روشن فکر قبیلے کی ماہتاب ارفع کریم رندھاوا کی یاد میں
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
ارفع کریم ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی کم عمری میں ہی دنیا کو اپنی قابلیت اور محنت سے متاثر کیا۔ وہ 2 فروری 1995ء کو فیصل آباد پاکستان میں پیدا ہوئیں۔
ارفع کریم کا بچپن ایک عام پاکستانی خاندان میں گزرا۔ ان کی والدہ جو ایک استاد تھیں، انہوں نے ارفع کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ ارفع نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر سے حاصل کی اور جلد ہی اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے نمایاں ہو گئیں۔ انہوں نے مائیکروسافٹ کے مختلف پروگرامز میں دلچسپی لی اور اپنی محنت سے اس میدان میں کامیابی حاصل کی۔
ارفع کی زندگی کا سفر نہ صرف ان کی ذاتی کامیابیوں کا عکاس ہے، بلکہ یہ ایک ایسی مثال بھی ہے جو نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے اور ان کی ترقی کے لیے محنت کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
ارفع کریم پاکستان کا واحد درخشاں ستارہ ہے جو 2004 میں محض نو سال کی عمر میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل (ایم سی پی) بن گئیں تھیں، یہی نہیں بلکہ دس سال کی عمر میں پائلٹ کا اجازت نامہ (لائسنس) بھی حاصل کیا۔ کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ہونے کی بنا پر ارفع کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں درج ہونے کا اعزاز 2008 تک ارفع کے پاس رہا۔
ارفع نے پاکستان کی طرف سے مختلف بین الاقوامی فورموں اور ٹیک ایڈ ڈویلپرز کانفرنس میں نمائندگی بھی کی۔ 2005 میں حکومت پاکستان نے ارفع کو صدارتی تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔ لاہور میں ایک سائنس پارک ارفع سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک بھی ارفع کریم کے نام پر بنایا گیا۔
مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے ارفع کریم کو صدر دفتر امریکا میں مدعو کیا اور خود ملاقات کی۔ جب جولائی 2005 میں مائیکروسافٹ کارپوریشن کی دعوت پر ارفع کریم رندھاوا اپنے والد کے ساتھ امریکا گئیں تو ارفع کو دنیا کی کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کی سند دی گئی۔
پھر جب ارفع کریم کی ملاقات بل گیٹس سے ہوئی تو اس دس منٹ کی ملاقات کے بعد ارفع کو پاکستان کا دوسرا رخ کیا گیا۔ یہی نہیں ارفع کریم کو پاکستان کے دوسرے چہرے کا نام دیا۔ وہ دوسرا چہرہ جو روشن ہے۔
دبئی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ماہرین نے بھی ارفع کریم کو دو ہفتوں کے لیے مدعو کیا، جہاں ارفع کو مختلف تمغا جات اور اعزازات سے نوازا گیا۔
ارفع کریم کو دبئی کے فلائینگ کلب میں صرف دس سال کی عمر میں ایک طیارہ اڑانے کا اعزاز حاصل ہونے کے ساتھ طیارہ اڑانے کا سرٹیفیکٹ بھی دیا گیا۔
ارفع کریم کو 2005 میں اس کی صلاحیتوں کے اعتراف میں ” صدارتی ایوارڈ “ ، ” پرائڈ آف پرفارمنس“ ، ”مادرملت جناح طلائی تمغے“ اور ” سلام پاکستان یوتھ ایوارڈ“ سے بھی نوازا گیا۔
مائیکرو سافٹ نے بار سلونا میں منعقدہ سن 2006 کی تکنیکی ڈیولپرز کانفرنس میں پوری دنیا سے پانچ ہزار سے زیادہ مندوبین میں سے پاکستان سے صرف ارفع کریم کو چُنا اور اس انٹر نیشنل کانفرنس میں مدعو کیا۔
حکومت پاکستان نے بعد از مرگ لاہور کے ایک پارک اور کراچی کا آئی ٹی سینٹر ارفع کریم کے نام سے منسوب کر دیا۔ یہی نہیں ارفع کے گاؤں کو بھی ارفع کریم کا نام دے دیا گیا۔
ارفع 14 جنوری 2012 کو 16 سال سال کی عمر میں عارضۂ قلب کی وجہ سے وفات پا گئی تھیں۔
جنوری 2012 میں ہی ارفع کی وفات کے بعد سابق پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ارفع کے نام پر ڈاک کا یادگاری ٹکٹ جاری کرنے کی منظوری بھی دی تھی۔
ارفع کریم کی زندگی نے نوجوانوں کو یہ سکھایا کہ محنت، لگن اور عزم کے ساتھ کوئی بھی خواب حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے۔ ان کی کامیابی نے یہ ثابت کیا کہ اگر انسان میں ہمت و عزم ہو تو وہ کسی بھی مشکل کو عبور کر سکتا ہے۔ ارفع کی کہانی نے لاکھوں نوجوانوں کو متاثر کیا اور انہیں اپنی صلاحیتوں پر یقین کرنے کی ترغیب دی۔
ارفع کی وفات کے بعد ان کی یاد میں مختلف تعلیمی اداروں میں پروگرامز اور تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کی کہانی کو نوجوانوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ ان سے سیکھ سکیں اور اپنی زندگی میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ ارفع کی یاد میں کئی اسکالرشپس بھی قائم کی گئی ہیں تاکہ ان کی طرح کے باصلاحیت نوجوانوں کی مدد کی جا سکے۔
ہر سال 14 جنوری کو ارفع کی برسی منائی جاتی ہے۔ اس دن مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جہاں لوگ ان کی زندگی اور کامیابیوں کو یاد کرتے ہیں۔ یہ تقریبات نوجوانوں کے لیے ایک موقع ہوتی ہیں کہ وہ ارفع کی کہانی سے متاثر ہوں اور اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے کی کوشش کریں۔
ارفع کی یاد ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی، اور ان کی زندگی کی مثال ہمیں آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی رہے گی۔ ان کی برسی پر ہمیں ان کی زندگی کو یاد کرتے ہوئے یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں گے اور انہیں نکھارنے کی کوشش کریں گے۔ اس حوالے سے جون ایلیا نے کیا خوب کہا
حفظ ہے شمس بازغہ مجھ کو
پر میسر وہ ماہتاب نہیں
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سال کی عمر میں ارفع کریم کو ان کی زندگی ارفع کی ارفع کو کی یاد کے لیے نہیں ا اور ان
پڑھیں:
مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 17 September, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
اللہ تعالیٰ نے اپنی لامحدود حکمت سے انسانی جسم کو غیر معمولی قوتِ مدافعت عطا کی ہے۔ جب گوشت یا ہڈی زخمی ہو جاتی ہے تو فطرت خود اس کے علاج کو آتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں۔ مگر ایک اور قسم کے زخم بھی ہیں—وہ جو روح پر لگتے ہیں—یہ طویل عرصے تک ناسور بنے رہتے ہیں، بے قراری اور بے سکونی پیدا کرتے ہیں اور چین چھین لیتے ہیں۔ آج بھارتی حکمران اور ان کے فوجی سربراہان اسی کیفیت کے اسیر ہیں، کیونکہ پاکستان کی 9 اور 10 مئی 2025 کی بھرپور جواب دہی کے نشان آج بھی ان کے حافظے میں سلگتے ہیں۔ ان دنوں کی تپش ماند نہیں پڑی اور اسی کرب میں وہ اپنی کڑواہٹ کھیل کے میدانوں تک لے آئے ہیں۔
حالیہ پاک-بھارت میچ جو ایشین کپ کے دوران متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا، محض ایک کرکٹ میچ نہ تھا بلکہ ایک ایسا منظرنامہ تھا جس پر بھارت کی جھنجھلاہٹ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ان کی ٹیم کا رویہ اور خاص طور پر ان کے کپتان کا طرزِ عمل اس حقیقت کو آشکار کرتا رہا کہ انہوں نے کھیل کی حرمت کو سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ جہاں کرکٹ کا میدان نظم و ضبط، کھیل کی روح اور برابری کے مواقع کی خوشی کا مظہر ہونا چاہیے تھا، وہاں بھارت کی جھنجھلاہٹ اور نفرت نے اسے سیاسی اظہار کا اسٹیج بنا ڈالا۔ کپتان کا یہ طرزِ عمل محض اسٹیڈیم کے تماشائیوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں دیکھنے والوں کے لیے حیرت انگیز اور افسوس ناک لمحہ تھا۔
جب میدانِ جنگ میں کامیابی نہ ملی تو بھارتی حکمرانوں نے اپنی تلخی مٹانے کے لیے بزدلانہ اور بالواسطہ ہتھکنڈے اپنانے شروع کر دیے۔ ان میں سب سے بڑا اقدام آبی جارحیت ہے، ایسی جارحیت جس میں نہ انسانیت کا لحاظ رکھا گیا نہ عالمی اصولوں کا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہوس میں بھارتی حکمران اپنے ہی مشرقی پنجاب کے بڑے حصے کو ڈبونے سے بھی باز نہ آئے، جہاں اپنے ہی شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔ یہ انتقام صرف پاکستان سے نہ تھا بلکہ اس خطے میں آباد سکھ برادری سے بھی تھا، جس کی آزادی کی آواز دن بہ دن دنیا بھر میں بلند تر ہو رہی ہے۔
یہ غیظ و غضب صرف اندرونی جبر تک محدود نہیں رہا۔ دنیا بھر میں بھارتی حکومت نے سکھوں کو بدنام کرنے، ان کی ڈائسپورا کو کمزور کرنے اور ان کے رہنماؤں کو خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سکھ دانشوروں اور کارکنوں کے قتل اب ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہے، بلکہ ان کے پیچھے بھارتی ہاتھ کا سایہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اسی دوران بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد پاکستان میں خونریزی کی کوششیں کر رہے ہیں، جن کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ دنیا کب تک ان حرکتوں سے آنکھیں بند رکھے گی، جب کہ بھارت اپنی فریب کاری کا جال ہر روز اور زیادہ پھیلا رہا ہے۔
اپنے جنون میں بھارتی حکمرانوں نے ملک کو اسلحہ کی دوڑ کی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے، جہاں امن نہیں بلکہ تباہی کے آلات ہی ان کی طاقت کا ماخذ ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی یہ خواہش، خواہ اپنی معیشت اور عوام کے مستقبل کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے، انہیں خطرناک حد تک لے جا چکی ہے۔ لیکن جہاں کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، وہاں پاکستان نے ہمیشہ اصولوں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمسایہ ملک کے برعکس پاکستان نے جنگ میں بھی انسانیت کو ترک نہیں کیا۔ 9 اور 10 مئی کو دکھائی گئی ضبط و تحمل خود اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔
یہی وہ فرق ہے جو دنیا کو پہچاننا چاہیے؛ ایک قوم جو انتقام میں مدہوش ہے اور دوسری جو وقار اور ضبط کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم بیرونی دنیا کی پہچان ہمیں اندرونی طور پر غافل نہ کرے۔ آج بھارت بے قراری اور کڑواہٹ کے ساتھ دیوار پر بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرے گا، چاہے کھلی جارحیت ہو، خفیہ کارروائیاں، پروپیگنڈہ یا عالمی فورمز پر مکاری۔
لہٰذا پاکستان کو چوکنا رہنا ہوگا۔ آگے بڑھنے کا راستہ قوت، حکمت اور اتحاد کے امتزاج میں ہے۔ سب سے پہلے ہماری دفاعی تیاری ہر وقت مکمل رہنی چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کمزوری دشمن کو دعوت دیتی ہے، جب کہ تیاری دشمن کو روک دیتی ہے۔ ہماری مسلح افواج بارہا اپنی بہادری ثابت کر چکی ہیں، مگر انہیں جدید ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور سائبر صلاحیتوں سے مزید تقویت دینا ہوگا۔
دوسرا، پاکستان کو اپنی اندرونی یکجہتی مضبوط کرنی ہوگی۔ کوئی بیرونی دشمن اس قوم کو کمزور نہیں کر سکتا جس کے عوام مقصد اور روح میں متحد ہوں۔ سیاسی انتشار، فرقہ واریت اور معاشی ناہمواری دشمن کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ ہمیں ایسا پاکستان تعمیر کرنا ہوگا جہاں فکری ہم آہنگی، معاشی مضبوطی اور سماجی ہم آہنگی ہماری دفاعی قوت جتنی مضبوط ہو۔
تیسرا، پاکستان کو دنیا کے پلیٹ فارمز پر اپنی آواز مزید بلند کرنی ہوگی۔ نہ صرف بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے بلکہ اپنی امن پسندی اور اصولی موقف کو اجاگر کرنے کے لیے بھی۔ دنیا کو یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں لیکن اس سے خوفزدہ بھی نہیں۔ ہماری سفارت کاری ہماری دفاعی طاقت جتنی ہی تیز ہونی چاہیے تاکہ ہمارا بیانیہ سنا بھی جائے اور سمجھا بھی جائے۔
آخر میں، پاکستان کو اپنی نوجوان نسل پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی، جو کل کے اصل محافظ ہیں۔ تعلیم، تحقیق، جدت اور کردار سازی کے ذریعے ہم ایسا پاکستان تعمیر کر سکتے ہیں جو ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بھارت اپنی نفرت میں ڈوب سکتا ہے مگر پاکستان کا مستقبل امید، ترقی اور اللہ تعالیٰ پر ایمان میں پیوست ہونا چاہیے۔
مئی 2025 کے زخم بھارت کو ضرور ستائیں گے، مگر وہ ہمیں یہ اٹل حقیقت یاد دلاتے رہیں گے کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جسے جھکایا نہیں جا سکتا۔ اس کے عوام نے خون دیا، صبر کیا اور پھر استقامت سے کھڑے ہوئے۔ ہمارے دشمن سائے میں سازشیں بُن سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے عزم کی روشنی ان سب پر غالب ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ واضح ہے: چوکسی، اتحاد اور ناقابلِ شکست ایمان۔ پاکستان کے لیے ہر چیلنج ایک یاد دہانی ہے کہ ہم جھکنے کے لیے نہیں بلکہ ہر حال میں ڈٹ جانے کے لیے بنے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملکی گیس کنکشن پر مستقل پابندی عائد، وصول شدہ 30لاکھ درخواستیں منسوخ کرنے کی ہدایت انقلاب – مشن نور ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم