فرانسس بیکن،آف ٹروتھ
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
فرانسس بیکن انگلستان کے نشاۃ ثانیہ دور کے ایک عظیم مفکر،مضمون نگار،فلسفی،ممبر پارلیمنٹ اور سائنس دان تھے۔انھیں انگریزی ادب میں مضمون نگاری کا بانیFather of English Essay کہا جاتا ہے۔
ان کی علمی و ادبی خدمات نے نہ صرف انگلستان بلکہ پورے یورپ کے فکری افق پر گہری چھاپ چھوڑی۔بیکن کی شخصیت علم،تجربے اور حقیقت پسندی کا حسین امتزاج تھی۔بیکن کا سب سے بڑا ادبی کارنامہ یہ ہے کہ اس نے انگریزی زبان میں مضمون Essayنگاری کو ایک باضابطہ اور معتبر صنف کی شکل دی۔اس سے قبل انگریزی ادب میں مضمون نگاری ابتدائی اور غیر پختہ صورت میں موجود تو تھی مگر بیکن نے اسے علمی وقار اور ادبی شان سے نوازا۔ان کے مضامین مختصر،جامع،حقیقت سے قریب تر اور پر اثر ہیں۔ مضامین کی سب سے نمایاں خصوصیت معنویت اور Aphoristicانداز ہے۔ہر جملہ ایک قولِ زریں کی حیثیت رکھتا ہے جو مختصر مگر معنی خیز ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کے مضامین محض ادب نہیں بلکہ حکمت و دانائی کا خزانہ ہیں۔
بیکن نے محض ادب میں ہی نہیں بلکہ فلسفہ اور سائنس پر بھی گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔اس نے تجربیت کی بنیاد رکھی اور یہ نظریہ پیش کیا کہ حقیقی علم وہی ہے جو مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہو۔اس نے قدیم یونانی فلسفے کی مجرد اور قیاسی طرزِ فکر کو رد کرتے ہوئے علمی تحقیق اور مشاہداتی علم پر زور دیا۔
اس کی تصنیف Novum Organum نے جدید تحقیق کے دروازے کھولے۔یوں وہ ادب کے ساتھ سائنس اور فلسفے کا بھی ایک عظیم پیش رو تھا ۔ بیکن کی تحریروں نے نہ صرف انگریزی ادب کو نیا رخ دیا بلکہ فلسفہ،سائنس اور تحقیق کے میدان کو بھی بدل ڈالا۔اس کے افکار نے بعد کے بڑے سائنس دانوں جیسے کہ ڈیکارٹ اور نیوٹن کو متاثر کیا۔فرانسس بیکن کی شخصیت ایک ہمہ جہت شخصیت تھی۔
فرانسس بیکن 22جنوری1561کو یارک ہاؤس لندن میں پیدا ہوا۔اس کے والد نکولس بیکن ملکہ الزبتھ اول کے لارڈ کیپر آف گریٹ سیلLord keeper of Great Sealتھے۔اس کی والدہ لیڈی این کک بہت پڑھی لکھی خاتون ، یونانی اور لاطینی زبان جاننے والی تھی۔فرانسس بیکن ابتدا سے ہی انتہائی ذہین بچہ تھا۔ اس کے اندر چیزوں کی حقیقت جاننے کی بے پناہ جستجو پائی جاتی تھی۔وہ1573میں ٹرینیٹی کالج کیمرج میں داخل ہوا جہاں وہ 1575تک زیرِ تعلیم رہا۔یہاں وہ ارسطو کی فلاسفی کا ناقد بنا۔اس نے محسوس کیا کہ ارسطو کی فلاسفی محض لفاظی پر مبنی ہے اور اس میں علم و آگہی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
کیمرج کے بعد اس نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیےGray s Innمیں داخلہ لیا یہاں سے اس کو زندگی بھر کے لیے سیاست اور Intellectual pursuitsمیں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ 1576میں وہ فرانس کے سفر پر نکل گیا جہاں اس نے یورپی سیاست،سفارت کاری اور سوسائٹی کا جائزہ لیا۔فرانسس بیکن 1579میں انگلینڈ واپس آیا اور 1582میں بیرسٹر بن گیا۔وہ 1584میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کا ممبر بنا۔پارلیمنٹ میں اس کی تقاریر شاندار اور انتہائی خوبصورت خطابت کا ایک نمونہ تھیں جن میں قومی اصلاح جھلکتی تھی۔
ملکہ الزبتھ اول کے دور میںفرانسس بیکن کسی اعلیٰ عہدے کے لیے کوشاں ہی رہا لیکن جب جیمز 1 تخت نشین ہوا تو اس کی صلاحیتوں کو ماننے کا زمانہ شروع ہوا۔کنگ جیمز اول نے فرانسس بیکن کے علم،ذہانت اور وفاداری کو خوب سراہا اور اسے 1603میں نائٹ ہوڈ عطا کی۔1607میں فرانسس بیکن کو سولسٹر جنرل جب کہ 1613میں اٹارنی جنرل بنا دیا گیا۔تیزی سے ترقی کرتے ہوئے وہ 1617میں لارڈ کیپر بنا اور تھوڑے ہی عرصے یعنی ایک سال کے بعد ہی فرانسس بیکن کو لارڈ چانسلر تعینات کر دیا گیا۔قانون کی فیلڈ میں یہ برطانوی سلطنت کے اندر سب سے بڑا عہدہ تھا۔اس کے ساتھ ہی بیکن کو Baron بنا دیا گیا۔ اس کو مزید نوازا گیا اور 1621میں وہ Viscountبن گیا۔
وسکاؤنٹ بننے کے کچھ عرصے بعد بیکن مشکلات میں گھرنے لگا۔پارلیمنٹ میں اس پر الزام لگا کہ لارڈ چانسلر کے طور پر فیصلے کرتے ہوئے وہ رشوت میں تحائف وصول کرتا رہا۔یہ تحائف اس کا حق نہیں تھے۔ یہ عجیب بات ہے کہ بیکن کے اوپر یہ الزام دھرا گیا حالانکہ اس وقت برطانوی سلطنت میں یہ ایک معمول تھا۔فرانسس بیکن نے اقرار کیا کہ اس نے تحائف وصول کیے اور وہ غیر ذمے داری کا مرتکب ہوا لیکن یہ کہ وہ ہمیشہ دونوں فریقوں سے برابر لیتا تھا اور یہ تحائف اس کے فیصلوں پر ہر گز اثر انداز نہیں ہوتے تھے۔
اس نے مزید بتایا کہ وہ ان تحائف کی رقم کو سائنسی تجربات کے لیے وسائل مہیا کرنے پر لگاتا تھا۔ اس نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ کو پارلیمنٹ کے آگے سرنڈر کر دیا۔اس کو ٹاور آف لندن میں قید رکھاگیا لیکن تھوڑی سی قید کے بعد اسے ٹاور سے رہا کر دیا گیا۔رہائی کے بعد اس نے اپنی بقیہ زندگی لکھنے پڑھنے، علم و آگہی کی ترویج اور سائنسی فکر کی آبیاری کے لیے وقف کر دی۔ 1626مارچ میں اس کی موت بھی فریج کی ایجاد کے لیے تجربات کرتے ہوئے نمونیہ سے ہوئی۔ فرانسس بیکن کے لکھے ESSAYS علم و حکمت اور دانائی کا نادر ترین نمونہ ہیں۔ اس کے Essays میں سےOF TRUTHکا ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔
سچائی کے بارے میں سب سے پہلا سوال وہ ہے جو پونٹس پائیلیٹ نے کیا تھا، جب اس نے پوچھا، سچائی کیا ہے۔لیکن اس نے اتنا توقف بھی نہ کیا کہ جواب سنے۔یہ آج کے زمانے کے ایسے لوگوں کی مثال ہے جو یہ سوال تو کر لیتے ہیں مگر جواب سننے یا اسے قبول و رد کرنے کے روادار نہیں ٹھہرتے۔کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جھوٹ بولنے کو محض برائی یا نقصان سے نہیں بلکہ لطف اندوز اور مزے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔یہ ایک طرح کی ایسی فطری برائی ہے کہ وہ بغیر فائدے کے بھی جھوٹ بولنے پر آمادہ رہتے ہیں۔گویا ان کی روح جھوٹ سے ہی غذا پاتی ہے۔
انسانوں کو یہ پوچھنا چاہیے کہ آج سچائی میں رکاوٹ کیوں ہے۔ایک وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ اور خواہش میں آزادی پسند ہے۔وہ چاہتا ہے کہ اس کے خیالات اور اعتقادات زنجیر میں جکڑے ہوئے نہ ہوں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ جھوٹ میں ایک طرح کا دلفریب حُسن ہے۔جس طرح کوئی تصویر حقیقت سے زیادہ خوش نما دکھائی دے سکتی ہے ایسے ہی جھوٹ کبھی کبھی حقیقت سے زیادہ دلکش محسوس ہوتا ہے۔لیکن اگر غور کیا جائے تو سچائی انسانی روح کے لیے سب سے بڑی بھلائی ہے۔یہ وہ روشنی ہے جسے خدا نے انسان کے دل میں رکھا ہے تا کہ وہ راہِ ہدایت پر قائم رہے۔اگر انسانوں کے درمیان معاملات کو دیکھا جائے تو سچائی سے بڑھ کر کوئی چیز بھروسے کے قابل نہیں۔ایک قوم یا معاشرہ اسی وقت ترقی کرتا ہے جب اس کی بنیاد سچائی پر رکھی گئی ہو۔
جھوٹ وقتی طور پر کسی کو فائدہ دے سکتا ہے مگر طویل عرصے میں یہ تباہی کا سبب بنتا ہے۔سچائی انسان کو خدا کے قریب کرتی ہے کیونکہ خدا خود سچائی ہے۔جھوٹ شیطان کی صفت ہے کیونکہ وہ ابتدا ہی سے جھوٹا اور دھوکادینے والا فریب کار رہا ہے۔پس سچائی کو ماننا اور اس پر قائم رہنا انسان کی فطرت کو بلند کرتا ہے۔سچائی روح کے لیے نور ہے۔ معاشرے کے لیے امن اور مذہب کے لیے تقویٰ ہے ،جو انسان سچائی کو اختیار کرتا ہے وہ گویا صاف روشنی میں چل رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فرانسس بیکن کرتے ہوئے دیا گیا کیا کہ کے بعد کے لیے
پڑھیں:
شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
محبت کے بادشاہ، شاہ رخ خان آج اپنی 60ویں سالگرہ منا رہے ہیں، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نئی نسل جین زی آج بھی ان کی پرانی رومانوی فلموں کی دیوانی ہے۔ جدید دور میں جہاں رشتے ڈیٹنگ ایپس اور میسجنگ تک محدود ہو گئے ہیں، وہاں نوجوان نسل پرانے انداز کی محبت میں پھر سے کشش محسوس کر رہی ہے اور اس کے مرکز یقینا شاہ رخ خان ہیں۔
’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘، ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘، ’ویر زارا‘ اور ’محبتیں‘ جیسی فلمیں آج بھی نوجوانوں کے جذبات کو چھو رہی ہیں۔ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز اور تھیٹر ری ریلیز کے ذریعے یہ فلمیں دوبارہ دیکھی جا رہی ہیں اور جین زی فلمی شائقین شاہ رخ خان کے سادہ مگر گہرے رومانس کو نئے انداز میں سراہ رہے ہیں۔
فلم ٹریڈ تجزیہ کار گِرش وانکھیڑے کے مطابق، شاہ رخ خان کا جین زی سے تعلق صرف یادوں تک محدود نہیں بلکہ ان کی خود کو وقت کے ساتھ بدلنے کی صلاحیت نے انہیں ہر دور سے وابستہ رکھا ہے۔
انہوں نے کہا، ’شاہ رخ خان ہمیشہ سے آگے سوچنے والے فنکار ہیں۔ وہ میڈیا، ٹیکنالوجی اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے ساتھ خود کو اپڈیٹ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے خود کو صرف ایک اداکار نہیں بلکہ ایک برانڈ کے طور پر منوایا ہے۔‘
اسی طرح فلمی ماہر گِرش جوہر کا کہنا ہے کہ یہ نیا جنون کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک فطری تسلسل ہے۔ ان کا ماننا ہے، ’شاہ رخ خان ایک عالمی ستارہ ہیں۔ ان کی فلموں میں جو جذبہ اور رومانوی اپیل ہے، وہ آج بھی ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ آج بھی دیکھیں تو چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے، یہی ان کی فلموں کی ابدی طاقت ہے۔‘
شاہ رخ خان کی پرانی فلموں کے مناظر اکثر انسٹاگرام ریلز اور ٹک ٹاک پر دوبارہ وائرل ہو رہے ہیں۔ اگرچہ جین زی انہیں نئے رنگ میں پیش کرتی ہے، مگر محبت کا جذبہ وہی رہتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یش راج فلمز اور دیگر پروڈکشن ہاؤسز اب ان فلموں کو خاص مواقع پر محدود ریلیز کے طور پر پیش کر رہے ہیں، تاکہ نئی نسل ان فلموں کو بڑی اسکرین پر دیکھ سکے۔
جنرل منیجر ڈی لائٹ سینماز راج کمار ملہوتراکے مطابق: ’یہ ری ریلیز بزنس کے لیے نہیں بلکہ ناظرین کے جذبات کے لیے کی جاتی ہیں۔ شاہ رخ خان کی فلموں کے گانے، کہانیاں اور کردار لوگوں کے دلوں میں پہلے سے جگہ بنا چکے ہیں، اس لیے لوگ دوبارہ وہ تجربہ جینا چاہتے ہیں۔‘
اگرچہ یہ ری ریلیز بڑے مالی منافع نہیں دیتیں، مگر ان کی ثقافتی اہمیت بے مثال ہے۔ تھیٹرز میں نوجوان شائقین 90 کی دہائی کے لباس پہن کر فلمیں دیکھنے آتے ہیں، گانوں پر جھومتے ہیں اور مناظر کے ساتھ تالیاں بجاتے ہیں اس طرح ہر شو ایک جشن میں بدل جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، شاہ رخ خان کی مقبولیت کا راز صرف یادیں نہیں بلکہ ان کی مسلسل تبدیلی اور ارتقاء ہے۔ حالیہ بلاک بسٹر فلمیں ’پٹھان‘ اور ’جوان‘ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ رومانس کے بادشاہ ہونے کے ساتھ ایکشن کے بھی شہنشاہ بن چکے ہیں۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ جین زی کے لیے شاہ رخ خان صرف ایک اداکار نہیں بلکہ محبت کی علامت ہیں۔ ڈیجیٹل دور کے شور میں ان کی فلمیں یاد دلاتی ہیں کہ عشق اب بھی خالص، جذباتی اور انسانی ہو سکتا ہے۔
شاید اسی لیے، جب تک کوئی راج اپنی سمرن کا انتظار کرتا رہے گا، شاہ رخ خان ہمیشہ محبت کے بادشاہ رہیں گے۔