دلہن بیت الخلا گئی اور شادی کے تمام زیور و نقدی لے اُڑی
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
لکھنؤ:بھارت کی ریاست اترپردیش میں شادی کی تقریب کے دوران ایک انوکھا واقعہ پیش آیا، جہاں دلہن بیت الخلا جانے کا بہانہ بنا کر زیورات اور نقدی سمیت غائب ہوگئی۔
یہ واقعہ ضلع بھرویہ کے شیو مندر میں پیش آیا، جہاں 40 سالہ کسان کملیش کمار اپنی دوسری شادی کے بندھن میں بندھنے جا رہے تھے۔
کملیش کے مطابق دلہن اپنی ماں کے ساتھ شادی میں شریک ہوئی تھی اور وہ پہلے ہی اسے ساڑھیاں زیورات، اور دیگر تحائف دے چکا تھا۔ شادی کی رسموں کے دوران دلہن نے بیت الخلا جانے کا عذر پیش کیا اور اس کے بعد وہ واپس نہ لوٹی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دلہن کی ماں بھی موقع سے فرار ہوگئی۔
واقعے کے بعد کملیش نے صحافیوں سے گفتگو میں شادی میں لُٹ جانے کا احوال بتایا، تاہم پولیس کو کسی قسم کی شکایت درج نہیں کرائی گئی۔
کملیش کا کہنا ہے کہ وہ شادی کے تمام اخراجات برداشت کر رہا تھا لیکن دلہن اور اس کی ماں نے اسے دھوکا دے کر تمام زیورات اور نقدی لوٹ لی۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
کم عمری کی شادی حاملہ خواتین میں موت کا بڑا سبب قرار
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ کم عمری کی شادی حاملہ خواتین میں موت کا بڑا سبب ہے لہذا لڑکیوں کو سکول بھیج کر اور نوعمری کی شادی کا خاتمہ کر کے حاملہ خواتین کی اموات کو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے۔
قبل از وقت حمل کے سنگین جسمانی و نفسیاتی اثرات
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) میں جنسی و تولیدی صحت و تحقیق کے شعبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پاسکل ایلوٹے نے کہا ہے کہ کم عمر لڑکیوں پر قبل از وقت حمل کے سنگین جسمانی و نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
یہ عام طور پر بنیادی عدم مساوات کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جو لڑکیوں کے خاندانی و سماجی تعلقات اور زندگیوں کی تشکیل پر اثرانداز ہوتی ہے۔
مثبت پیشرفت
جرمن میڈیا پر جاری رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادیوں میں کمی لانے کے حوالے سے دنیا بھر میں مثبت پیشرفت بھی ہوئی ہے۔ 2021 میں ہر 25 میں سے ایک لڑکی نے 20 سال کی عمر سے پہلے بچے کو جنم دیا جبکہ 2001 میں یہ شرح 15 تھی۔
تاہم اب بھی اس حوالے سے بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے اور بعض ممالک میں ہر 10 میں سے ایک لڑکی 15 تا 19 سال کی عمر میں بچوں کو جنم دے رہی ہے۔
ہر سال2 کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں حاملہ ہوجاتی ہیں
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم اور متوسط درجے کی آمدن والے ممالک میں ہر سال2 کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ بالغ لڑکیاں حاملہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں 90 فیصد بچوں کی پیدائش ایسی خواتین کے ہاں ہوتی ہے جن کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہے۔
بچپن سے محرومی
ڈبلیو ایچ او میں بالغان کی جنسی و تولیدی صحت کی سائنس دان ڈاکٹر شیری بیسٹین نے کہا ہے کہ نوعمری کی شادی سے لڑکیاں اپنے بچپن سے محروم ہو جاتی ہیں اور یہ شادی ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
جبکہ نوعمری کے حمل سے سنگین طبی خطرات وابستہ ہوتے ہیں ان میں انفیکشنز، طبی پیچیدگیوں اور قبل از وقت پیدائش کی بھاری شرح بھی شامل ہے۔
نوجوان مائیں غربت میں پھنس جاتی ہیں
ان کا کہنا ہے کہ اس سے لڑکیوں کی تعلیم بھی متاثر ہوتی ہے اور ان کے لیے نوکریوں کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں بہت سی نوجوان مائیں غربت میں پھنس جاتی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ نوعمری کا حمل 15 تا 19 سال کی عمر کی لڑکیوں کی اموات کا سب سے بڑا سبب ہے اور لڑکیوں کو سکول بھیج کر اور نوعمری کی شادی کا خاتمہ کر کے ان اموات کو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے۔
نوعمری کی شادیوں میں کمی کا فارمولہ
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کا کہنا ہے کہ اگر تمام لڑکیوں کو ثانوی درجے تک تعلیم میسر آئے تو نوعمری کی شادیوں میں دو تہائی کمی لائی جا سکتی ہے۔
یونیسیف کے مطابق لڑکیوں کے بہتر مستقبل کے لیے تعلیم کی خاص اہمیت ہے۔ اس کے علاوہ، لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو باہمی رضامندی کی بنیاد پر تعلقات کے تصور کو سمجھنا اور صنفی عدم مساوات پر قابو پانے کے لیے کام کرنا ہوگا جو دنیا کے بہت سے علاقوں میں بڑے پیمانے پر نوعمری کی شادی اور قبل از وقت حمل کا بڑا سبب ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں