Nai Baat:
2025-11-03@14:48:48 GMT

اب تو چلنا بھی دوبھر ہے

اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT

اب تو چلنا بھی دوبھر ہے

رستے تمام بند ہیں کوئے نجات کے
مر کر بھی میری خاک یہیں پامال ہے
کچھ یہی حال صوبہ پنجاب اور بالخصوص لاہور کے باسیوں کا ہے۔ تجاوزات کی بھرمار نے کئی علاقوں میں ان کے لیے پیدل چلنا بھی گویا جوئے شیر لانے کے مترادف بنا دیا ہے۔ ان علاقوں میں فٹ پاتھ نام کی کوئی شے یا تو نظر ہی نہیں آتی اور اگر نظر آتی بھی ہے تو اس پر تجاوزات مافیا نے اپنا قبضہ جما رکھا ہے۔
پنجاب حکومت اور لاہور کی ضلعی انتظامیہ کے اس ضمن میں دعوے اور وعدے ایسے خواب کی مانند ہیں جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ۔ تجاوزات اور قبضہ مافیا نہایت طاقتور اور انتظامیہ ان کے سامنے بھیگی بلی بنی نظر آتی ہے۔ تنبیہ کے باوجود بھی تجاوزات میں رتی بھر بھی کمی واقع نہیں ہوئی۔ متعلقہ اداروں کا عملہ تہہ بازاری غیر فعال ہے جبکہ متعلقہ اسسٹنٹ کمشنرز احکامات پر عمل درآمد کرکے اپنی ’’منتھلی‘‘ پر کمپرومائز کو تیار نظر نہیں آتے۔ حقیقت حال تو یہ ہے کہ لاہور شہر میں بازار، شاہراہیں اور اہم علاقے تجاوزات مافیا کو باقاعدہ سے ٹھیکے پر دیئے جاتے ہیں جس سے ہر ماہ کروڑوں روپے کی ’’منتھلی‘‘ میونسپل کارپوریشن لاہور اور لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے طاقتور افسران کی جیبوں میں جاتی ہے ۔

ذرائع کے مطابق صرف لاہور ہی میں پانچ ہزار ارب مالیت کی سرکاری زمینوں پر غیر قانونی طور پر پختہ اور غیر پختہ تعمیرات موجود ہیں۔ پنجاب ریونیو اتھارٹی نے گذشتہ سال 239 ارب روپے اکٹھے کیے جبکہ ایک اندازے کے مطابق پنجاب بھر میں سڑکوں اور بازاروں میں عارضی تجاوزات قائم کرکے سالانہ تین ہزار ارب روپے تک سرکاری افسران و اہلکار اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں۔ مزید براں صوبے میں چالیس ہزار ارب سے زائد کی سرکاری زمینوں پر سرکاری ملازمین نے پرائیویٹ مافیا کے قبضے کرا رکھے ہیں۔ پختہ تجاوزات کی صورت قبضہ مافیا کئی ہزار ارب کی زمین ہڑپنے کے قریب ہیں ۔ تجاوزات کا خاتمہ اور سرکاری زمینوں کو قبضہ مافیا سے واگزار کرانا گویا خواہش نا تمام بن چکی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تجاوزات چھوٹا موٹا کاروبار نہیں بلکہ سرکاری افسران و اہلکاروں کے لیے ایک منافع بخش صنعت بن چکی ہے۔ لاہور میں شاہدرہ ، قلعہ گوجر سنگھ، شاد باغ،ٹاؤن شپ،ہال روڈ،سرکلر روڈ،راوی روڈ،گڑھی شاہو، مزنگ، لوئر مال،داتا گنج بخش،بلال گنج، انارکلی بازار، ٹھوکر نیاز بھی، چوک یتیم خانہ ، اقبال ٹاؤن، منٹگمری روڈ، بیڈن روڈ،مغل پورہ، ہربنس پورہ، ریلوے سٹیشن اور صدر کے علاقے تجاوزات کے حوالے سے خاص طور پر اہم ہیں۔

پنجاب کوآپریٹو بورڈ فار لیکوڈیشن کی لاکھوں کنال زمین پر غیرقانونی قبضے ہو چکے ہیں۔امور کشمیر کی پنجاب بھر میں قیمتی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز اور پلازے بن چکے ہیں۔ یہ امر قابل غور ہے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ، محترمہ فاطمہ جناح اور نواب زادہ لیاقت علی خان کی جانب سے لاہور کے پوش علاقہ گلبرگ کی مرکزی سڑک پر 29 کنال زمین ٹرسٹ کے نام وقف کی گئی تھی لیکن اس قیمتی زمین پر بھی اب شاپنگ مال اور پلازے بن چکے ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی تحصیل میں بھی کروڑوں نہیں اربوں روپے کی سرکاری زمینوں، شاہراؤں اور بازاروں میں پختہ اور عارضی تجاوزات قائم کرا کے ’’منتھلیاں‘‘ اکٹھی کی جاتی ہیں جبکہ بڑے کاروباری اور انڈسٹریل شہروں میں کھربوں روپے کی سرکاری زمینوں پر تجاوزات لگوا کر کروڑوں روپے سرکاری افسران و اہلکار ماہانہ اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جس انفورسمنٹ/انکروچمنٹ انسپکٹر کو تجاوزات کے خاتمے کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے وہی بعد ازاں تجاوزات کے قیام میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ تجاوزات کی بھرمار کے باعث شہر میں ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم ہو چکا ہے بیشتر شاہراؤں پر دن کے اوقات میں گھنٹوں ٹریفک کا جام رہنا معمول بن چکا ہے۔

کئی بار تو چند کلومیٹر فاصلہ طے کرنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ اہم ترین شاہراؤں اور کارنر روڈ پر ٹریفک پولیس کی آشیرباد سے غیر قانونی پرائیویٹ پارکنگ سٹینڈ کے باعث ٹریفک جام بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔پنجاب کی ٹریفک پولیس ناجائز پارکنگ مافیا کی بی ٹیم بنی نظر آتی ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج کا یہ عالم ہے کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے بھی اکثر و بیشتر اپنے مرکزی گیٹ سرکاری زمین اور شاہراہوں پر قبضہ کرکے بنائے ہوتے ہیں۔تجاوزات کے باعث شہریوں کو نہ صرف سفری مشکلات کا سامنا ہے بلکہ شاہرائیں بھی جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے قومی خزانے کو کھربوں روپے کا نقصان بھی ہو تا ہے۔ ہر دکان کے آگے تین غیر قانونی سٹال جبکہ میونسپل کمیٹی والے ایک ایک ریڑھی سے یومیہ خرچہ لیکر اسے بیچ سڑک روڈ بند کر کے دکانداری کی اجازت دے دیتے ہیں۔یوں تجاوزات کی وجہ سے 120 فٹ کی سڑک عام طور پر محض 20فٹ کی رہ جاتی ہے اور 60 فٹ چوڑا بازار بمشکل 10فٹ تک رہ جاتا ہے۔۔ گھر کے باہر ایکسٹرا ریمپ کی وجہ سے گلی محلوں میں لڑائیاں اور قتل و غارت کی نوبت آجاتی ہے لیکن مجال ہے کہ انتظامی افسران خواب غفلت سے بیدار ہوں۔
حال ہی میں پنجاب حکومت کی جانب سے سبزی اور پھل فروشوں کو ریڑھیاں دی گئی ہیں تو ہم اگر چوبرجی کے علاقے میں سے گزریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ تمام خوبصورت ریڈھیاں فٹ پاتھوں پر لگا دی گئی ہیں جس کے باعث پیدل افراد کو تیز رفتار ٹریفک کے بہاؤ میں سڑک پر چلنا پڑتا ہے۔ اس کے باعث یہاں ٹریفک حادثات معمول بنتے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تجاوزات کی سرپرستی کرنے والے افسران کو ناصرف عہدوں سے ہٹایا جائے بلکہ ان کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی بھی کی جانی چاہیے۔اس کے ساتھ ایک مربوط منصوبہ بندی کے تحت شہر کی تمام سڑکوں اور اہم شاہراہوں پر فٹ پاتھوں کی بحالی کو یقینی بنایا جائے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کی سرکاری زمینوں تجاوزات کی تجاوزات کے کے باعث

پڑھیں:

پنجاب کے وسطی علاقوں میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی

—فائل فوٹو

پنجاب کے وسطی علاقوں میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ 

بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق قصور میں سب سے زیادہ 686 پارٹیکولیٹ میٹر ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ رائے ونڈ میں 601، گوجرانوالہ میں 442، فیصل آباد میں 337 اور شیخوپورہ میں 358 پارٹیکولیٹ میٹر ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

محکمہ ماحولیات پنجاب کا کہنا ہے کہ لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 450 ہے۔ پاکستان کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور تیسرے نمبر پر ہے۔

پنجاب: فضائی آلودگی شدت اختیار کرگئی، سانس لینا بھی صحت کیلئے خطرہ

اسموگ کے اثرات لاہور، قصور، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ تک پھیل چکے ہیں

محکمہ ماحولیات نے کہا کہ برکی روڈ، شاہدرہ، ملتان روڈ، جی ٹی روڈ، ایجرٹن روڈ پر اے کیو آئی 500 ریکارڈ کیا گیا۔

محکمہ ماحولیات کا کہنا ہے کہ بھارت سے آنے والی آلودہ مشرقی ہوائیں لاہور کے فضائی معیار پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ لاہور کا اوسط اے کیو آئی 320 تا 360 تک رہنے کا امکان ہے۔ فضا میں آلودگی کی شرح بلند مگر قابو میں ہے۔ دوپہر 1 بجے سے 5 بجے تک فضائی معیار میں بہتری کا امکان ہے۔ 

طبی ماہرین نے شہریوں کو ماسک کے استعمال اور بغیر ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت کی ہے۔ 

متعلقہ مضامین

  • لاہور میں فضائی معیار کی شرح 500 تک پہنچ گئی
  • سرکاری نرخوں پر چینی کی عدم دستیابی، کئی شہروں میں 220 روپے کلو تک جا پہنچی
  • کراچی کے فٹ پاتھوں پر قبضے،کے ایم سی افسران کا دھندا جاری
  •  پنجاب میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے، مریم نواز
  • چینی کی سرکاری قیمت پر عدم دستیابی، مختلف شہروں میں قیمت 210روپے تک جا پہنچی
  • چینی کی سرکاری قیمت پر عدم دستیابی، مختلف شہروں میں فی کلو قیمت 210 روپےتک جا پہنچی
  • پنجاب میں اسموگ، اسکولوں کے صبح 8 بج کر 45 منٹ سے پہلے کھلنے پرپابندی عائد
  • پنجاب کے وسطی علاقوں میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی
  • سرکاری ملازمین کیلئے رینٹل سیلنگ کا نیا ریٹ جاری
  • شہری اراضی کو قبضہ گروہوں سے بچانا وقت کی اہم ضرورت ہے‘آباد