ماہ دسمبر جاتے جاتے کئی پرانے زخم تازہ کرجاتا ہے ۔اسی ماہ کی سولہ تاریخ کو سقوط ڈھاکہ پیش آیا اور ہمارا ملک دو لخت ہو گیاوہ ملک جس کی بنیادوں میں لاکھوں شہیدوں کا لہو شامل ہے وہ لہو جس کی برکت سے یہ ملک ابھی دنیا کے نقشے پر موجود ہے اس کے باوجود کہ سیاسی گدھوں کے متعدد گروہ اسے بھنبھوڑ نے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھے ہوئے۔سانحہ مشرقی پاکستان سے ایک نہیں کئی اندوہناک واقعات جڑے ہوئے ہیں جو بہت سارے لکھنے والوںنے تحریر کئے ہیں ۔انہیں میں ارشد سمیع کا شمار بھی ہوتا ہے جن کی معرکتہ الآرا کتاب “Three President’s and an “Ade بھی شامل ہے جس میں مصنف نے دوران سروس اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کے ساتھ ساتھ ان دشواریوں کا بھی ذکر کیا ہے جو انہیں پیش آئیں ۔
ارشد سمیع یوں تو پاکستانی سفارتکار تھے جنہوں نے مملکت پاکستان کے تین صدور کے ساتھ کام کیا جن میں صدر محمد ایوب خان ، صدر یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے نام شامل ہیں جن کے ساتھ سفارتی خدمات سرانجام دیں اوران ادوار کے بین الاقوامی حالات و واقعات کے عینی شاہد رہے،اور عالمی سیاست کے پس منظر میں تینوں صدور کی اندرونی کہانیاں انتہائی دلکش و دل فگار پیرائے میں بیان کی ہیں ۔انہوں نے تینوں صدور کے مختلف مزاج اور ان کی حکمت عملیوں کے بارے میں تفصیل سے اور کھڑے الفاظ میں لکھا ہے ۔انہوں نے امریکہ،روس اور چین کے ساتھ سیاسی اور سفارتی تعلقات کے حوالے سے غیر معمولی قصے بیان کرنے کے ساتھ بین الاقوامی معاہدوں اور مذاکرات پر سیل حاصل امور پر سے پردہ اٹھایا ہے اور خاص طور پر 1971ء کے بحران بارے اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں حقائق سے آگاہ کیا ہے۔ ارشد سمیع نے ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت اور سیاسی قیادت کو کرشماتی قرار دیا ہے اور ان کی سیاسی سوجھ بوجھ اورحکمت عملیوں کے بارے حسن ظن کا اظہار کیا ہے جبکہ جنرل یحییٰ خان کی کمزوریوں کو بھی خوبصورت ، سچے انداز میں پیش کیا ہے اور صدر ایوب کا ذکر کرتے ہوئے بھی شگفتہ طرز تحریر اپنایا ہے۔ارشد سمیع نے پاکستانی سیاست اور سفارتکار ی کی اندرونی کہانی کو فکر انگیز اسلوب میں بیان کیا جس سے یہ اندازہ لگانے میں آسانی ہوتی ہے کہ ہمارے سیاستدان یا مقتدرہ کے بڑے منصب دار کہاں کہاں لیت و لعل یا بے سرو پاحکمت عملیوں سے کام لیتے رہے۔
پاکستانی سیاست اور تاریخ کے حوالے سے ارشد سمیع نے بہت سارے ایسے حقائق کی پردہ کشائی کی ہے جنہیں بیان کرنے سے اخفا پرتا گیا یا کچھ لوگ مبالغہ آرائی کرتے ہیں اور کچھ لوگ بعض اہم نوعیت کے واقعات کے بیان میں مصلحت کیشی کا رویہ اپناتے ہیں ۔ ارشد سمیع نے اس بارے اپنی مشکلات اور دشواریوں کا ذکر بھی تفصیل کیا ہے جو ایک اچھے سفارتکار کو درپیش ہوتی ہیں،اس دوران کبھی کبھی وہ دوسروں کو آئینہ دکھاتے ہوئے خود آئینے کے پیچھے چھپ جاتاہے اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ استدراک کا فقدان غالب آجاتا ہے ،مشورہ ادھورا رہ جاتا،ہے یا بات کے وزن کو پورے طور پر محسوس کرنے کی زحمت اٹھانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ان ساری باتوں کو انہوں نے چیلنجز کا نام دیا ہے ۔بہت سی بار پاکستان کے موقف کو خود سے مضبوط بنا کر پیش کرنا پڑتا ہے اور بین الاقوامی طاقتوں کے فیصلوں پر اپنا رد عمل یا رائے دینا ہوتی ہے اس دوران اختلاف اور سیاسی و سفارتی حکمت عملی کے بارے جن دشواریوں سے سابقہ پڑتا ہے اور وطن سے محبت و وفاداری اور اخلاقی ذمہ داری تک کا لحاظ درپیش ہوتا ہے۔اس بارے شناخت بنانے میں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔یوں بھی ارشد سمیع ایک موسیقار باپ کے بیٹے ہونے کے ناطے ہر گام پر ایک ردھم کا خیال رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔صدر ایوب کے دور حکمرانی میں امریکہ اور چین کے ساتھ رشتوں کی مضبوطی اور بھٹو دور میں پاکستان کو خودمختار بنانے کی جدوجہد میں ان کا کردار بہت مثبت اور حوصلہ افزا رہا ۔گو اب کی بار بھی دسمبر جاچکا ہے مگر اس کے لگائے زخم ہم کیسے بھلا سکتے ہیں ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے ساتھ کیا ہے ہے اور
پڑھیں:
واٹس ایپ کی ڈیلیٹڈ اکاؤنٹس بارے پالیسی اور حمیرا اصغر کے اکاؤنٹ پر مبینہ سرگرمیاں
کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے 8 جولائی کو کئی ماہ پرانی لاش برآمد ہونے کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ وہ لاش معروف اداکارہ حمیرا اصغر کی تھی۔ معاملے میں نیا موڑ اس وقت آیا جب ان کے واٹس ایپ اکاؤنٹ پر مبینہ سرگرمیوں نے شکوک و شبہات کو جنم دیا۔
اداکارہ کی گمشدگی کا دعویٰ کرنے والے اسٹائلسٹ دانش مقصود نے بتایا کہ حمیرا کے فون پر آخری سرگرمی 5 فروری کو دیکھنے میں آئی۔ ان کے مطابق اس دن نہ صرف اداکارہ کے واٹس ایپ کی پروفائل تصویر ہٹا دی گئی بلکہ ان کا لاسٹ سین بھی غائب کر دیا گیا۔ یہ سب اس وقت ہوا جب اداکارہ کی لاش کئی ماہ سے بے یارو مددگار پڑی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: حمیرا اصغر کے خلاف کرایہ داری کیس کی تفصیلات سامنے آگئیں
دانش کا کہنا ہے کہ ان کی حمیرا سے آخری بات چیت 2 اکتوبر کو ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن پیغامات کبھی پڑھے نہیں گئے۔ دانش کے بقول جب مسلسل خاموشی رہی تو انہوں نے 5 فروری کو سوشل میڈیا پر اداکارہ کی گمشدگی کی پوسٹ لگانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم پوسٹ لگانے کے اگلے ہی دن جب انہوں نے دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہیں واٹس ایپ اکاؤنٹ پر واضح تبدیلیاں محسوس ہوئیں۔ پروفائل تصویر غائب تھی اور لاسٹ سین بھی بند ہو چکا تھا۔
ادھر تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ اداکارہ کی موت 7 اکتوبر 2024 کو ہوئی تھی اور اسی روز شام 5 بجے تک ان کا فون استعمال ہوا۔ اس تناظر میں اگر واٹس ایپ کی پالیسی کو مدنظر رکھا جائے تو کوئی بھی اکاؤنٹ اگر مسلسل 120 دن غیر فعال رہے تو کمپنی کی جانب سے اسے خودکار طور پر ڈیلیٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں صارف کی پروفائل تصویر بھی ہٹ جاتی ہے اور لاسٹ سین بھی غائب ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حمیرا اصغر نے واٹس ایپ ہیک ہونے کی شکایت درج کرائی، ڈی آئی جی ساؤتھ کا انکشاف
7 اکتوبر کے بعد 120 دن 4 فروری 2025 کو مکمل ہوتے ہیں، یعنی یہ ممکن ہے کہ حمیرا کا واٹس ایپ اکاؤنٹ کمپنی کی پالیسی کے تحت خودکار طریقے سے غیر فعال ہوا ہو۔ تاہم یہ اب تک واضح نہیں ہو سکا کہ ان کا موبائل فون کب تک انٹرنیٹ سے منسلک رہا یا اس دوران کسی تیسرے فرد نے ان کے فون یا واٹس ایپ اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کی۔
اداکارہ کی موت اور ان کے واٹس ایپ پر دیکھی گئی سرگرمیوں کے درمیان وقت کا فاصلہ اور انکشافات اب تفتیشی اداروں کے لیے ایک نیا سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ اس معاملے میں تفتیش جاری ہے اور جلد مزید تفصیلات سامنے آنے کی توقع ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news حمیرا اصغر موبائل فون واٹس ایپ