تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے تاہم صرف ڈگری لینا کامیابی کی ضمانت نہیں ہے کیونکہ نوکری آپ کے تمام خوابوں کو نہیں بلکہ صرف ضروریات کو ہی پورا کر پاتی ہے۔

بالی ووڈ میں بھی ایسے کئی نامو اداکار موجود ہیں جنہوں نے غریبی کے دن دیکھے کسی نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر اپنے خواب پورے کرنے کا فیصلہ کیا تو کسی نے اپنا شہر چھوڑ اور خاندان پیچھے چھوڑ دیا۔

سلمان خان 

بالی ووڈ کے میگا اسٹار سلمان خان نے اپنی تعلیم کے دوران ہی اداکاری کا فیصلہ کیا۔ وہ ممبئی کے سینٹ زیویئر کالج کے طالبعلم تھے جب انہوں نے تعلیم چھوڑ کر فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ 1988 میں ریلیز ہونے والی فلم ’بیوی ہو تو ایسی‘ ان کے کیریئر کی شروعات تھی، جس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

کرینہ کپور خان 

کرینہ کپور خان نے مٹھی بائی کالج، ممبئی میں کامرس کی تعلیم شروع کی تھی، لیکن جلد ہی انہوں نے اپنی پڑھائی چھوڑ کر اداکاری کے مختصر کورس میں داخلہ لیا، جو ان کے لیے کامیابی کی راہ ہموار کرنے کا ذریعہ بنا اور جیسے ہی وہ انڈسٹری میں آئیں فوری ہی ہٹ ہیرؤئن بن گئیں جس کے بعد تعلیم مکمل نہیں کی۔ 

عامر خان 

بالی ووڈ کے مسٹر پرفیکشنسٹ عامر خان نے بھی تعلیم ادھوری چھوڑ کر فلمی دنیا میں اپنی جگہ بنائی۔ نرسی مونجی کالج میں تعلیم کے دوران، انہوں نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی پہلی فلم ’قیامت سے قیامت تک‘ نے انہیں فوری شہرت اور کامیابی دلائی جس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ 

  دیپیکا پڈوکون 

دیپیکا پڈوکون، جنہیں آج دنیا بھر میں جانا جاتا ہے، نے بنگلور کے ماؤنٹ کارمل کالج میں آرٹس کی تعلیم کے دوران اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بجائے ماڈلنگ اور اداکاری کو ترجیح دی ساتھ ہی وہ ایک ایتھلیٹ بھی تھیں تاہم اداکاری کا فیصلہ ان کے کیریئر کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ 

رنبیر کپور 

کپور خاندان کے ہونہار اداکار رنبیر کپور نے صرف 10ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ فلم میکنگ کی تعلیم کے لیے بیرون ملک گئے لیکن اپنی تعلیم مکمل کیے بغیر ہی بھارت واپس آکر فلم انڈسٹری کا حصہ بن گئے اور سانوریہ فلم سے بالی ووڈ میں قدم رکھا۔ 

ریکھا 

سدا بہار اداکارہ ریکھا نے بھی اپنی تعلیم مکمل نہیں کی۔ صرف 14 سال کی عمر میں انہوں نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا اور اپنے شاندار کیریئر کی بنیاد رکھی۔ جس کے بعد بغیر تعلیم کے بھی انہوں نے ایک کامیاب زندگی گزاری اور کروڑوں کمائے۔ 

ارجن کپور 

ارجن کپور نے 10ویں جماعت کے بعد تعلیم سے دلچسپی کھو دی۔ نرسی مونجی کالج، ممبئی میں داخلہ لینے کے باوجود، انہوں نے پڑھائی چھوڑ کر فلم انڈسٹری میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور پھر عشق زادے فلم سے پرینیتی چوپڑا کے ساتھ اداکاری کی دنیا میں قدم رکھا۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں قدم رکھا فلم انڈسٹری جس کے بعد کا فیصلہ تعلیم کے انہوں نے بالی ووڈ دنیا میں چھوڑ کر کر فلم

پڑھیں:

اولاد کی تعلیم و تربیت

رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: کسی باپ نے اپنی اولاد کو حسن ادب سے بہتر تحفہ انعام میں نہیں دیا۔‘‘ (ترمذی)

اولاد کی تربیت کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتا ہے، مفہوم: ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔‘‘ آگ سے بچانے کی صورت تو صرف یہی ہے کہ انھیں اچھے اخلاق و آداب سکھا کر سچا مسلمان بنایا جائے تاکہ وہ جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی باپ اپنے بچے کو حسن آداب سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا۔ آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اولاد کا باپ پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کی صحیح تربیت کرے اور اچھا سا نام رکھے۔

ماں کی گود بچے کے لیے پہلی تربیت گاہ ہے‘ اخلاق کی جو تربیت ماں کی گود میں ہو جاتی ہے اسی پر بچے کی شخصیت پروان چڑھتی ہے، اسی تربیت پر کسی بچے کی سیرت کے بننے یا بگڑنے کا انحصار ہوتا ہے۔ اسی لیے ماں کا یہ اہم فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلامی اخلاق کی تربیت دے۔ ماں اور باپ دونوں بچے کے سامنے حسن اخلاق کا نمونہ پیش کریں تاکہ ان کی اولاد عمدہ اخلاق کی حامل ہو۔ ان کا یہ فرض ہے کہ بچوں کو اسلامی تعلیمات سے رُوشناس کرائیں۔ انہیں اسلام کے عقائد سکھائیں اور پھر ان پر عمل بھی کرائیں۔ اس لیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو نماز کی تلقین کرنی چاہیے اور جب وہ دس سال کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اس کو سزا دی جائے۔

اسلام میں اولاد کی صحیح تربیت کی بڑی تاکید ہے۔ تربیت اولاد ایک انتہائی اور بنیادی ذمے داری ہے جو والدین پر ناصرف اسلام عاید کرتا ہے بل کہ اولاد کی صحیح تربیت کا فریضہ ملک و ملت کی طرف سے بھی عاید ہوتا ہے۔ چوں کہ بُری صحبت سے بُرے شہری پیدا ہوتے ہیں جو ملک پر بار ہوتے ہیں، اگر تربیت صحیح اصولوں پر ہو جائے تو یہی بچے اپنے ملک اور ملت کا نام روشن کرنے والے ہوں گے اور قوم کو ان پر فخر ہوگا۔

اولاد کی تربیت ایک دینی فریضہ بھی ہے۔ حدیث کی رُو سے بچہ اپنے والدین پر کچھ خرچ کرے تو صرف بچے کو ہی نہیں بل کہ والدین کو بھی ثواب ملتا ہے۔ والدین کو اس بات کا ثواب ملے گا کہ بچے کو نیک تربیت دی کہ والدین کی خدمت بجا لا رہا ہے اور یہ کہ والدین نے اسے دولت کمانے کا طریقہ سکھایا اور اسے اس قابل بنایا۔ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے یعنی جاری رہنے والی خیرات ہے۔ حدیث شریف میں ہے، مفہوم: ’’جب چند لوگوں کا درجہ چند دوسرے لوگ بلند دیکھیں گے تو پوچھیں گے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ تو جواب ملے گا تمہاری اولاد نے تمہارے لیے جو استغفار کیا ہے یہ اس کی وجہ سے ہے۔‘‘ (ترمذی)

آنحضور ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی جس انداز سے تربیت و پرورش فرمائی وہ سارے انسانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب فاطمہ الزہرا رضی اﷲ عنہا سب عورتوں سے عقل مند ہیں۔ وہ اپنے طرزِ کلام، حسن خلق، اسلوب گفت گُو، خشوع و خضوع میں آنحضرت ﷺ کے مشابہ ہیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی پاکیزہ زندگی مسلمانانِ عالم کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ ان سب نے حضور اکرم ﷺ کی تربیت سے فیض حاصل کیا۔

اولاد کا والدین پر یہ بھی حق ہے کہ وہ حیثیت کے مطابق اولاد کو مروجہ تعلیم بھی دلائیں اور دینی تعلیم کا بھی بندوبست کریں۔ علم وہ دولت ہے جس سے انسان کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں اور وہ انسانیت کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے۔

جہاں اس تعلیم سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان انسان بن جاتا ہے وہاں اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ حصول معاش میں آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ اولاد بڑھاپے میں والدین کا سہارا بن جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے زمانے میں بغیر علم کے ملک کے کسی بھی شعبہ میں انسان خدمت نہیں کر سکتا۔ کسی ملک کی ترقی کے لیے اس بات کی ضرورت بنیادی طور پر ہے کہ اس کے افراد تعلیم یافتہ ہوں اور ان میں ماہرین فن بھی ہوں اور ماہرین تعلیم بھی تاکہ ملک کے منصوبے پورے ہو سکیں۔

بچوں کو تعلیم دلانا گویا کہ ایک ملی فریضہ بھی ہے، جسے ہر ماں باپ کو ادا کرنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے تعلیم کو بڑی اہمیت دی۔ بدر کے قیدیوں کا فدیہ یہ فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ حصول تعلیم میں تکلیفیں اٹھانے والوں کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا درجہ دیا۔ شرط صرف اتنی ہے کہ اس طلب علم کا مقصد نیک ہو۔

اولاد کا یہ بھی حق ہے کہ والدین ان سے محبت و شفقت کا اظہار کریں اور ان پر رحم کرنا مسلمان ہونے کی نشانی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا اُسوہ بھی یہی ہے کہ آپ ﷺ بچوں سے محبت کیا کرتے تھے۔

ایک دن ایک دیہاتی حاضر خدمت ہوا بچوں کو پیار کرتے دیکھ کر پوچھا: کیا آپ ﷺ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے ہیں؟ ہم تو ایسا نہیں کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ میں اس پر قادر نہیں ہوں کہ تیرے دل سے اﷲ تعالیٰ نے جو رحم نکال لیا ہے پھر تیرے دل میں رکھ دوں۔

اولاد سے محبت ایک فطری بات ہے مگر اس میں اعتدال سے گزر جانا تباہ کن ہے۔ انسان کو یہ محبت راہ ہدایت سے بھی گم راہ کر دیتی ہے۔ اولاد میں انسان کے لیے بڑی آزمائش ہے۔ جو اس میں پورا اترا وہ کام یاب ہُوا۔ یہ اولاد ہی تو ہے جو انسان کو حرام روزی کمانے پر مجبور کرتی ہے۔ پھر انھی کی محبت میں گرفتار ہو کر آدمی فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کرتا ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔‘‘ (التغابن)

            اسلام اموال اور اولاد کی محبت میں اعتدال اور میانہ روی کا راستہ تجویز کرتا ہے۔ اس کے برعکس عمل سے انسان کو سراسر گھاٹا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے روز حرام روزی مہیا کرنے والے آدمی کے ساتھ سب سے پہلے اس کے اہل و عیال جھگڑا کریں گے اور گناہوں کی تمام تر ذمے داری اس پر ڈال دیں گے۔

والدین کا یہ فرض ہے کہ اپنے تمام بچوں سے یک ساں اور عدل و انصاف والا سلوک کریں۔ اسلام میں لڑکے اور لڑکی یا چھوٹے اور بڑے کی کوئی تمیز نہیں، سب کے حقوق یک ساں ہیں، اسلام نے لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کے مقابلے میں ترجیحی سلوک کو روا نہیں رکھا۔ اسلام پہلا مذہب ہے جس نے لڑکیوں کو وراثت میں حق دلایا۔ اپنی اولاد میں کسی ایک کو کوئی چیز دے دینا اور دوسروں کو اس سے محروم رکھنا جائز نہیں، اسے ظلم قرار دیا گیا کیوں کہ یہ انصاف کے خلاف ہے۔

ایک مرتبہ ایک صحابیؓ نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا اور حضور ﷺ سے آکر عرض کیا: آپ ﷺ اس کے گواہ رہیے۔

آپ ﷺ نے پوچھا: کیا دوسرے بچوں کو بھی ایک غلام دیا ہے؟

اس نے عرض کیا: نہیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں اس ظلم کا گواہ نہیں بننا چاہتا۔‘‘

اولاد کے درمیان ناانصافی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بہن بھائیوں میں عداوت اور دشمنی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں، جس سے گھر کا سکون ختم ہو جاتا ہے اور وہ بچہ جس سے ناروا سلوک کیا گیا ہے والدین سے نفرت کرنے لگے گا۔ یہ بات اس کی اور والدین کی زندگی پر بُری طرح اثر انداز ہو گی۔ لہٰذا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے اولاد کی تربیت عمدہ خطوط میں کرنا والدین کا ایک اہم فریضہ ہے۔

اﷲ رب العزت ہمیں دین اسلام کے مطابق بہترین طرزِ عمل اختیار کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں زیر تعلیم کشمیری نوجوانوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں، فاروق رحمانی
  • چیزیں بگڑتی ہیں تو خطہ ہی نہیں دنیا پر اثرات پڑیں گے؛ خواجہ آصف
  • بھارت کا سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا ظالمانہ اقدام ہے: شازیہ مری
  • اولاد کی تعلیم و تربیت
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟
  • کینال تنازع پروزیر اعظم بے بس ہیں تواقتدار چھوڑ دیں،پیپلزپارٹی کا مطالبہ
  • اداکاری کا جنون؛ بھارتی نوجوان نے مکیش امبانی کی لاکھوں روپے کی ملازمت چھوڑ دی
  • پہلگام حملہ فالس فلیگ آپریشن، مقصد اپنی دہشتگردانہ کارروائیوں سے دنیا کی توجہ ہٹانا ہے، مشاہد حسین سید
  • کینالوں کے معاملے پر وزیر اعظم بے بس ہیں تو اقتدار چھوڑ دیں، پیپلزپارٹی
  • مشہور اداکارہ نے ویٹریس بننے کیلئے اداکاری چھوڑ دی