس افسروں کی بدکاریوں کی ایسی ایسی ہوش رْبا داستانیں روزانہ سْننے کو ملتی ہیں شرم آتی ہے کہ پولیس اور کچھ دیگر اداروں میں بیٹھے لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لئے کس حد تک گر جاتے ہیں،لاہور میں پولیس کی سرپرستی میں قائم کچھ ’’کوٹھی خانوں‘‘ پر ایک دھماکہ یاسر شامی نے کیا،ایک اعلیٰ پولیس افسر کا ذکر بھی اْس کا نام لئے بغیر کیا،میں اْس اعلیٰ پولیس افسر کا نام جانتا ہوں،کچھ مزید تفصیلات اکٹھی کر کے اگلے کسی کالم میں عرض بھی کر دوں گا،ایک اور واقعہ اگلے روز یاسر شامی نے مجھے سْنایا،گلبرگ میں ایک ’’کوٹھی خانہ‘‘ کْھلا تھا جس کی بھرپور سرپرستی جاری تھی،اس کی شکایت سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ تک پہنچی اْنہوں نے اے ایس پی کے ذریعے وہ بند کروا دیا،اس کی جتنی تکلیف اْن کے ایک ماتحت پولیس افسر کو ہوئی اْس کا سینک کسی نہ کسی ذریعے یا طریقے سے ضرور اْس نے سی سی پی او لاہور تک پہنچایا ہوگا،پنجاب خصوصاً لاہور میں کوئی کوٹھی خانہ پولیس کی سرپرستی کے بغیر چل ہی نہیں سکتا نہ جواء خانہ چل سکتا ہے،اس سے زیادہ شرمناک صورتحال اور کیا ہوگی شہر کے نامی گرامی جواریوں کے ساتھ ہمارے کچھ پولیس افسران اس قدر فخر سے اپنی تصویریں بناتے ہیں اور اْنہیں شیلڈیں دیتے ہیں جیسے وہ جواریے نہیں اْن کے آئی جی ہوں،ان حالات میں بعض اوقات بہت مجبوری کے تحت یہ کہنا پڑ جاتا ہے ’’پاکستان سے جرائم ختم کرنا ہیں تو تھانے ختم کر دیں‘‘،میں نے ایک بار اپنے کالم میں لکھا تھا ’’ڈاکوؤں نے پولیس والوں کا ایک گروہ پکڑا جو کار چوری میں ملوث تھا‘‘،تب ہمارے صوفی دانشور اشفاق احمد زندہ تھے،اس جْملے پر وہ بہت ہنسے اور مجھے پانچ سو روپے انعام بھی دیا،اب میں کالم کے اصل موضوع پر آتا ہوں،پچھلے چند دنوں سے ایک درخواست ڈی پی او سرگودھا کے خلاف سوشل میڈیا خصوصاً واٹس ایپ گروپوں میں بہت گردش کر رہی ہے،اس درخواست میں ایک سٹیج اداکارہ ماہ نور عارف نے جو الزامات ڈی پی او سرگودھا ڈاکٹر اسد اعجاز ملہی پر لگائے وہ پڑھتے ہی مجھے اندازہ ہوگیا تھا یہ حقیقت نہیں سازش ہے،اس درخواست دہندہ سے کوئی پوچھے بی بی کم از کم درخواست ہی ایسی لکھوا لینا تھی جس پر تھوڑا بہت ہی کوئی یقین کر لیتا، اس درخواست پر سب سے زیادہ عدم یقین ڈی پی او صاحب کی بیگم صاحبہ نے کیا ہوگا،ایک بار ایسے ہی الزامات ہمارے مرحوم دوست دلدار پرویز بھٹی پر ایک اداکارہ نے لگائے تھے،جب اْن کی بیگم نے اس بارے میں پوچھا وہ بولے ’’بیگم صاحبہ آپ خود بتائیں میں بھلا اس قابل ہوں ؟ ‘‘،ایسے الزامات اگر ایک سابق ڈی پی او سرگودھا پر لگائے جاتے ہم فوراً مان لیتے کہ اس طرح کی کارروائی ڈالنے کی ناکام کوشش اْس نے ضرور کی ہوگی،مالی و اخلاقی طور پر ڈاکٹر اسد اعجاز کی شہرت کیسی ہے ؟ میں نہیں جانتا،مگر اْن کے خلاف جو درخواست ایک اداکارہ نے دی اْسے پڑھتے ہی میں سمجھ گیا تھا یہ من گھڑت کہانی ہے،یہ درخواست پڑھ کر مجھے بار بار وہ واقعہ یاد آ رہا تھا جب ایک جج نے ’’زیادتی‘‘ کا شکار ہونے والی اداکارہ سے پوچھا ’’بی بی تمہیں اس’’زیادتی‘‘ کا کب پتہ چلا ؟ وہ بولی’’ جب چیک باؤنس ہوا‘‘،اس درخواست کی اصل کہانی روزنامہ جنگ میں شائع ہوچکی ہے،اْس کے مطابق ایک انسپکٹر کو ڈی پی او سرگودھا اسد اعجاز ملہی نے کچھ الزامات ثابت ہونے پر معطل کیا،اس پر ڈی پی او کے خلاف سوشل میڈیا پر پہلے اْس نے خود مہم چلائی بعد میں اپنی بیگم کو استعمال کرنے کا وہی طریقہ اختیار کیا جو پاکستان میں اکثر لوگ کرتے ہیں،اْس کی بیگم نے درخواست دی تو لوگوں کو پتہ چلا اْس کی بیگم درخواست بھی دیتی ہے،اب اپنی وہ درخواست اْس نے واپس لے لی ہے،کیونکہ دی ہوئی صرف درخواست ہی واپس لی جاسکتی ہے،اْس نے کہا ہے کہ پہلی درخواست میں تمام الزامات اْس نے کسی غلط فہمی کی بْنیاد پر لگائے تھے،یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں جو محض ’’غلط فہمی‘‘ کی بنیاد پر داخل دفتر کر دیا جائے،ڈی پی او سرگودھا کو چاہئے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں،سوشل میڈیا پر یہ درخواست ابھی تک وائرل ہو رہی ہے جبکہ بعد میں اس درخواست کو واپس لئے جانے والے بیان کا کسی کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے،ڈی پی او صاحب کی ماں بہنیں بیٹیاں بھی ہوں گی اس درخواست کے وائرل ہونے کے بعد اْن کی کیا عزت اْن کے سامنے رہ گئی ہوگی ؟ اْن کی عزت کا جنازہ نکالنے کی جو ناکام کوشش ہوئی وہ اگر اْسے گول کر گئے لوگ سمجھیں گے دال میں واقعی کچھ کالا ہے،اس سے یہ تاثر بھی قائم ہو سکتا ہے درخواست واپس لینے کے لئے اداکارہ پر دباؤ ڈالا گیا ہے،ڈی پی او سرگودھا،آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سے خود گزارش کریں اس واقعے کی مکمل چھان بین کر کے اس کی رپورٹ اْسی طرح سوشل میڈیا پر وائرل کی جائے جیسے ایک خاص مقصد کے لئے درخواست کو وائرل کرایا گیا ہے،چھوٹے موٹے الزامات افسروں اور پولیس افسروں پر لگتے رہتے ہیں،اس پس منظر میں یہ الزام’’چھوٹا موٹا‘‘ ہی ہے کہ ایسی کئی شرمناک حرکتیں سول،پولیس و دیگر افسران اپنے دفتروں یا گھروں میں عام کرتے رہتے ہیں وہ کبھی منظر عام پر نہیں آتیں،بڑا واقعہ وہ قرار پاتا ہے جو منظر عام پر آجائے،ایسا ہی ایک واقعہ لاہور میں بھی جلد منظرعام پر آنے والا ہے جسے دبانے کی آج کل پوری کوشش ہو رہی ہیں،یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو لاہور میں بڑے بڑے بْرج شاید اْلٹ جائیں،افسوس بس اس بات کا ہے ہماری پولیس کی ساکھ کچھ اس طرح راکھ میں مل چکی ہے کہ بہترین افسروں پر بھی کوئی گندہ الزام لگے ہم بغیر تصدیق کے اْسے درست مان لیتے ہیں،اس سے بھی زیادہ دْکھ اس بات کا ہے اس ساکھ کو راکھ سے نکالنا ہی کوئی نہیں چاہتا۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا اس درخواست لاہور میں پولیس کی کی بیگم کے لئے
پڑھیں:
حماس کا اسرائیل پر اسیر کی ہلاکت کا الزام، غزہ میں امداد کی لوٹ مار کا دعویٰ بھی مسترد
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیلی حراست میں موجود 65 سالہ قیدی محمد حسین غوادرة کی موت کو جیلوں میں جاری مبینہ طبی غفلت اور خراب رویے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی، تشدد اور علاج کی محرومی کی پالیسی منظم انداز میں جاری ہے، تاہم اس طرح کے اقدامات فلسطینیوں کے حوصلے کم نہیں کرسکتے۔
یہ بھی پڑھیں: حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ
حماس نے کہا کہ فلسطینی اسیران کے حق میں سرگرمیوں میں مزید اضافہ کیا جائے اور عالمی برادری اور انسانی حقوق کے ادارے اسرائیل کو جوابدہ بنائیں۔ اقوام متحدہ سمیت متعدد عالمی تنظیمیں اسرائیلی قید خانوں میں فلسطینیوں کے ساتھ بدسلوکی اور غیر انسانی سلوک پر پہلے ہی تشویش کا اظہار کر چکی ہیں، جبکہ جنگ غزہ کے آغاز کے بعد ایسی شکایات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب حماس نے غزہ میں امدادی سامان کی لوٹ مار سے متعلق امریکی اور اسرائیلی الزامات کو من گھڑت اور گمراہ کن قرار دے دیا ہے۔ غزہ حکومت کے میڈیا آفس کے مطابق یہ الزام فلسطینی پولیس فورس کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پولیس اہلکار امدادی قافلوں کی حفاظت کی ذمہ داری انجام دے رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی یرغمالیوں کی مزید لاشیں کب حوالے کی جائیں گی؟ حماس کا اہم بیان آگیا
میڈیا آفس کے مطابق امدادی کاررواں کی نگرانی اور حفاظت کے دوران اب تک ایک ہزار سے زائد پولیس اہلکار شہید اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ امداد کی چوری نہیں بلکہ اسے محفوظ طریقے سے گوداموں تک منتقل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ کئی بین الاقوامی ادارے بھی تصدیق کر چکے ہیں کہ فلسطینی پولیس نے امداد کی ترسیل میں اہم کردار ادا کیا، جبکہ اسرائیلی فورسز نے جان بوجھ کر پولیس اور رضاکاروں کو نشانہ بنایا تاکہ غزہ میں انتشار اور لوٹ مار کو بڑھایا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: حماس کے غیرمسلح ہونے کے لیے کوئی آخری تاریخ مقرر نہیں کی، امریکا نے واضح کردیا
حماس نے امریکی سینٹرل کمانڈ پر جانبداری کا الزام بھی عائد کیا اور کہا کہ سینٹکام نے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں، شہریوں کی ہلاکتوں اور امدادی سامان کی رکاوٹوں پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔
واضح رہے کہ سینٹکام کی جانب سے جاری ایک ویڈیو پر امریکی سینیٹر مارکو روبیو نے دعویٰ کیا تھا کہ حماس غزہ کے عوام تک امداد پہنچنے سے روک رہی ہے، اور یہ رکاوٹ صدر ٹرمپ کے امدادی پلان کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسرائیل امداد حماس سینٹکام غزہ قیدی