پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT
پاکستان اور سعودی عرب نے مشترکہ دفاعی معاہدہ پر دستخط کر دیے ہیں۔ جس کے بعد ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر حملہ تصور ہوگا۔ اس معاہدہ پر دستخط کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف ایک اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ ریاض گئے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہوئی اور پھر معاہدہ پر دستخط کی تقریب ہوئی۔
پاکستان و سعودی عرب کے درمیان آٹھ دہائیوں پر محیط برادرانہ، اسٹریٹجک اور دفاعی تعلقات کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ اس معاہدہ کو ''اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے'' (SMDA) کہا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت کسی بھی ملک کے خلاف جارحیت کو دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا اور مشترکہ دفاع کو مضبوط بنایا جائے گا۔وزیر اعظم پاکستان کی سعودی عرب آمد پر انھیں سعودی جنگی جہازوں نے سلامی دی ۔جو اپنی جگہ اہم ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اس باہمی دفاعی معاہدہ نے عالمی منظر نامہ کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس معاہدہ پر دستخط کے بعد ایک اعلیٰ سعودی عہدیدار نے بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدہ کو کسی خاص واقعہ کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملہ کے بعد عرب دنیا میں عدم تحفظ کا احساس مضبوط ہو گیا تھا۔ عرب دنیا میں یہ سوچ مضبوط ہو گئی تھی کہ اسرائیل کے خلاف شاید امریکا ان کا دفاع نہیں کر سکتا اور اسرائیل کے سوا انھیں فی الحال کسی سے خطرہ نہیں ہے۔ اس لیے عرب دنیا کو اپنے دفاع کے کمزور ہونے کا احساس پیدا ہوگیا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا باہمی دفاع کا معاہدہ کوئی اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے نیٹو ممالک کے درمیان بھی یہی معاہدہ ہے۔ ایک نیٹو ملک پر حملہ تمام نیٹو ممالک پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ شمالی کوریا اور روس کے درمیان بھی ایسا معاہدہ ہے، اور بھی ممالک نے اپنے دوست ممالک کے ساتھ ایسے مشترکہ دفاعی معاہدے کیے ہوئے ہیں۔ یہ معاہدے دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کے مظہر ہوتے ہیں۔ اس لیے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یہ معاہدہ اب دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جائے گا۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ ہم سعودی عرب کا ہر قسم کی جارحیت سے دفاع کرنے کے اب پابند ہیں۔ یہ صرف اسرائیل کے لیے نہیں ہے۔ اگر یمن کے حوثی بھی اسرائیل پر حملہ کرتے ہیں جیسے انھوں نے ماضی میں میزائیل داغے بھی ہیں۔ تو ہم تب بھی سعودی عرب کے دفاع کے پابند ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب بھی بھارت کے خلاف ہمارے دفاع کا پابند ہوگیا ہے۔ اگر بھارت ہم پر حملہ کرے گا تو یقیناً وہ سعودی عرب پر حملہ تصور ہوگا۔ یقیناً یہ بھارت کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تو کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کوئی معاشی تعلقات بھی موجود نہیں ہیں۔ لیکن سعودی عرب اور بھارت کے درمیان کافی معاشی تعلقات موجود ہیں۔ بھارت کے لیے یہ خطرناک ہوگا کہ اب پاکستان سے اس کی لڑائی سعودی عرب سے بھی لڑائی تصور ہوگی۔
ایک رائے یہ ہے کہ اب سعودی عرب کے دفاع میں پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت بھی استعمال کر سکتا ہے۔ سعودی عرب کے دفاع میں پاکستان اپنی میزائیل ٹیکنالوجی بھی استعمال کر سکتا ہے۔ سعودی عرب کے دفاع کے لیے ہم اپنے میزائیل سعودی عرب میں لگا سکتے ہیں، یہ زیادہ خطرناک صورتحال ہے۔ اسرائیل کو پہلے یہ خطرہ تھا کہ ہمارے میزائل اسرائیل پہنچ سکتے ہیں۔ اس نے امریکا کو کئی بار شکایت لگائی ہے کہ ہم بڑی رینج کے میزائل بنا رہے ہیں جو بھارت کی بجائے اسے بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ لیکن اب تو ہم یہ میزائل سعودی عرب میں بھی لگا سکتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ خطہ کی صورتحال بھی دلچسپ ہو گئی ہے۔ بھارت اوراسرائیل کے درمیان پہلے ہی دفاعی تعلقات موجود ہیں۔ اسرائیل بھارت کو دفاعی ٹیکنالوجی دیتا ہے لیکن بھارت اور اسرائیل کے درمیان کوئی باہمی دفاعی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ لیکن حالیہ پاک بھارت جنگ میں ہم نے اسرائیل کی ٹیکنالوجی کا پاکستان کے خلاف استعمال دیکھا ہے۔اسرائیلی ڈرون پاکستان پر آئے تھے۔ لیکن اب اسرائیل کے لیے زیادہ پریشان کن صورتحال ہے کیونکہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ ہو گیا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ کیا دیگر عرب ممالک بھی پاکستان کے ساتھ ایسے معاہدے کریں گے۔ کیا متحدہ عرب امارات بھی ایسا معاہدہ کرے گا۔ کیا قطر، بحرین اور دیگر عرب دنیا بھی پاکستان کے ساتھ ایسے معاہدے کرے گی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ عرب دنیا نے مل کر پاکستان کے ساتھ ایسا معاہدہ کیوں نہیں کیا۔ ایسا معاہدہ عرب اجلاس کے موقع پر بھی ہو سکتا تھا۔ویسے تو سعودی عرب عرب دنیا کا لیڈر ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ عرب دنیا سعودی عرب کے پیچھے چلتی ہے۔ اس لیے پاکستان اور عرب دنیا کے درمیان دفاعی تعاون کے نئے راستے کھلیں گے۔ میں یہ نہیں سمجھتا کہ پاکستان ایسے معاہدے اور عرب دنیا کے ساتھ کرے گا۔ مشترکہ دفاع کا معاہدہ صرف سعودی عرب کے ساتھ ہی ہوگا۔ لیکن دیگر عرب دنیا کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھے گا جو اپنی جگہ بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ سعودی عرب ترکیہ کے ساتھ بھی یہ معاہدہ کر سکتا تھا۔ وہ روس چین کے ساتھ بھی یہ معاہدہ کر سکتا تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں ترکیہ اور سعودی عرب کے درمیان اعتماد کا وہ رشتہ نہیں ہے جو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہے۔ترکیہ نے اسرائیل کو تسلیم بھی کیا ہے جب کہ پاکستان اور سعودی عرب دونوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہوا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کا دفاعی تعاون پہلے ہی امریکا کے ساتھ موجود ہے۔ وہ امریکا اور روس کے درمیان جاری کسی تناؤ کا حصہ نہیں بننا چاہتا ہوگا۔ اسی طرح کہا جا رہا ہے کہ آگے چین اور امریکا کے درمیان بھی تنازعات ہوں گے۔ چین اگلی سپر طاقت ہے۔
اس لیے سعودی عرب چین اور امریکا کے درمیان کسی لڑائی کا حصہ بھی نہیں بننا چاہتا ہوگا۔ سعودی عرب ایک ایسے دفاعی پارٹنر کی تلاش میں تھا جس کے ساتھ معاہدے سے عالمی طاقتوں کے درمیان تنازعے کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ وہ ایک غیر جانبدار دفاعی پارٹنر کی تلاش میں تھا جو پاکستان سے بہتر میسر نہیں تھا۔ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے بہت خوش آئند ہے۔ پاکستان پہلے ہی سعودی سرمایہ کاری کا خواہاں ہے۔
پاکستان سعودی سرمایہ کاری کے لیے پہلے ہی کوشش کر رہا تھا۔ اب اس کے راستے بھی کھل گئے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ تعاون صرف دفاع تک محدود رہے گا۔ تعان بڑھے گا تو سب شعبوں میں بڑھے گا۔ اس لیے یہ معاہدہ پاکستان کے لیے خوشحالی کی نوید بھی لائے گا۔ مسلم دنیا کی سیاست بھی بدل گئی ہے۔ پاکستان کی مسلم دنیا میں پہلے ہی بہت اہمیت تھی۔ اب تو پاکستان اور سعودی عرب اکٹھے نظر آئیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ اسرائیل کے درمیان سعودی عرب کے دفاع معاہدہ پر دستخط اور اسرائیل کے پر حملہ تصور مشترکہ دفاع ایسا معاہدہ پاکستان کے باہمی دفاع اس معاہدہ یہ معاہدہ بھارت کے سکتے ہیں عرب دنیا ممالک کے پہلے ہی نہیں ہے کر سکتا کے ساتھ کے خلاف کے لیے اس لیے
پڑھیں:
کینیڈا اور فلپائن کا دفاعی معاہدہ، چین کو روکنے کی نئی حکمتِ عملی
فلپائن اور کینیڈا نے اتوار کو ایک اہم دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد مشترکہ فوجی مشقوں کو فروغ دینا اور چین کی بڑھتی ہوئی جارحانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔
فلپائنی وزارتِ دفاع کے مطابق وزیرِ دفاع گِلبرٹو تیودورو اور ان کے کینیڈین ہم منصب ڈیوڈ مک گنٹی اتوار کو منیلا میں ’اسٹیٹس آف وزٹنگ فورسز ایگریمنٹ‘ دستخط کریں گے۔
LOOK: Defense Secretary Gilberto Teodoro Jr. and Canadian National Defence Minister David McGuinty held a bilateral meeting in Makati City ahead of the signing of the Status of Visiting Forces Agreement (SOVFA) between the Philippines and Canada. | Patrick de Jesus pic.twitter.com/kUrbPAJSk6
— PTVph (@PTVph) November 2, 2025
معاہدے کی توثیق کے بعد دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کے علاقوں میں بڑی سطح کی مشترکہ مشقیں اور دفاعی تعاون جاری رکھ سکیں گی۔
یہ معاہدہ فلپائن کے صدر فریڈینینڈ مارکوس جونیئر کی اس پالیسی کا تسلسل ہے جس کے تحت وہ اپنے ملک کی کمزور دفاعی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے لیے مغربی ممالک سے عسکری تعلقات بڑھا رہے ہیں۔
اس سے قبل فلپائن نے امریکا (1998) اور آسٹریلیا (2007) کے ساتھ اسی نوعیت کے دفاعی معاہدے کیے تھے، جب کہ حالیہ برسوں میں جاپان اور نیوزی لینڈ کے ساتھ بھی ایسے معاہدے طے پا چکے ہیں۔
کینیڈا اور دیگر مغربی ممالک انڈو پیسیفک خطے میں اپنی موجودگی بڑھا رہے ہیں تاکہ قانون کی بالادستی، آزاد تجارت اور علاقائی امن کو فروغ دیا جا سکے۔ اس اقدام کو چین کی سمندری جارحیت کے مقابل ایک اجتماعی دفاعی حکمتِ عملی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:فلپائن میں 6.9 شدت کا زلزلہ، 70 سے زائد افراد ہلاک، سینکڑوں زخمی
چین نے اس پیشرفت پر کوئی فوری ردِعمل ظاہر نہیں کیا، تاہم ماضی میں بیجنگ نے فلپائن کو خطے کا فساد پیدا کرنے والا ملک قرار دیا تھا۔
چین بحیرہ جنوبی چین کے تقریباً تمام حصے پر دعویٰ کرتا ہے، حالانکہ اقوامِ متحدہ کے قانونِ سمندر کے مطابق 2016 میں بین الاقوامی ثالثی عدالت نے چین کے ان دعوؤں کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
فلپائن کے وزیرِ دفاع نے ہفتہ کو ملیشیا میں منعقدہ آسیان دفاعی وزرائے اجلاس میں چین کے اس اعلان پر شدید تنقید کی جس میں بیجنگ نے متنازع ’سکاربرو شوَل‘ میں قدرتی ذخائر کے نام پر ’نیچر ریزرو‘ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
Geography dictates that Batanes province in the Philippines is on the front line of the great power competition between the United States and China for dominance in the Asia-Pacific region. https://t.co/Q8s4dHnjpT
— The Japan Times (@japantimes) November 2, 2025
تیودورو کے مطابق یہ دراصل طاقت کے مظاہرے کے ذریعے چھوٹے ممالک کے حقوق سلب کرنے کی ایک چال ہے۔
کینیڈا نے بھی چین کے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماحولیاتی تحفظ کو سمندری قبضے کے بہانے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
یاد رہے کہ 2023 میں کینیڈا اور فلپائن نے ایک اور دفاعی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت فلپائن کو کینیڈا کے ’ڈارک ویسل ڈیٹیکشن سسٹم‘ تک رسائی دی گئی، یہ ایک جدید سیٹلائٹ ٹیکنالوجی ہے جو غیرقانونی یا “خاموش” بحری جہازوں کو ٹریک کر سکتی ہے۔
فلپائنی کوسٹ گارڈ اس نظام کی مدد سے چینی بحری جہازوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھ رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بحیرہ جنوبی چین چین دفاعی معاہدہ فلپائن کینیڈا معاہدہ کینیڈا