Express News:
2025-07-24@22:15:28 GMT

سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز

اشاعت کی تاریخ: 9th, June 2025 GMT

جنگل کی طرح ’سماجی غول‘ بنانا

رضوان طاہر مبین

ایک ’غول‘ ضروری ہے، جی ہاں بہت ضروری ہے صاحب۔۔۔!

ہمارے آج کے سماج کی ایک تلخ حقیقت ایسی ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کے کچھ نہ کچھ ’ہم نوا‘ ہونا بہت ضروری ہیں، ورنہ آپ بُری طرح تنہا کردیے جاتے ہیں، جیسے کسی جنگل میں اکیلے جانور کو درندے بھنبھوڑ دیتے ہیں، اس لیے وہ گروہ کی شکل میں رہتے ہیں، بالکل ایسے ہی گروہ کے بغیر اس سماج کے ’طاقت وَر‘ آپ کو بھی بھنبھوڑ ڈالیں گے اور کچھ نہیں تو کسی موضوع پر اختلاف رائے یا اپنی آزادانہ رائے رکھنے کی پاداش میں یہی نام نہاد پڑھے لکھے اور ’’دانش وَر‘‘ آپ کو کچا نہ بھی چبا ڈالیں، تو پکا پکا کر ضرور نگل جائیں گے!

اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ ’غول‘ کیسا ہو۔۔۔؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چوں کہ آپ اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں یا یوں کہیے کہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے اِسے آپ پیار سے یا مصلحت سے ’غول‘ کبھی نہیں کہیں گے، بلکہ ’ہم خیال‘ کہیں گے، ہم پیالہ بتائیں گے یا پھر کوئی ’لابی‘ کہلائیں گے۔

اب یہ ’لابی‘ کام کیا کرتی ہے۔۔۔؟

یہ بڑا دل چسپ سوال ہے، جناب، یہی تو پھر سارے کام کرتی ہے، اور بعضے وقت جب یہ کام کرتی ہے، تو کبھی کبھی تو آپ کو کچھ کرنے کی ہی ضرورت نہیں رہتی، سمجھ رہے ہیں ناں۔۔۔

اور اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی کوئی آپ پر ٹیڑھی نگاہ سے دیکھے، کسی بھی جگہ کوئی کٹھنائی ہو، زندگی میں خدانخواستہ کوئی اچھا یا برا، صحیح یا غلط، آڑھا یا ترچھا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو، آپ کا یہ ’غول‘ اس نظریے کے تحت آپ کے ’دفاع‘ کے لیے سینہ سپر ہو جائے گا کہ ’’صحیح ہے یا غلط ہے، یہ اہم نہیں، آدمی ہمارا ہے بس یہی اہم ہے۔۔۔!!‘‘

اپنی ’لابی‘ بنانے کے لیے آپ کو کرنا کیا ہوگا۔۔۔؟

’غول‘ بنانے کے لیے سب سے پہلے ’اتحاد‘ بہت ضروری ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اتحاد میں کتنی ’’برکت‘‘ ہوتی ہے، یہی برکت آپ کو یہاں اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ آپ کو اس ’اتحاد‘ کے واسطے اپنی ’لابی‘ کی ہاں میں ہاں اور نہ میں نہ ملانا ہوگا۔ چاہے سورج آپ کے سر پر آگ برسا رہا ہو، لیکن اگر آپ کے ’جَتھے‘ نے یہ طے کیا ہے کہ اس وقت تاریک آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور جھینگر جھنگار رہا ہے، تو آپ کو بہر صورت یہی راگ الاپنا ہوگا کہ چاند کتنا روشن ہے اور اس وقت جھینگر کی آوازوں کے کیا زیر و بم ہیں۔

اس کے ساتھ ہی حسب ضرورت ’واہ واہ‘ کے ڈونگرے اور مخالفانہ دلائل پر منطقی و غیر منطقی ہر دو طرح کے بھرپور تمسخرانہ انداز سے بھی گریز نہیں کرنا ہوگا، الغرض یہ جان لیجیے کہ آپ کے گروہ کے ’مائی باپوں‘ نے جو کہہ دیا وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا، یہ بات کبھی فراموش نہیں کیجیے گا۔۔۔! اور آپ کی اپنی رائے/ نقطہ نظر/ اختلاف اور آپ کے اپنے ذاتی یا آزادانہ موقف ٹائپ کی کسی چیز کی اب کوئی گنجائش نہیں ہوگی، سچ صرف اور صرف وہی ہوگا جو آپ کے اِس ’’غول‘‘ نے کہہ دیا ہے، بات وہی اونچی ہوگی جو آپ کے ’’لَمڈوں‘‘ نے نعرۂ مستانہ بنا کر بلند کردی ہے۔۔۔ کوئی سچ کی تلاش نہیں ہوگی، عقل وغیرہ جیسی کسی چیز کا کوئی استعمال نہیں ہوگا۔

بعد میں یہ ساری ’خرمستی‘ آپ کو بھی یہ ’سہولت‘ فراہم کرے گی کہ آپ رات بے رات اور وقت بے وقت کچھ فرمائش بھی کر سکتے ہیں۔۔۔ آپ کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے سے لے کر آپ کی روزی روٹی، دکھ بیماری، کاروبار ملازمت، ترقی اور ہمہ قسم کے مفادات سے لے کر سماج کے بدمعاشوں اور ’غیر بدمعاشوں‘ کے سارے کے سارے مسائل اور وسائل اب آپ کی فکر بالکل بھی نہیں ہوگی، بلکہ جیسے آپ نے ہر بار ان کی ’ہاہاکار‘ میں حصہ ڈالا ہوگا، ایسے ہی صحیح یا غلط سے قطعی طور پر بے پروا ہو کر یہ بھی آپ کے وقت پڑنے پر جائز وناجائز ہر ’پھڈے‘ میں آپ کی پشت پر بلکہ آپ سے بھی آگے صف اول میں کھڑے ہوں گے اور آپ کو غول پسند معاشرے میں وہ سکون فراہم کریں گے کہ بس آپ سوچ ہی سکتے ہیں!

اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ گروہ یا ’لابی‘ کیسی ہو۔۔۔؟ یا یہ غول بنائے کیوں کر بنائے جا سکتے ہیں۔۔۔؟

اس کے لیے بے آپ اپنی ذاتی وخاندانی مماثلتیں ’کام میں‘ لے سکتے ہیں، جیسے:

آپ کون سی زبان بولتے ہیں۔۔۔؟

کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟

ملک کے کس صوبے کے رکھوالے اور کس علاقے کے نام لیوا ہیں۔۔۔؟

آپ کس نسل، ذات اور برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟

اتفاق سے آپ کے شجرے میں کوئی خاص عنصر یا شخصیت موجود ہے؟ تو آپ (موقعے کے لحاظ سے) اس کا عَلم بھی بلند کر سکتے ہیں۔

یہی نہیں آپ کا مذہب اور آپ کے مسلک اور عقیدے کے ساتھ ساتھ ’غول‘ بننے کی یہ سہولت بہت سی سیاسی، مذہبی اور تفرقہ باز جماعتیں بھی بہت خوبی سے فراہم کرتی ہیں، اب تو اس کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری ’غیر سرکاری تنظیمیں‘ بھی دل وجان سے آپ کے لیے ’حاضر‘ ہیں، اور اس کام کے باقاعدہ ’معاوضے‘ سالانہ انعامات اور بین الاقوامی اکرامات کی صورت میں آپ کو ہاتھ کے ہاتھ مطمئن بھی کرتی رہتی ہیں۔ اب یہ صرف آپ پر منحصر ہے کہ آپ ’قدرت‘ کی دی گئی ان مماثلتوں اور صلاحیتوں سے کس قدر فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔۔۔!

کیوں کہ فی زمانہ یہ ساری خاصیتیں بڑی کارآمد اور کارگر ہیں، یہی نہیں ’غول‘ بنانے کے لیے آپ کے پیشے کا بھی کافی اہم کردار ہوتا ہے، آپ کیا کام کرتے ہیں۔۔۔؟ اور کام میں بھی کیسا اور ’’کس طرح‘‘ کے کام زیادہ فرماتے ہیں۔۔۔؟ اس مناسبت سے بھی آپ کسی نہ کسی سے گٹھ جوڑ کر سکتے ہیں۔ اب ہم آپ کو کیا کیا کھل کر بتائیں کہ اگر آپ تاجر، شاعر، ادیب، صحافی، مصنف، ڈاکٹر، نرس، وکیل، استاد، بیوروکریٹ، بِلڈر، پراپرٹی ڈیلر ہیں، تو آپ بھی بہ آسانی اس سماج کے ’نائیوں‘، ’موچیوں‘ سے لے کر ’نان بائیوں‘ کی طرح ’’مشترکہ مفادات‘‘ کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ انجمن تشکیل دے سکتے ہیں، اور انجمن سے ہمیں یاد آیا کہ اگر آپ ان میں کچھ بھی نہیں ہیں، تب بھی ایک ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کی سہولت تو ہر ایک کے لیے ہر وقت موجود رہتی ہے، جہاں دو، چار فارغ، (بلکہ طبیعت سے فارغ) مگر چالاک دماغ اور آگ آج کل کی زبان میں کہیے تو ’’سمجھ دار‘‘ احباب جمع ہوئے، لیجیے وہیں آپ کا ایک بھرپور کام یاب اور بھرپور فعال غول تیار ہوگیا ہے، اب آپ ایک دوسرے کے لیے ساری خدمات انجام دے سکتے ہیں، جیسے فارسی میں کہا گیا ہے کہ ’’میں تمھیں حاجی کہوں، تم مجھے مُلا کہو!‘‘

 بھارت کا سفارتی رافیل

ابنِ امین

ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید جنگ تھم چکی ہے، اور اب ہم ایک ذمے دار اور باشعور پڑوسی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنے کی کوئی صورت نکال لیں گے۔ لیکن ہمارا پڑوسی، جو کہ ہم سے کئی گنا بڑا ہے، اس جنگ کو ایک ایسے مقام تک لے جانا چاہتا ہے جس کے نتائج کے بارے میں نہ یقین سے کچھ کہا جا سکتا ہے، نہ کوئی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔
2019 کے پلوامہ حملے اور اس کے بعد بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نئی سطح کی جارحیت دیکھی گئی ہے۔ تاہم، حالیہ پہلگام حملے (اپریل 2025) اور اس کے بعد بھارت کے 'آپریشن سندور' (مئی 2025) کے تناظر میں، بھارت نے ایک جارحانہ سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے۔

اس مہم کے تحت سات وفود دنیا کے مختلف خطوں میں روانہ کیے گئے جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان، بشمول مسلم اراکین پارلیمنٹ، اور ریٹائرڈ سفارت کاروں کو شامل کر کے یہ تاثر دیا گیا کہ بھارت کی پوری سیاسی قیادت پاکستان سے درپیش خطرات پر یک زبان ہے۔ ان کا مقصد عالمی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی دہشت گردی کا معاون ہے۔ یہ کوششیں بظاہر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ایک منصوبہ بند مہم کا حصہ ہیں۔

اس سفارتی یلغار کے ساتھ ساتھ، بھارت نے دیگر جوابی اقدامات بھی کیے جن میں اہم سرحدی گزرگاہوں کی بندش، سندھ طاس معاہدے (IWT) کی معطلی، پاکستانی سفارت کاروں کی بے دخلی، اور پاکستانی شہریوں کے لیے زیادہ تر ویزوں پر پابندی شامل تھی۔ خاص طور پر، سندھ طاس معاہدے کی معطلی ایک اہم اور ممکنہ طور پر تباہ کن اقدام تھا، جسے بھارت نے ’’مسلسل سرحد پار دہشت گردی‘‘ سے جوڑا۔ یہ اقدام بین الاقوامی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے کیوںکہ معاہدہ یک طرفہ کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ صورت حال پانی کی سلامتی کو ایک اہم فلیش پوائنٹ میں بدل دیتی ہے، جو ممکنہ طور پر روایتی فوجی ذرائع سے بھی آگے تنازعات کو بڑھا سکتی ہے۔

اس تمام صورت حال میں، بھارتی سیاست داں اور سابق سفارت کار ششی تھرور کی نیویارک میں حالیہ ملاقاتیں اور موجودگی بھی اسی مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر بھارت کے بیانیے کو مزید تقویت دینا ہے۔

تاہم، تجزیاتی نقطۂ نظر سے، یہی مہم پاکستان کے لیے ایک غیرمتوقع مگر غیرمعمولی سفارتی موقع کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ جب بھارت کی طرف سے پاکستان پر ایسے سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں، اور ان کی تائید کے لیے دنیا بھر میں وفود بھیجے جاتے ہیں، تو لامحالہ بین الاقوامی میڈیا، تھنک ٹینکس اور پالیسی ادارے بھی اس بیانیے کی صداقت کو پرکھنے کے لیے پاکستان کے مؤقف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، بھارت جس پلیٹ فارم کو صرف اپنا بیانیہ آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، وہی پلیٹ فارم پاکستان کے لیے اپنے مؤقف کو سامنے لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان کو محض دفاعی انداز اپنانے کی بجائے ایک فعال، شواہد پر مبنی اور بیانیہ ساز حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔

پاکستان نے سفارتی سطح پر ابتدائی ردعمل میں عالمی سفیروں کو اعتماد میں لیا، حملے کی غیرجانب دار تحقیقات کی پیشکش کی، اور ساتھ ہی بھارت کی طرف سے انڈس واٹر ٹریٹی جیسے حساس معاہدے کی معطلی کو ایک ممکنہ اشتعال انگیز اقدام کے طور پر عالمی برادری کے سامنے رکھا۔ پاکستان نے چین، سعودی عرب، ترکی، قطر اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ فوری روابط قائم کیے تاکہ بھارت کے یک طرفہ بیانیے کو توازن دیا جا سکے۔ 

یہ تمام اقدامات ایک فعال اور اسٹریٹجک سفارت کاری کی غمازی کرتے ہیں، اور 2025 کے بحران کے بعد پاکستان کی میڈیا حکمت عملی میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے جو ماضی کے ’’ٹکڑے ٹکڑے، دفاعی اور ردعمل پر مبنی‘‘ نقطۂ نظر کے برعکس ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی سفارتی یلغار نے پاکستان کو بین الاقوامی مکالمے کا مرکزی موضوع بنا دیا ہے۔

 ایک ایسے وقت میں جب پاکستان داخلی سیاسی بحران، اقتصادی غیریقینی صورت حال، اور سفارتی خاموشی کا شکار تھا، بھارت کی یہ مہم ایک اتفاقیہ موقع بن گئی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر نہ صرف خود کو ایک پرامن، قانون پر کاربند اور تعمیری ریاست کے طور پر متعارف کرائے بلکہ اپنے حقیقی چیلینجز، قربانیوں اور امن پسندی کو عالمی بیانیے کا حصہ بھی بنائے۔ بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے بارے میں ’’غیرجانب دارانہ سے مثبت تاثر میں واضح اضافہ‘‘ دیکھا گیا ہے۔

پاکستان کے لیے اب ناگزیر ہے کہ وہ محض رسمی سفارتی بیانات سے آگے بڑھے اور ایک منظم، سائنسی، اور ادارہ جاتی حکمت عملی کے تحت عالمی میڈیا (جیسے CNN، BBC، Sky News)، یونیورسٹیز، تھنک ٹینکس اور ڈاسپورا نیٹ ورکس کو متحرک کرے۔ ڈاسپورا نیٹ ورکس سے مراد وہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کمیونٹیز ہیں جو اپنے میزبان ملکوں میں پالیسی، میڈیا، اور رائے سازی پر اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ نیٹ ورکس پاکستان کی سفارتی soft power کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔

بھارت نے اپنے وفود میں صرف سیاست داں نہیں بلکہ سابق سفیروں، سفارتی ماہرین اور ابلاغی شخصیات کو شامل کر کے بیانیہ سازی کا ایک بھرپور ماڈل پیش کیا ہے۔

پاکستان کے لیے اس وقت چیلینج صرف ردعمل دینا نہیں بلکہ ایک متبادل بیانیہ ترتیب دینا ہے جو مستقل بنیادوں پر پاکستان کے مؤقف کو مضبوط کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ’’گرے زون‘‘ حکمت عملیوں کے خطرات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے، جہاں وہ جوہری حد سے نیچے محدود حملوں کے ذریعے اخراجات عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے ’’جوہری تباہی کی طرف ایک غلط قدم کے خطرے‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس وقت دنیا کی نظریں خطے پر مرکوز ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ، پالیسی ادارے، اور تجزیہ کار جنوبی ایشیا کی صورتحال کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ایک غیرمعمولی موقع ہے کہ وہ خود کو نہ صرف ایک اہم اسٹریٹجک کھلاڑی کے طور پر پیش کرے بلکہ اپنی دانش، امن پسندی اور سفارتی بلوغت سے ایک نئے عالمی امیج کی بنیاد رکھے۔ بھارت کی الزاماتی سفارت کاری پاکستان کے لیے ایک ایسے کوریڈور کی شکل اختیار کر چکی ہے جو اگر حکمت سے استعمال کیا جائے تو سفارتی تنہائی کو سفارتی مرکزیت میں بدل سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے لیے بین الاقوامی عالمی سطح پر کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ہے کہ ا پ سکتے ہیں بھارت نے بھارت کی جاتے ہیں یہ ہے کہ سے بھی ا کے لیے ا نہیں ہو اور ا پ کی طرف کو ایک اور اس کے بعد بلکہ ا

پڑھیں:

پاک بھارت مستحکم امن کی تلاش

پاکستان نے ، اللہ کے فضل و کرم سے، چار روزہ پاک بھارت جنگ میں بھارت کو تاریخ ساز شکست دی ۔ ساری دُنیا مان اور تسلیم کر چکی ہے ۔

امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، ایک درجن سے زائد بار ، برسرِ مجلس، اعلان کر چکے ہیں کہ اُن کی کوششوں اور مساعی سے پاک بھارت جنگ آگے بڑھنے سے رُکی ۔ ٹرمپ نے تو اگلے روز یہ بھی سب کے سامنے تسلیم کیا کہ اِس جنگ میں ( بھارت کے) چار، پانچ جدید جنگی طیارے رافیل (پاک فضائیہ نے) مار گرائے ۔ فرانس تک (جس نے بھارت کومایہ ناز رافیل طیارے فراہم کیے) تسلیم کر چکا ہے کہ پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے رافیل مار گرائے ۔ بھارت مگر ڈھٹائی اور مارے ندامت کے مان نہیں رہا ۔

مودی جی تو طیش میں بَل کھا رہے ہیں ، مگر امریکی صدر کی باتوں کی تردید بھی نہیں کر پارہے ۔ مودی جی کی آتش نوائی نے پاک بھارت امن کی فضاؤں میں تشویشات کی متعدد لہریں دوڑا رکھی ہیں ۔ بھارتی وزیر اعظم کی اِسی آتش نوائی نے پاکستان کی امن ساز کوششوں کو ناکام بنا رکھا ہے ۔

پاکستان اور بھارت کی فضاؤں پر موہوم حربی بادلوں کے آثار ہیں۔فریقین پریشان ہیں ۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پاکستان اِس گمبھیر صورتحال سے کیسے باعزت سرخرو ہو سکتا ہے؟ اِس سوال کا جواب کئی جوانب سے متنوع انداز میں سامنے آرہا ہے ۔ اِس سوال کا ایک جواب ممتاز دانشور ، جناب یوسف نذر ،نے بھی دیا ہے۔جناب یوسف نذر بنیادی طور پر عالمی شہرت یافتہ بینکر ہیں ، مگر اپنے ہمہ گیر اقتصادی تجربات کے کارن اُن کی نظر عالمی سیاست اور عالمی تصادموں پر بھی رہتی ہے ۔

موصوف نے گزشتہ ہفتے پاکستان کے ایک انگریزی میں ایک مفصل آرٹیکل لکھا ہے ۔اُنھوں نے قارئین کو بتایا ہے کہ پاکستان موجودہ (پاک بھارت کشیدگی) کے بحران سے نکل سکتا ہے بشرطیکہ پاکستان اپنے دیرینہ اور آزمودہ دوست، چین، کی مرکزی پالیسی سے سبق حاصل کرے ۔ اور بقول مصنف، چین کی یہ مرکزی سوچ’’غیر تصادمی پالیسی‘‘ ہے ۔ یوسف نذر کے خیالات سے متفق ہُوئے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی تجویز میں کئی نکات قابلِ غور ہیں ۔

یوسف نذر لکھتے ہیں: ’’چین کی طویل عرصے سے اختیار کردہ غیر تصادمی پالیسی نے اسے نوآبادیاتی استحصال کے ملبے سے اُٹھا کر عالمی اقتصادی طاقت بننے میں مدد دی ہے۔ سرد جنگ کے پراکسی تنازعات، شام اور یوکرین کی جنگوں، یا حالیہ بحیرہ جنوبی چین کی کشیدگی میں، چین نے ہمیشہ طویل فوجی الجھاؤ سے گریز کیا ہے۔

امریکا کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کے دوران چین کا محتاط ردِعمل ( جس میں محدود ٹیرف، عالمی تجارتی تنظیم میں اپیلیں، اور تجارتی شراکت داروں کی خاموشی شامل ہے) اسی پالیسی کا عکاس ہے۔ بیجنگ نے کشیدگی بڑھانے کے بجائے داخلی استحکام، معاشی خودانحصاری اور سفارتی روابط کو ترجیح دی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ طرزِ عمل ایک طاقتور نمونہ پیش کرتا ہے۔بین الدولی تعلقات محض نظریات سے متعین نہیں ہوتے، جیسا کہ پاکستان اور چین کی گہری دوستی ظاہر کرتی ہے۔ چین، ایک غیر مذہبی اور غیر جمہوری ریاست ہونے ، اور پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود، ایک مضبوط شراکت داری قائم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ عملی پالیسیاں نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو سکتی ہیں۔ پاکستان آج ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے: اس کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ آیا وہ پاک بھارت دیرینہ تنازعات کی اس وراثت سے باعزت نکل سکتا ہے جس نے اس کے وسائل کو چوسا، معاشی ترقی کو روکا اور عدم استحکام کو جنم دیا؟چینی ترقی کی کہانی پاکستان کے لیے سبق آموز ہے۔ چین نے غیر ملکی تنازعات سے دُور رہ کر اور اندرونی استحکام پر توجہ دے کر اپنے80کروڑ شہریوں کو غربت سے نکالا اور ایک عالمی اقتصادی طاقت میں تبدیل ہو گیا۔ پاکستان کو بھی اسی طرح اپنی اندرونی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔

1971کی جنگ میں بنگلہ دیش کا علیحدہ ہونا ایک قومی سانحہ تھا۔ اس سانحہ میں ہزاروں جانیں ضایع ہوئیں اور 20 فیصد جی ڈی پی ختم ہو گئی۔ افغان جنگ میں پاکستان کی شرکت نے پاکستان میں دہشت گردی کے لامختتم سلاسل کو جنم دیا، جس میں 2001 سے اب تک 80,000 سے زائد جانیں ضایع ہو چکی ہیں۔ اِس عظیم جانی نقصان کو پاکستان کی مختلف حکومتیں بھی تسلیم کر چکی ہیں‘‘۔

یوسف نذر مزید لکھتے ہیں:’’ایسے پس منظر میں چین کی غیر تصادمی حکمتِ عملی، جس میں اندرونی ترقی کو ترجیح دی جاتی ہے، پاکستان کے لیے ایک واضح سبق ہے۔ چین کی غیر تصادمی پالیسی 1954ء میں وضع کیے گئے ’’پُرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں‘‘ پر مبنی ہے، جس میں خودمختاری کے احترام، جارحیت سے گریز، اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر زور دیا گیا ہے۔ ’’ذلت کی صدی‘‘ کے تجربے (1839 تا 1949) نے چین میں یہ عزم پیدا کیا کہ خودمختاری کا تحفظ اور بیرونی تنازعات سے بچاؤ ضروری ہے۔

ماؤزے تنگ نے داخلی استحکام پر توجہ دی، جب کہ ڈینگ شیاؤ پنگ نے 1970 کی دہائی کے آخر میں معاشی اصلاحات کے ذریعے غیر تصادمی حکمت عملی کو مکمل طور پر ترقی کا ذریعہ بنایا۔ ڈینگ کا فلسفہ ’’اپنی صلاحیتوں کو چھپاؤ اور وقت کا انتظار کرو‘‘چین کی ترقی کی بنیاد بنا۔چین کی تاریخ میں کئی مواقع پر غیر تصادمی پالیسی واضح طور پر نظر آئی، جیسے کوریا جنگ میں محدود شرکت، ویتنام جنگ میں براہ راست مداخلت سے گریز، اور 1979کی چین-ویتنام جنگ کے بعد مکمل طور پر سفارتی حکمت عملی اپنانا۔کیوبا میزائل بحران، بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ، خلیج فارس کی جنگ، یوگوسلاویہ کی جنگیں، روانڈا نسل کشی، عراق جنگ، اور لیبیا اور شام کے تنازعات میں چین کا کردار بھی غیر تصادمی رہا۔ چین نے ہمیشہ سفارت کاری اور اقتصادی ترقی کو ترجیح دی۔چین کی اندرونی حکمرانی نے استحکام، ترقی، اور خود انحصاری کو یقینی بنایا۔

1978 کی معاشی اصلاحات نے دیہی آمدنی دگنی کر دی، تعلیم میں بے پناہ اضافہ ہوا، اور سائنسی تحقیق میں پیشرفت نے مصنوعی ذہانت، 5G اور بایوٹیکنالوجی میں ترقی کو ممکن بنایا۔چین نے فوجی اخراجات کو محدود رکھا ۔ 2023 میں جی ڈی پی کا محض 1.67 فیصد ، جب کہ امریکا اور رُوس جیسے ممالک نے اپنے وسائل جنگوں میں ضایع کیے۔چین کا بحیرئہ جنوبی چین میں کشیدگی پر سفارت کاری کو ترجیح دینا، فوجی تنازعات سے بچاؤ کی حکمت عملی کا مظہر ہے۔

اس کے برعکس امریکا نے عراق اور افغانستان میں کھربوں ڈالر ضایع کیے، جب کہ چین نے تجارتی استحکام کو فروغ دیا۔پاکستان کے لیے، چین کا ماڈل ایک واضح راستہ پیش کرتا ہے: تنازعات سے گریز، وسائل کا داخلی ترقی پر استعمال، اور تعلیم، صحت اور صنعت میں سرمایہ کاری۔ اگر پاکستان نے اس راستے کو اختیار کیا تو وہ معاشی ترقی اور استحکام حاصل کر سکتا ہے۔چین کی ترقی اس بات کا ثبوت ہے کہ اندرونی استحکام اور ترقی پر توجہ تنازعات سے کہیں زیادہ طاقتور راستہ ہے۔ پاکستان کو یہی راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ترقی اس کی تقدیر بن سکے‘‘۔

یوسف نذر ایسے دانشور کے مذکورہ مشورے مستحسن تو کہے جا سکتے ہیں ، مگر موجودہ پاک بھارت کشیدگی کے لمحات میں شائد اِن پر عمل کرنا اتنا سہل نہیں ہے ۔ غور کرنے میں مگر ہرج بھی کیا ہے ؟ کبھی کبھار ’’مانگے کے اُجالے‘‘ سے بھی روشنی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ پچھلے دو ہفتوں میں بھارت نے پاکستان کے خلاف فضا کو جس بُری طرح مشتعل کررکھا ہے، ایسی فضا میں پاکستان کے لیے ایسے مشورے شائد قابلِ عمل نہیں ہیں۔ اِن پر عمل کرنا شائد پاکستان کی کمزوری پر محمول کیا جائے۔ ’’غیر تصادمی‘‘ پالیسی کے ایسے مشورے بھارت کے ممتاز ترین مسلم دانشور، مفکر ، مفسر اور کئی کتابوں کے مصنف ، مولانا وحید الدین خان مرحوم، بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو دیتے رہے ہیں ۔

اُن کے یہ مشورے مگر ، بوجوہ، پاکستان میں قبولیت نہ پا سکے ۔ یوسف نذر صاحب اور مولانا وحید الدین خان مرحوم مبینہ ’’ غیر تصادمی پالیسی ‘‘ ایسے مشورے بھارت اور بھارتیوں کو دیتے نظر نہیں آتے۔ یہ بھارت ہے جوکبھی افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کرواتا ہے اور کبھی BLAاور BRA ایسے دہشت گردوں کے زریعے پاکستان میںخونریزی کا بازار گرم کرواتا ہے۔ بھارت کی پاکستان مخالف شیطانیاں کم ہوں تو جنوبی ایشیا میں امن کی فضائیں آر پار جا سکیں ۔

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت مستحکم امن کی تلاش
  • چین اور یورپی یونین کے درمیان سفارتی تعلقات میں وافر ثمرات حاصل ہوئے ہیں، چینی صدر
  • یورپی یونین اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات کے پچاس برس
  • پاکستان اور بنگلادیش کا سفارتی و سرکاری پاسپورٹس پر ویزا فری انٹری دینےکا فیصلہ
  • پاکستان، بنگلہ دیش کا سفارتی و سرکاری پاسپورٹ پر  ویزا فری انٹری دینے کا فیصلہ
  • ایرانی صدر مسعود پزشکیان متوقع طور پر آئندہ ماہ پاکستان کا دورہ کریں گے، سفارتی ذرائع
  • پاکستان  اور  بنگلہ دیش نے سفارتی و سرکاری  پاسپورٹس کے  حامل افراد کو  ویزا فری  انٹری کی سہولت  دینےکافیصلہ کرلیا
  • بھارت میں خود ساختہ ریاست کا جعلی سفارتخانہ بے نقاب، ملزم گرفتار
  • پاکستان اور بنگلا دیش کا سفارتی و سرکاری پاسپورٹ پر ویزا فری انٹری دینے کا فیصلہ
  • پاکستان اور بنگلا دیش کا سفارتی و سرکاری پاسپورٹس کو ویزا فری انٹری دینے کا فیصلہ