فرانسس بیکن،آف ٹروتھ
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
فرانسس بیکن انگلستان کے نشاۃ ثانیہ دور کے ایک عظیم مفکر،مضمون نگار،فلسفی،ممبر پارلیمنٹ اور سائنس دان تھے۔انھیں انگریزی ادب میں مضمون نگاری کا بانیFather of English Essay کہا جاتا ہے۔
ان کی علمی و ادبی خدمات نے نہ صرف انگلستان بلکہ پورے یورپ کے فکری افق پر گہری چھاپ چھوڑی۔بیکن کی شخصیت علم،تجربے اور حقیقت پسندی کا حسین امتزاج تھی۔بیکن کا سب سے بڑا ادبی کارنامہ یہ ہے کہ اس نے انگریزی زبان میں مضمون Essayنگاری کو ایک باضابطہ اور معتبر صنف کی شکل دی۔اس سے قبل انگریزی ادب میں مضمون نگاری ابتدائی اور غیر پختہ صورت میں موجود تو تھی مگر بیکن نے اسے علمی وقار اور ادبی شان سے نوازا۔ان کے مضامین مختصر،جامع،حقیقت سے قریب تر اور پر اثر ہیں۔ مضامین کی سب سے نمایاں خصوصیت معنویت اور Aphoristicانداز ہے۔ہر جملہ ایک قولِ زریں کی حیثیت رکھتا ہے جو مختصر مگر معنی خیز ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کے مضامین محض ادب نہیں بلکہ حکمت و دانائی کا خزانہ ہیں۔
بیکن نے محض ادب میں ہی نہیں بلکہ فلسفہ اور سائنس پر بھی گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔اس نے تجربیت کی بنیاد رکھی اور یہ نظریہ پیش کیا کہ حقیقی علم وہی ہے جو مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہو۔اس نے قدیم یونانی فلسفے کی مجرد اور قیاسی طرزِ فکر کو رد کرتے ہوئے علمی تحقیق اور مشاہداتی علم پر زور دیا۔
اس کی تصنیف Novum Organum نے جدید تحقیق کے دروازے کھولے۔یوں وہ ادب کے ساتھ سائنس اور فلسفے کا بھی ایک عظیم پیش رو تھا ۔ بیکن کی تحریروں نے نہ صرف انگریزی ادب کو نیا رخ دیا بلکہ فلسفہ،سائنس اور تحقیق کے میدان کو بھی بدل ڈالا۔اس کے افکار نے بعد کے بڑے سائنس دانوں جیسے کہ ڈیکارٹ اور نیوٹن کو متاثر کیا۔فرانسس بیکن کی شخصیت ایک ہمہ جہت شخصیت تھی۔
فرانسس بیکن 22جنوری1561کو یارک ہاؤس لندن میں پیدا ہوا۔اس کے والد نکولس بیکن ملکہ الزبتھ اول کے لارڈ کیپر آف گریٹ سیلLord keeper of Great Sealتھے۔اس کی والدہ لیڈی این کک بہت پڑھی لکھی خاتون ، یونانی اور لاطینی زبان جاننے والی تھی۔فرانسس بیکن ابتدا سے ہی انتہائی ذہین بچہ تھا۔ اس کے اندر چیزوں کی حقیقت جاننے کی بے پناہ جستجو پائی جاتی تھی۔وہ1573میں ٹرینیٹی کالج کیمرج میں داخل ہوا جہاں وہ 1575تک زیرِ تعلیم رہا۔یہاں وہ ارسطو کی فلاسفی کا ناقد بنا۔اس نے محسوس کیا کہ ارسطو کی فلاسفی محض لفاظی پر مبنی ہے اور اس میں علم و آگہی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
کیمرج کے بعد اس نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیےGray s Innمیں داخلہ لیا یہاں سے اس کو زندگی بھر کے لیے سیاست اور Intellectual pursuitsمیں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ 1576میں وہ فرانس کے سفر پر نکل گیا جہاں اس نے یورپی سیاست،سفارت کاری اور سوسائٹی کا جائزہ لیا۔فرانسس بیکن 1579میں انگلینڈ واپس آیا اور 1582میں بیرسٹر بن گیا۔وہ 1584میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کا ممبر بنا۔پارلیمنٹ میں اس کی تقاریر شاندار اور انتہائی خوبصورت خطابت کا ایک نمونہ تھیں جن میں قومی اصلاح جھلکتی تھی۔
ملکہ الزبتھ اول کے دور میںفرانسس بیکن کسی اعلیٰ عہدے کے لیے کوشاں ہی رہا لیکن جب جیمز 1 تخت نشین ہوا تو اس کی صلاحیتوں کو ماننے کا زمانہ شروع ہوا۔کنگ جیمز اول نے فرانسس بیکن کے علم،ذہانت اور وفاداری کو خوب سراہا اور اسے 1603میں نائٹ ہوڈ عطا کی۔1607میں فرانسس بیکن کو سولسٹر جنرل جب کہ 1613میں اٹارنی جنرل بنا دیا گیا۔تیزی سے ترقی کرتے ہوئے وہ 1617میں لارڈ کیپر بنا اور تھوڑے ہی عرصے یعنی ایک سال کے بعد ہی فرانسس بیکن کو لارڈ چانسلر تعینات کر دیا گیا۔قانون کی فیلڈ میں یہ برطانوی سلطنت کے اندر سب سے بڑا عہدہ تھا۔اس کے ساتھ ہی بیکن کو Baron بنا دیا گیا۔ اس کو مزید نوازا گیا اور 1621میں وہ Viscountبن گیا۔
وسکاؤنٹ بننے کے کچھ عرصے بعد بیکن مشکلات میں گھرنے لگا۔پارلیمنٹ میں اس پر الزام لگا کہ لارڈ چانسلر کے طور پر فیصلے کرتے ہوئے وہ رشوت میں تحائف وصول کرتا رہا۔یہ تحائف اس کا حق نہیں تھے۔ یہ عجیب بات ہے کہ بیکن کے اوپر یہ الزام دھرا گیا حالانکہ اس وقت برطانوی سلطنت میں یہ ایک معمول تھا۔فرانسس بیکن نے اقرار کیا کہ اس نے تحائف وصول کیے اور وہ غیر ذمے داری کا مرتکب ہوا لیکن یہ کہ وہ ہمیشہ دونوں فریقوں سے برابر لیتا تھا اور یہ تحائف اس کے فیصلوں پر ہر گز اثر انداز نہیں ہوتے تھے۔
اس نے مزید بتایا کہ وہ ان تحائف کی رقم کو سائنسی تجربات کے لیے وسائل مہیا کرنے پر لگاتا تھا۔ اس نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اپنے آپ کو پارلیمنٹ کے آگے سرنڈر کر دیا۔اس کو ٹاور آف لندن میں قید رکھاگیا لیکن تھوڑی سی قید کے بعد اسے ٹاور سے رہا کر دیا گیا۔رہائی کے بعد اس نے اپنی بقیہ زندگی لکھنے پڑھنے، علم و آگہی کی ترویج اور سائنسی فکر کی آبیاری کے لیے وقف کر دی۔ 1626مارچ میں اس کی موت بھی فریج کی ایجاد کے لیے تجربات کرتے ہوئے نمونیہ سے ہوئی۔ فرانسس بیکن کے لکھے ESSAYS علم و حکمت اور دانائی کا نادر ترین نمونہ ہیں۔ اس کے Essays میں سےOF TRUTHکا ترجمہ پیشِ خدمت ہے۔
سچائی کے بارے میں سب سے پہلا سوال وہ ہے جو پونٹس پائیلیٹ نے کیا تھا، جب اس نے پوچھا، سچائی کیا ہے۔لیکن اس نے اتنا توقف بھی نہ کیا کہ جواب سنے۔یہ آج کے زمانے کے ایسے لوگوں کی مثال ہے جو یہ سوال تو کر لیتے ہیں مگر جواب سننے یا اسے قبول و رد کرنے کے روادار نہیں ٹھہرتے۔کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جھوٹ بولنے کو محض برائی یا نقصان سے نہیں بلکہ لطف اندوز اور مزے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔یہ ایک طرح کی ایسی فطری برائی ہے کہ وہ بغیر فائدے کے بھی جھوٹ بولنے پر آمادہ رہتے ہیں۔گویا ان کی روح جھوٹ سے ہی غذا پاتی ہے۔
انسانوں کو یہ پوچھنا چاہیے کہ آج سچائی میں رکاوٹ کیوں ہے۔ایک وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ اور خواہش میں آزادی پسند ہے۔وہ چاہتا ہے کہ اس کے خیالات اور اعتقادات زنجیر میں جکڑے ہوئے نہ ہوں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ جھوٹ میں ایک طرح کا دلفریب حُسن ہے۔جس طرح کوئی تصویر حقیقت سے زیادہ خوش نما دکھائی دے سکتی ہے ایسے ہی جھوٹ کبھی کبھی حقیقت سے زیادہ دلکش محسوس ہوتا ہے۔لیکن اگر غور کیا جائے تو سچائی انسانی روح کے لیے سب سے بڑی بھلائی ہے۔یہ وہ روشنی ہے جسے خدا نے انسان کے دل میں رکھا ہے تا کہ وہ راہِ ہدایت پر قائم رہے۔اگر انسانوں کے درمیان معاملات کو دیکھا جائے تو سچائی سے بڑھ کر کوئی چیز بھروسے کے قابل نہیں۔ایک قوم یا معاشرہ اسی وقت ترقی کرتا ہے جب اس کی بنیاد سچائی پر رکھی گئی ہو۔
جھوٹ وقتی طور پر کسی کو فائدہ دے سکتا ہے مگر طویل عرصے میں یہ تباہی کا سبب بنتا ہے۔سچائی انسان کو خدا کے قریب کرتی ہے کیونکہ خدا خود سچائی ہے۔جھوٹ شیطان کی صفت ہے کیونکہ وہ ابتدا ہی سے جھوٹا اور دھوکادینے والا فریب کار رہا ہے۔پس سچائی کو ماننا اور اس پر قائم رہنا انسان کی فطرت کو بلند کرتا ہے۔سچائی روح کے لیے نور ہے۔ معاشرے کے لیے امن اور مذہب کے لیے تقویٰ ہے ،جو انسان سچائی کو اختیار کرتا ہے وہ گویا صاف روشنی میں چل رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فرانسس بیکن کرتے ہوئے دیا گیا کیا کہ کے بعد کے لیے
پڑھیں:
انسان بیج ہوتے ہیں
بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا تھا‘ یہ دونوں بھارت کی بڑی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ مہندرا میں ملازم تھے‘ یہ کمپنی 1945 میں ممبئی کے تاجر جگدیش مہندرا اور مشہور سول سرونٹ غلام محمد نے بنائی تھی اور اس کا نام شروع میں مہندرا اینڈ محمد تھا‘ ملک غلام محمد علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجوایٹ تھے۔
آئی سی ایس کیا اور ریلوے اکاؤنٹس سروس میں شامل ہو گئے‘ ریلوے اس زمانے میں بھارت کی سب سے بڑی آرگنائزیشن تھی‘ اس کا ریونیو انڈیا کے ٹوٹل ریونیو کا اکاون فیصد ہوتا تھا‘ غلام محمد اور جگدیش مہندرا دوست تھے چناں چہ دونوں نے مل کر انڈیا کی پہلی آٹو موبائل کمپنی مہندرا اینڈ محمد بنا لی۔
یہ عرف عام میں ایم اینڈ ایم کہلاتی تھی‘ اس کا مقصد بھارت میں گاڑیاں بنانا تھا‘ 1947میں ہندوستان تقسیم ہو گیا‘ ملک غلام محمد پاکستان آ گئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کی کابینہ میں ملک کے پہلے وزیر خزانہ بن گئے۔
پاکستان میں ترقی کا پہلا پانچ سالہ منصوبہ بھی ملک غلام محمد نے بنایا تھا‘ بہرحال یہ 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد گورنر جنرل بن گئے اور باقی سب تاریخ ہے‘ ملک غلام محمد کے پاکستان آنے کے بعد جگدیش مہندرا نے اپنے بھائی کیلاش مہندرا کوساتھ شامل کر لیا اور یوں مہندرا اینڈ محمدتبدیل ہو کر مہندرا اینڈ مہندرا ہو گئی۔
یہ کمپنی اب گروپ آف کمپنیز ہے اور انڈیا کی ٹاپ کمپنیوں میں شامل ہے‘ ان کی ایم اینڈ ایم جیپ (ایس یو وی) بھارت میں بہت مشہور ہے‘ مہندرا ٹریکٹر دنیا میں سب سے زیادہ ٹریکٹر بنانے والی کمپنی ہے‘ 2024 میں اس نے 19 بلین ڈالر کا کاروبار کیا۔
اس کا ہیڈکوارٹر ممبئی میں ہے‘ آنند مہندرا اس وقت اس کے چیئرمین اور انش شاہ سی ای او ہیں‘ یہ آج بھی ملک میں لگژری ایس یو وی‘ کمرشل گاڑیاں‘ ٹریکٹر اور موٹر سائیکل بنانے والا سب سے بڑا برینڈ ہے۔
میں ستمش اور جیتو کی طرف واپس آتا ہوں‘ یہ دونوں چیئرمین آنند مہندرا کے آفس میں ٹی بوائے تھے‘ یہ چیئرمین اور اس کے مہمانوں کو چائے پیش کرتے تھے‘ دونوں صاف ستھرے اور ڈسپلنڈ تھے‘ چھٹی نہیں کرتے تھے‘ ذاتی‘ برتنوں اور ٹرے کی صفائی کا خاص خیال رکھتے تھے۔
چیئرمین اور ان کے مہمانوں کے مزاج بھی سمجھتے تھے‘ ان لوگوں کو کس وقت کیا چاہیے یہ جانتے تھے‘ آنند ان سے بہت خوش تھا‘ ایک دن اس نے چلتے چلتے ان سے پوچھ لیا ’’تمہاری تعلیم کتنی ہے؟‘‘ دونوں ایف اے پاس تھے‘ آنند مہندرا نے ان سے تعلیم جاری نہ رکھنے کی وجہ پوچھی تو دونوں کا جواب تھا ’’غربت‘‘ یہ سن کر آنند کے ذہن میں ایک عجیب آئیڈیا آیا۔
اس نے ممبئی کے بڑے بزنس اسکول کے پرنسپل کو بلایا اور اسے کہا‘ تم اور میں دونوں مل کر ایک تجربہ کرتے ہیں‘ میرے پاس دو ٹی بوائے ہیں‘ دونوں کی تعلیم واجبی ہے اور یہ پانچ ہزار روپے ماہانہ کے ملازم ہیں‘ تم ان دونوں لڑکوں کو کالج میں داخلہ دے دو‘ یہ میرٹ پر نہیں ہیں‘ یہ عام حالات میں کالج میں داخل نہیں ہو سکتے لیکن اگر تم ان کے داخلے کو پروجیکٹ ڈکلیئر کر دو تو یہ ممکن ہے‘ ہم یہ دیکھتے ہیں کیا اس تجربے سے عام سے لڑکے زندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔
پرنسپل کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی کیوں کہ مہندرا گروپ کالج کا ڈونر تھا اور آنند بورڈ آف گورنرز کا حصہ چناں چہ اس نے ہاں کر دی‘ آنند نے اگلے دن ستمش اور جیتو کو کالج بھجوا دیا‘ کمپنی نے دونوں کی تنخواہ کو لون ڈکلیئر کر دیا اور کالج نے پروجیکٹ کی وجہ سے ان کی فیس معاف کر دی۔
پرنسپل نے ان دونوں کو ایم بی اے کے 14 طالب علموں کے حوالے کر دیا‘ یہ دونوں ان 14 طالب علموں کا پروجیکٹ تھے‘ ایم بی اے میں 14مضامین اور سکلز تھیں‘ 14 اسٹوڈنٹس نے انھیں 14 مضامین اور سکلز سکھانی تھیں اور ان کے پاس دو سال کا وقت تھا۔
بہرحال قصہ مختصر یہ دونوں دو سال کالج جاتے رہے اور 14 طالب علم انھیں پڑھاتے اور سکھاتے رہے‘ میں یہاں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں یہ دونوں سرکاری اسکول سے پڑھے تھے‘ ان کی تعلیم واجبی تھی اور یہ کمپیوٹر اور انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن 14 طالب علموں نے ان پر محنت کی‘ ان دونوں نے بھی دن رات ایک کر دیا اور یوں دو سال بعد جب نتیجہ نکلا تو ٹی بوائز میں سے ایک کلاس میں نویں نمبر پر تھا اور دوسرا گیارہویں نمبر پر گویا دونوں نے اپنے پڑھانے والوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
یہ دونوں ایم بی اے کے بعد کمپنی میں واپس آئے تو آنند مہندرا نے انھیں ایچ آر میں بھجوا دیا‘ ایچ آر نے ان کا سی وی دیکھا‘ ان کی سکل چیک کی اور انھیں چھ لاکھ روپے ماہانہ پر ملازم رکھ لیا‘ اس وقت تک کمپنی کے ایک لاکھ بیس ہزار روپے ان کے ذمے تھے۔
ان دونوں نے پہلی تنخواہ پر یہ رقم کٹوائی اور یہ ٹی بوائے سے کمپنی میں بوائے بن گئے‘ یہ دو سال پہلے تک آنند مہندرا کو چائے پلاتے تھے اور یہ اب ان کے ساتھ چائے پیتے تھے‘ دو سال کے اس چھوٹے سے تجربے نے صرف دو لڑکوں کی زندگی نہیں بدلی اس نے دو خاندانوں کا مقدر بھی بدل دیا۔
یہ دونوں آج بھی مہندرا اینڈ مہندرا میں کام کرتے ہیں‘ ان کی تنخواہیں دس دس لاکھ سے زیادہ ہیں اور مراعات اس کے علاوہ ہیں‘ یہ اب خود بھی اپنے جیسے لڑکوں کو تعلیم کے لیے فنانس کرتے ہیں۔
مہندرا اینڈ مہندرا کی دیکھا دیکھی بھارت کی دوسری کمپنیوں نے بھی یہ پروجیکٹ شروع کر دیا‘ یہ بھی اپنے اداروں میں ٹیلنٹڈ لڑکوں کو لیتے ہیں‘ انھیں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل کراتے ہیں اور پھر انھیں بہتر پوزیشن پر دوبارہ ملازم رکھ لیتے ہیں‘ اس سے کمپنیوں کی گروتھ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور سیکڑوں خاندانوں کا مقدر بھی بدل رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے یہ کام ہم کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے دائیں بائیں سیکڑوں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو غربت کی وجہ سے تعلیم چھوڑ کر محنت مزدوری کر رہے ہیں‘ ہم اگر ان پر ذرا سی توجہ دے دیں تو یہ بچے کمال کر سکتے ہیں مگر شاید ہمارے پاس وقت نہیں ہے یا پھر ہم یہ کرنا نہیں چاہتے۔
مجھے چند برس قبل انگریزی زبان کے ایک صحافی نے اپنی داستان سنائی ‘ یہ میٹرک کے بعد قصائی کی دکان پر ملازم ہو گئے تھے‘ یہ روزانہ گوشت کاٹتے تھے‘ ان کی دکان پر اکثر ایک عیسائی لڑکا گوشت خریدنے آتا تھا‘ وہ کسی ایمبیسی میں ملازم تھا‘ اس کی ان کے ساتھ گپ شپ شروع ہو گئی۔
اس لڑکے نے محسوس کیا ان میں ٹیلنٹ ہے اور یہ قصائی سے بہتر کام کر سکتے ہیں‘ لڑکے کی منگیتر بھی ایمبیسی میں کام کرتی تھی‘ لڑکے نے منگیتر کو ان کے ساتھ متعارف کرا دیااور لڑکی نے انھیں انگریزی پڑھانا شروع کر دی۔
وہ ایمبیسی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی‘ وہ اپنے ساتھ انگریزی کے اخبارات اور رسائل لے آتی تھی‘ ان کے مختلف فقرے اور الفاظ انڈر لائین کر دیتی تھی اور یہ سارا دن گوشت کاٹتے ہوئے یہ الفاظ اور فقرے دہراتے رہتے تھے‘ یہ چھٹی کے بعد انھیں لکھتے بھی رہتے تھے۔
اس زمانے میں ٹائپ رائیٹر ہوتا تھا‘ لڑکی کے زور دینے پر انھوں نے شام کے وقت ٹائپنگ کلاس میں داخلہ لے لیا اور سیکھنا شروع کر دی‘ اس نے بھی ان کی گروتھ میں اہم کردار ادا کیا‘ ان دنوں اسلام آباد میں مسلم اخبار نکلا۔
اسے انگریزی میں ٹائپ کرنے والے چاہیے تھے‘ لڑکی نے سفارش کی اور مسلم اخبار نے انھیں بطور ٹائپسٹ بھرتی کر لیا‘ یہ اب قصائی سے اپنے وقت کے مشہور اخبار میں ٹائپسٹ بن گئے‘ انھیں محنت کرنے کی عادت ہو چکی تھی اور اخبار میں اس زمانے میں مشاہد حسین سید جیسے لوگ موجود تھے‘ یہ ان سے سیکھنے لگے۔
یہ اب صرف ٹائپنگ نہیں کرتے تھے بلکہ ڈائریاں بھی لکھتے تھے اور رپورٹرز کے کہنے پر ان کے نوٹس دیکھ کر خبر بھی بنا دیتے تھے‘ سال بعد رپورٹنگ سیکشن میں جونیئر رپورٹر کی پوسٹ خالی ہوئی‘ اخبار کے پاس زیادہ بجٹ نہیں تھا۔
انھیں پتا چلا تو یہ ایڈیٹر کے پاس چلے گئے‘ ایڈیٹر نے ایک شرط رکھ دی‘ ہم تمہیں تنخواہ ٹائپسٹ ہی کی دیں گے‘ انھوں نے یہ آفر قبول کر لی اور یوں آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے‘ ان کی اس گروتھ سے قبل وہ دونوں میاں بیوی ملک سے باہر چلے گئے تھے لیکن وہ اپنے پیچھے ایک خوب صورت اور پھل دار درخت لگا گئے تھے۔
آپ اب دوسری کہانی بھی سنیے‘ ڈاکٹر غلام جیلانی برق ملک کے مشہور دانشور اور پروفیسر تھے‘ مجھے ان کی کہانی ان کے ایک پرانے ساتھی سے سننے کا اتفاق ہوا‘ یہ کہانی کسی کتاب میں نہیں لکھی تھی‘ ان کے بقول پروفیسر صاحب نے انھیں یہ خود سنائی تھی۔
ان کے بقول غلام جیلانی صاحب بچپن میں صرف محمد غلام تھے اور یہ پہاڑی علاقے میں بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے‘ تعلیم کا ان کی زندگی میں دور دور تک کوئی عمل دخل نہیں تھا لیکن پھر ایک دن کوئی بزرگ آئے‘ یہ اس وقت ویرانے میں بکریاں چرا رہے تھے۔
بزرگ نے انھیں درخت کے نیچے بٹھایا‘ درخت کی ٹہنی لی‘ زمین پر الف لکھا اور منہ سے الف کی آواز نکال کر کہا‘ بیٹا اسے الف کہتے ہیں‘ پھر ب لکھا اور بتایا اسے ب کہتے ہیں‘ پروفیسر صاحب کے بقول وہ بزرگ کئی دنوں تک آتے رہے اور مجھے حروف تہجی سکھاتے رہے‘ میں جب زمین پر حرف بنانا سیکھ گیا تو وہ واپس نہیں آئے لیکن میرے کچے دودھ کو جاگ لگ چکی تھی اور یوں میں زمین پر خشک ٹہنیوں سے حرف بناتے بناتے یہاں تک پہنچ گیا۔
آپ یقین کریں ہمارے دائیں بائیں ایسے ہزاروں پروفیسر غلام جیلانی برق‘ جیتو اور ستمش جیسے لوگ موجود ہیں‘ انھیں صرف ہماری ایک نظر چاہیے جس دن یہ نظر پڑ جائے گی اس دن یہ بھی بدل جائیں گے اور ہم بھی‘ آپ یہ بھی یاد رکھیں انسان بیج ہوتے ہیں‘ انھیں اگر اچھی زمین اور پانی مل جائے تو یہ کمال کر دیتے ہیں‘ یقین نہ آئے تو تجربہ کر کے دیکھ لیں۔