Express News:
2025-11-03@06:42:11 GMT

حسینی سید مولانا محمود میاں کا سانحہ ارتحال

اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT

2 جولائی کو ملک کے نامور عالم دین شیخ الحدیث مولانا سید محمود میاں کے انتقال کی خبر نے غمزدہ کردیا۔ مولانا ایک طویل عرصے سے علیل تھے، بدھ کو اپنی بیماری سے لڑتے لڑتے انھوں نے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کردی۔ گزشتہ روزجمعرات کی صبح ان کی میت کو نماز جنازہ کی ادائیگی کے لیے جامعہ مدینہ جدید رائیونڈ لاہورلایا گیا، جہاں ملک بھر سے علماء و مشائخ، آئمہ و خطباء، ان کے شاگرد، متعلقین، مریدین اور ان سے محبت کرنے والوں کا جم غفیر تھا۔

جامعہ مدینہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی اتنی شدید گرمی کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی مولانا محمود میاں کے جنازے میں شرکت ان کے حق پر ہونے کی بڑی دلیل ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا تھا کہ ہمارے جنازے ہماری حقانیت کا فیصلہ کریں گے۔ جب اُن کا انتقال ہوا تو بغداد میں لاکھوں افراد اُن کے جنازے میں شریک ہوئے اور اس جنازے کی شان دیکھ کر ہزاروں غیرمسلموں نے اسلام قبول کر لیا۔ مولانا سید محمود میاں جیسے درویش صفت عالم دین کے جنازے نے امام احمد بن حنبلؒ کی یاد تازہ کردی۔

اس بڑے جنازے میں جمعیت علمائے اسلام کے اکابرین و کارکنان کے علاوہ شریک ہزاروں لوگوں کومولانا سیدمحمود میاں کی سیاست سے کوئی سروکار نہ تھا وہ صرف ایک درویش عالم کو اس دنیا سے رخصت کرنے آئے تھے، اس موقع پر جتنے علمائے کرام و اکابرین آرہے تھے وہ مولانا کے صاحبزادے مولانا عکاشہ میاں سے تعزیت کررہے تھے ان کے سر پر دست شفقت رکھ رہے تھے۔ مولانا عکاشہ میاں میرے لیے چھوٹے بھائیوں جسے ہیں ان کے والد محترم کے دست شفقت سے محرومی نے مجھے بھی بہت افسردہ کیا اور میں اپنے چھوٹے بھائی کے غم میں شریک ہوں مگر یہ اللہ کا دستور اور ہمارا اس پر ایمان ہے کہ ہر ذی روح نے ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اللہ رب العزت حضرت محمود میاں رحمہ اللہ کے درجات بلند فرمائے اور مولانا عکاشہ میاں سمیت تمام پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثمہ آمین یا رب العالمین۔

 مولانا سید محمود میاںؒ نہ صرف پنجاب بھر میں دینی، نظریاتی، سیاسی، خانقاہی اور تحریکی خدمات کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھتے تھے بلکہ وہ جمعیۃ علماء اسلام کے صفِ اوّل کے مخلص، بے لوث اور مدبر قائدین میں شمار ہوتے تھے۔ مولانا سید محمود میاں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے قریبی اور بااعتماد ساتھیوں میں شامل تھے۔ ان کے انتقال پر نہ صرف مولانا فضل الرحمٰن بلکہ ان کے خاندان کے تمام افراد غمزدہ اور افسردہ ہیں مولانا ان کی رہائش گاہ پر آئے ان کے بیٹے مولانا عکاشہ میاں اور جامعہ کے اساتذہ سے تعزیت کی اور مولانا محمود میاں کی دینی، سیاسی اور فلاحی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔

آج کے کالم میں اس درویش صفت عالم دین کی زندگی کے مختلف گوشوں کو اپنے قارئین کے سامنے رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مولانا محمود میاں ؒ جیسے ہمہ جہت شخصیت کی زندگی کے تین پہلو قابل ذکر ہیں، ایک ان کا نسبی تعارف ہے، دوسرا ان کا علمی تعارف ہے اور تیسرا ان کا سیاسی تعارف ہے۔ جہاں تک نسب کی بات ہے تو مولانا سید محمود میاں حسینی سید تھے، ان کے والد شیخ الحدیث مولانا سید حامد میاں ؒ جامعہ مدینہ لاہور کے بانی و مہتمم تھے، ان کے دادا مولانا سید محمد میاں ؒ برصغیر کے نامور علماء میں شامل ہوتے تھے، آپ مدرسہ شاہی مرادآباد بھارت میں مولانامفتی محمود رحمہ اللہ کے استاد بھی تھے۔ ان کا سلسلہ نسب 41 ویں پشت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاملتا ہے۔

مولانا سید محمود میاں کے والد مولانا سید حامد میاںؒ کے ساتھ میرے باباجان ولی ابن ولی شیخ المفسرین و محدثین حضرت مولانا حمداللہ جان ڈاگئی باباجیؒ کا قلبی و روحانی تعلق تھا، وہ بہت محبت سے ان کا ذکر خیر اور روحانیت میں ان کے مقام و مرتبے کا ذکر کرتے تھے۔ اسی نسبت سے میرا بھی مولانا محمود میاںؒ سے قلبی تعلق تھا۔ پچھلے سال جب مولانا محمود میاں اپنے جانشین بیٹے مولاناعکاشہ میاں، جمعیت علمائے اسلام پنجاب کے جنرل سیکریٹری مولانا حافظ نصیر احرار اور جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات کے ساتھ لاہور میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور جس محبت سے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی وہ محبت بھری دھیمی آواز اب بھی میرے کانوں میں سنائی دے رہی ہے۔

1984 میں مولانا سید حامد میاںؒ نے رائیونڈ روڈ پر زمین مسجد، مدرسہ اور خانقاہ کے لیے وقف کردی تھی، اس وقت یہ جنگل بیابان تھا۔ وہاں مسجد حامدیہ، مدرسہ جامعہ مدنیہ جدید اور خانقاہ حامدیہ بنی۔ مولانا سید حامد میاںؒ کے انتقال کے بعد ان کے جانشین کے طور پر مولانا سید محمود میاں کو مسجد، مدرسے اور خانقاہ کے سرپرست کی ذمے داری سونپی گئی۔ 2000میں مولانا ارشد مدنی، مولانا محمود مدنی، خواجہ خان محمد، مولانا فضل الرحمٰن اور پاک و ہند کے بڑے بڑے اکابرین نے اپنے اپنے دست مبارک سے جامعہ مدنیہ جدید کی بنیاد رکھی اور مولانا سید محمود میاں نے اپنے والد کے مشن کو جاری رکھنے کا باقاعدہ آغاز کیا۔ مولانا سید محمود میاں کی 2 شادیاں تھیں ا ن کے نکاح میں ایک بیوی نامور عالم دین مولانا عزیز گل کاکا خیل کی پوتی اور سید عدنان کاکا خیل کی بہن تھیں۔

مولانا کو زمانہ طالب علمی سے ہی اللہ کے دین سے بے پناہ محبت و رغبت تھی، اس زمانے میں بھی 9 سے 10 گھنٹے مطالعہ کیا کرتے تھے۔ ایک بار اپنے والد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور استفسار کیا کہ میرے مطالعہ کا وقت کم ہے تو اسے بڑھا دوں۔ فارغ التحصیل ہوئے تو درس و تدریس سے وابستہ ہوئے جامعہ مدنیہ قدیم کریم پارک کے نائب مہتمم بنے۔ اصول کے بڑے پابند تھے، اگر کلاس سات بجے شروع ہوتی تو ہمیشہ پانچ منٹ پہلے آتے، اگر کوئی مہمان ملنے آیا ہے، خواہ وہ مہمان کتنا ہے بڑا کیوں نہ ہو اگر اس دوران کوئی طالب علم کسی غرض سے ان کے پاس آجاتا تو مہمان سے زیادہ طالب علم کو توجہ دیتے اس کی بات کو غور سے سنتے اور اس کا مسئلہ حل کرتے کیونکہ وہ علوم نبوت کا طالب ہے۔

جامعہ مدینہ جدید میں طلبا کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا لیکن یہاں دورہ حدیث کا سبق نہیں ہوتا تھا۔ ایک بار ولی کامل حضرت مولانا مفتی حسن نے شیخ عرب و عجم مولاناسید حسین احمد مدنی ؒ کو خواب میں دیکھا، وہ مسجد حامدیہ میں موجود تھے، انھوںنے مفتی صاحب کو حکم دیا کہ محمود میاں کو بلا کر لاؤ، مسجد کے ساتھ کمرے میں سید محمود میاں ہوتے تھے، مفتی صاحب انھیں بلا کر لائے۔ جب مولانا سید محمود میاں مسجد میں تشریف لائے تو سید حسین احمد مدنی نے ان کا ہاتھ پکڑ کر بخاری شریف کی مسند پر بٹھا دیا اور حکم دیا کہ آج سے حدیث آپ پڑھائیں گے۔ یوں جامعہ مدینہ جدید میں 2006 سے دورہ حدیث پڑھایا جارہا ہے۔

مولانا نے اپنی زندگی کو جامعہ اور خانقاہ کے لیے وقف کررکھا تھا۔ ان کے شاگردوں اور مریدین کی تعداد ہزاروں میں ہے، ہر سال رمضان کے آخری دس دن مجلس ہوتی تھی جس کی نگرانی خود فرماتے تھے۔ ان کے مریدین کی بڑی تعداد رمضان کے آخری دن خانقاہ میں گزارتی تھی۔ ہر اتوار کو مسجد حامدیہ میں درس حدیث دیا کرتے تھے۔ مولانا محمود میاں اپنے والد مولانا حامد میاں سے بیعت تھے، انھی کے خلیفہ مجاز تھے اور ان کے والد مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے بیعت تھے اور انھی کے خلیفہ مجاز تھے۔ مولانا سید محمود میاں سیاسی مزاج نہیں رکھتے تھے لیکن ان کے خانوادے کا اوڑھنا بچھونا جمعیت علماء اسلام کے ساتھ ہی رہا۔ جامعہ مدینہ قدیم جمعیت کا دفتر سمجھا جاتا تھا، مرکزی مجلس عاملہ و شوریٰ کا اجلاس جب بھی لاہور ہوتا تو اسی جامعہ میںہوتا تھا۔

مولانا کے والد سید حامد میاںؒ جمعیت علما ء اسلام کے تاحیات امیر رہے، اس وقت جنرل سیکریٹری مولانا فضل الرحمٰن ہوا کرتے تھے۔ 2022میں مولانا فضل الرحمٰن کے اسرار پر مولانا محمود میاں نے جمعیت علماء اسلام پنجاب کے امیر کی ذمے داری قبول کی، ان کی قیادت اور ان کے متحرک سیاسی ساتھیوں حافظ محمد نصیر احرار صاحب اور مولانا غضنفر صاحب کے کردار سے جمعیت پنجاب میں جتنی فعال نظر آئی وہ اس سے پہلے کسی دور میں نہیں تھی۔ مولانا محمود میاںؒ شبان ختم نبوت کے سرپرست رہے اور ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ختم نبوت کا مشن میری نجات کا ذریعہ بنے گا، انشاء اللہ ۔

یہ درویش عالم دین اللہ کے حضور پیش ہوگیا ہے اور آج جامعہ مدنیہ جدید کے در و دیوار سوگوار ہیں۔

آئیں ہم سب ایک مرتبہ سورہ فاتحہ اور تین مرتبہ سورۃ اخلاص مولانا کے ایصال ثواب کے لیے پڑھ لیں اور دعا کریں کہ یا مولائے رب العالمین اپنے حبیب رحمت العالمین کے صدقے مولانا سید محمود میاں کی کامل مغفرت فرمائے، انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور تمام پسماندگان کو صبر جمیل نصیب فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مولانا سید محمود میاں مولانا سید حامد میاں مولانا فضل الرحم ن مولانا محمود میاں مولانا عکاشہ میاں محمود میاں کی جامعہ مدنیہ علماء اسلام اور خانقاہ میں مولانا اور مولانا عالم دین کرتے تھے اسلام کے کے ساتھ اللہ کے کے والد کے لیے اور ان

پڑھیں:

سانحہ بھاگ میں شہید ایس ایچ او کے اہل خانہ سے وزیراعلیٰ بلوچستان کی تعزیت، اعزازات کا بھی اعلان

کوئٹہ:

بلوچستان کے ضلع کچھی میں سانحہ بھاگ کے شکار شہید ایس ایچ او لطف علی کھوسہ کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی جمعہ کو صحبت پور پہنچے۔

وزیراعلیٰ نے شہید کے بیٹوں سے ملاقات کی، انہیں گلے لگایا اور ان کے والد کی بہادری اور قربانی پر خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر شہید کانسٹیبل عظیم کھوسہ کے بیٹوں سے بھی ملاقات کی گئی، جن کی قربانیوں نے بلوچستان پولیس کی شجاعت کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔

واقعے کی تفصیلات کے مطابق، 27 اکتوبر 2025 کو ضلع کچھی کے تحصیل بھاگ ناڑی میں مسلح دہشت گردوں نے پولیس تھانے اور سرکاری عمارتوں پر حملہ کیا، جس دوران شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ اس جھڑپ میں ایس ایچ او انسپکٹر لطف علی کھوسہ اور کانسٹیبل عظیم کھوسہ نے بہادری سے مقابلہ کیا، مگر شدید فائرنگ کی زد میں آ کر دونوں شہید ہوگئے۔

ایس ایس پی کچھی کے مطابق، حملہ آوروں نے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنانے کی کوشش کی لیکن مشترکہ آپریشن کے ذریعے صورتحال کو قابو میں کر لیا گیا۔ یہ سانحہ بلوچستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف پولیس کی جدوجہد کی ایک اور تلخ یادگار ہے، جہاں گزشتہ چند ماہ میں متعدد اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔

وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے شہیدوں کے بیٹوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ شہید لطف علی کھوسہ اور شہید عظیم کھوسہ نے دہشت گردوں کے مقابلے میں اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر بلوچی غیرت، شجاعت اور روایات کو زندہ رکھا ہے۔ ان کی قربانیاں وطن کی سلامتی کے لیے لازمی ہیں اور قوم انہیں کبھی نہیں بھولے گی۔

انہوں نے اعلان کیا کہ شہداء کے تمام بچوں کے تعلیمی اخراجات صوبائی حکومت برداشت کرے گی، جبکہ بیواؤں اور خاندانوں کو ماہانہ وظیفہ اور مالی امداد فراہم کی جائے گی۔

اس کے علاوہ، وزیراعلیٰ نے تھانہ صحبت پور کو شہید ایس ایچ او لطف علی کھوسہ کے نام سے منسوب کرنے اور شہید کے گاؤں میں واقع اسکول کو اَپ گریڈ کرنے کے احکامات جاری کیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات شہیدوں کی یاد کو زندہ رکھنے اور ان کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔

وزیراعلیٰ نے شہیدوں کے خاندانوں کو یقین دلایا کہ ریاست ان کے ہر ممکن خیال کی رکھے گی، بشمول روزگار کے مواقع اور صحت کی سہولیات۔

اس موقع پر آئی جی پولیس بلوچستان محمد طاہر صوبائی وزراء سردار فیصل خان جمالی، میر محمد خان لہڑی اور میر شعیب نوشیروانی بھی وزیراعلیٰ کے ہمراہ موجود تھے۔ انہوں نے شہیدوں کی فاتحہ خوانی کی اور لواحقین کو صبر کی تلقین کی۔

آئی جی طاہر رائے نے کہا کہ بلوچستان پولیس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور ایسے حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’’حکومت بلوچستان پولیس کے شہداء کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی، یہ قربانیاں صوبے میں امن و امان کی بحالی کی بنیاد ہیں۔‘‘

انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کو جدید ہتھیار، تربیت اور وسائل فراہم کیے جائیں تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ مزید مؤثر ہو سکے۔ انہوں نے حملہ آوروں کی فوری گرفتاری کے لیے پولیس اور لیویز کو ہدایات بھی جاری کیں۔

مقامی عمائدین اور شہریوں نے وزیراعلیٰ کی آمد کو سراہا اور کہا کہ یہ دورہ شہیدوں کے خاندانوں کے لیے تسلی کا باعث بنا ہے۔ شہید ایس ایچ او لطف علی کھوسہ اور کانسٹیبل عظیم کھوسہ کے جنازوں میں صوبے بھر سے ہزاروں افراد نے شرکت کی، جو ان کی بہادری کی داستانوں سے جڑے ہوئے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • پی ٹی آئی رہنما میاں محمود الرشید بھی سینے میں تکلیف کے باعث ہسپتال منتقل
  • یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
  • عمر سرفراز چیمہ اور شاہ محمود قریشی کے بعد ایک اور پی ٹی آئی رہنما ہسپتال داخل
  • میاں محمود الرشید جیل سے جناح اسپتال منتقل
  • پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما میاں محمود الرشید بھی طبیعت بگڑنے پر اسپتال منتقل
  • آئی ایس او کے وفد کا دورہ پاراچنار
  • جامعہ اردو میں بدانتظامی، ہراسانی اور سہولیات کی کمی، اسلامی جمعیت طلبہ کا شدید احتجاج
  • سانحہ بھاگ میں شہید ایس ایچ او کے اہل خانہ سے وزیراعلیٰ بلوچستان کی تعزیت، اعزازات کا بھی اعلان
  • کمرے میں صرف کتوں کے ایوارڈ ہیں، مجھے ایک بھی ایوارڈ نہیں ملا، کاشف محمود