ملکی تاریخ میں اتنے سیاسی قیدی کبھی نہیں تھے جتنے آج ہیں، شبلی فراز
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
اسلام آباد:
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا ہے کہ
سینیٹ اجلاس میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سے انتخابی نشان چھینا گیا، فارم 47 کے ذریعے کٹھ پتلی حکومت مسلط کی گئی، آج چودہ جنوری ملکی پارلیمنٹ کی تاریخ کا سیاہ دن ہے، میں چیلنج کرتا ہوں کہ اگر کسی اور سیاسی جماعت کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ نظر بھی نہ آتی، مینڈیٹ دراصل پاکستان تحریک انصاف سے نہیں بلکہ پاکستان کے عوام سے چھینا گیا۔
شبلی فراز نے کہا کہ القادر یونیورسٹی بنانے کا اصل مقصد سیرت نبوی ﷺپر تعلیم دیناہے مگر بانی پی ٹی آئی پر کیس بنایا گیا، نواز شریف کے بیٹے حسن نواز نے ایک پراپرٹی پراپرٹی ٹائیکون کو فروخت کی، کابینہ میں بتایا گیا کہ برطانوی کرائم ایجنسی نے کہا ہے اس ڈیل کو سب کے سامنے نہیں لانا مگر آپ نے یہ ظاہر کیا کہ جو بھی ملک میں اچھا کام کرے گا اس کی خیر نہیں۔
انہوں نے کہا کہ شوکت خانم اسپتال کی فنڈریزنگ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں، 190 ملین پاؤنڈ کیس میں زیر بحث رقم قومی خزانے میں واپس آگئی۔
شبلی فراز نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو ہائیکورٹ کی عمارت سے گرفتار کیا گیا، یہ ہمیشہ نیا چورن بیچتے ہیں، کبھی کہتے ہیں اڑان پاکستان، کبھی کہتے ہیں پاکستان کو ٹائیگر بنائیں گے مگر یہاں تو پاکستان گیدڑ بھی نہیں رہا، پاکستان کی تاریخ میں اتنے سیاسی قیدی نہیں تھے جتنے آج ہیں، مارشل لاء کے دور میں بھی اتنے سیاسی قیدی نہیں تھے، پیپلزپارٹی بھی سمجھوتہ کرکے حکومت میں آگئی۔
انہوں نے کہا کہ چئیرمین سینیٹ کا حکم کے باوجود سینیٹر اعجاز چوہدری کو ایوان میں نہیں لایا گیا، پنجاب حکومت نہیں چاہتی اعجاز چوہدری کو یہاں آنے دیا جائے، پنجاب حکومت کی ہمت نہیں کہ ہم ایوان بالا کی بے توقیری کرے یہ پورے ایوان کی بے توقیری ہے ہم اس معاملے پر احتجاج کریں گے۔
بعدازاں پی ٹی آئی کے سینیٹرز نے اعجاز چوہدری کی تصاویر اٹھا کر سینیٹ میں احتجاج کیا اور چئیرمین سینیٹ کے ڈائس کے سامنے جمع ہو کر نعرے بازی کی۔
دوسری جانب پاکستان کو گیدڑ کہنے پر احسن اقبال اور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اعظم نذیر نے کہا کہ یہ غلط بات کر رہے ہیں، گیدڑ کا لفظ حذف کیا جائے، ایسا نہیں سکتا کہ یہ پاکستان کو گیدڑ کہیں اور ہم خاموش رہیں۔
اسی طرح احسن اقبال نے بھی شدید برہمی کا اظہار کیا اور شبلی فراز اور پی ٹی آئی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ بعدازاں چئیرمین سینیٹ نے حکومتی ارکان کو خاموش کروادیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شبلی فراز نے کہا کہ
پڑھیں:
ملکی تاریخ میں پہلی بار ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان
اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے اعلان کیا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ “فری انرجی مارکیٹ پالیسی” آئندہ دو ماہ میں حتمی نفاذ کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی، جس کے بعد حکومت کی جانب سے بجلی کی خریداری کا عمل مستقل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔
یہ بات انہوں نے عالمی بینک کے اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کے دوران کہی، جس کی قیادت عالمی بینک کے ریجنل نائب صدر برائے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان و پاکستان، جناب عثمان ڈیون (Ousmane Dione) کر رہے تھے۔
وزیر توانائی نے بتایا کہ نئے ماڈل CTBCM (Competitive Trading Bilateral Contract Market) کے تحت ملک میں بجلی کی آزادانہ تجارت ممکن ہو سکے گی، جس میں “وِیلنگ چارجز” اور دیگر ضروری میکانزم شامل کیے جا رہے ہیں۔ اس نظام کے تحت حکومت کا کردار صرف ریگولیٹری فریم ورک تک محدود کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس منتقلی کا عمل بتدریج اور جامع حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا تاکہ بجلی کے نظام میں استحکام برقرار رکھا جا سکے۔
ملاقات کے دوران سردار اویس لغاری نے عالمی بینک کے وفد کو حکومت کی جاری توانائی اصلاحات، نیٹ میٹرنگ پالیسی، نجکاری اقدامات، ریگولیٹری بہتری اور سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کیا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی پالیسی کا جھکاؤ واضح طور پر نجی شعبے کے فروغ اور شفافیت کی جانب ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار اس تبدیلی میں بھرپور کردار ادا کریں۔
عالمی بینک کے نائب صدر عثمان ڈیون نے پاکستان کے توانائی شعبے میں جاری اصلاحات کو قابلِ تحسین قرار دیا اور کہا کہ توانائی کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کی بنیاد ہے، اسی لیے عالمی بینک اس شعبے میں پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری جاری رکھے گا۔
انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عالمی بینک پاکستان کے لیے ایک پائیدار، قابل اعتماد اور سرمایہ کاری کے لیے موزوں توانائی نظام کی تشکیل میں بھرپور تعاون فراہم کرے گا۔
آخر میں وفاقی وزیر نے عالمی بینک کے وفد کو توانائی اصلاحات پر مبنی جامع کتابچہ بھی پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ موجودہ شراکت داری مستقبل میں مزید مستحکم ہو گی۔
صارفین کے لیے “فری انرجی مارکیٹ” کے ممکنہ فوائد:
صارفین کو مختلف بجلی فراہم کنندگان میں سے مسابقتی نرخوں پر بجلی خریدنے کی آزادی ہوگی۔
مارکیٹ میں مسابقت بڑھنے سے بجلی کی قیمتوں میں کمی آنے کا امکان ہے۔
نجی کمپنیاں بہتر سروس فراہم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گی، جس سے کسٹمر سروس، بلنگ کا نظام اور شکایات کے ازالے میں بہتری آئے گی۔
صنعتیں اپنی ضروریات اور استعمال کے مطابق سستا اور مستحکم توانائی معاہدہ کر سکیں گی، جو برآمدات اور پیداواری لاگت پر مثبت اثر ڈالے گا۔
صارفین سولر، ونڈ یا دیگر گرین انرجی ذرائع سے بجلی خریدنے کے آپشنز کو ترجیح دے سکیں گے، جس سے ماحول دوست توانائی کو فروغ ملے گا۔
جن گھریلو یا صنعتی صارفین کے پاس سولر پینل نصب ہوں گے، وہ بجلی فروخت بھی کر سکیں گے، جس سے آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔
جب حکومت بجلی خریدنا بند کرے گی، تو اس پر موجود گردشی قرضوں (circular debt) کا دباؤ کم ہوگا، جس کا بالآخر فائدہ صارفین کو مستحکم نظام کی صورت میں ملے گا۔