رستے تمام بند ہیں کوئے نجات کے
مر کر بھی میری خاک یہیں پامال ہے
کچھ یہی حال صوبہ پنجاب اور بالخصوص لاہور کے باسیوں کا ہے۔ تجاوزات کی بھرمار نے کئی علاقوں میں ان کے لیے پیدل چلنا بھی گویا جوئے شیر لانے کے مترادف بنا دیا ہے۔ ان علاقوں میں فٹ پاتھ نام کی کوئی شے یا تو نظر ہی نہیں آتی اور اگر نظر آتی بھی ہے تو اس پر تجاوزات مافیا نے اپنا قبضہ جما رکھا ہے۔
پنجاب حکومت اور لاہور کی ضلعی انتظامیہ کے اس ضمن میں دعوے اور وعدے ایسے خواب کی مانند ہیں جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ۔ تجاوزات اور قبضہ مافیا نہایت طاقتور اور انتظامیہ ان کے سامنے بھیگی بلی بنی نظر آتی ہے۔ تنبیہ کے باوجود بھی تجاوزات میں رتی بھر بھی کمی واقع نہیں ہوئی۔ متعلقہ اداروں کا عملہ تہہ بازاری غیر فعال ہے جبکہ متعلقہ اسسٹنٹ کمشنرز احکامات پر عمل درآمد کرکے اپنی ’’منتھلی‘‘ پر کمپرومائز کو تیار نظر نہیں آتے۔ حقیقت حال تو یہ ہے کہ لاہور شہر میں بازار، شاہراہیں اور اہم علاقے تجاوزات مافیا کو باقاعدہ سے ٹھیکے پر دیئے جاتے ہیں جس سے ہر ماہ کروڑوں روپے کی ’’منتھلی‘‘ میونسپل کارپوریشن لاہور اور لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے طاقتور افسران کی جیبوں میں جاتی ہے ۔
ذرائع کے مطابق صرف لاہور ہی میں پانچ ہزار ارب مالیت کی سرکاری زمینوں پر غیر قانونی طور پر پختہ اور غیر پختہ تعمیرات موجود ہیں۔ پنجاب ریونیو اتھارٹی نے گذشتہ سال 239 ارب روپے اکٹھے کیے جبکہ ایک اندازے کے مطابق پنجاب بھر میں سڑکوں اور بازاروں میں عارضی تجاوزات قائم کرکے سالانہ تین ہزار ارب روپے تک سرکاری افسران و اہلکار اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں۔ مزید براں صوبے میں چالیس ہزار ارب سے زائد کی سرکاری زمینوں پر سرکاری ملازمین نے پرائیویٹ مافیا کے قبضے کرا رکھے ہیں۔ پختہ تجاوزات کی صورت قبضہ مافیا کئی ہزار ارب کی زمین ہڑپنے کے قریب ہیں ۔ تجاوزات کا خاتمہ اور سرکاری زمینوں کو قبضہ مافیا سے واگزار کرانا گویا خواہش نا تمام بن چکی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تجاوزات چھوٹا موٹا کاروبار نہیں بلکہ سرکاری افسران و اہلکاروں کے لیے ایک منافع بخش صنعت بن چکی ہے۔ لاہور میں شاہدرہ ، قلعہ گوجر سنگھ، شاد باغ،ٹاؤن شپ،ہال روڈ،سرکلر روڈ،راوی روڈ،گڑھی شاہو، مزنگ، لوئر مال،داتا گنج بخش،بلال گنج، انارکلی بازار، ٹھوکر نیاز بھی، چوک یتیم خانہ ، اقبال ٹاؤن، منٹگمری روڈ، بیڈن روڈ،مغل پورہ، ہربنس پورہ، ریلوے سٹیشن اور صدر کے علاقے تجاوزات کے حوالے سے خاص طور پر اہم ہیں۔
پنجاب کوآپریٹو بورڈ فار لیکوڈیشن کی لاکھوں کنال زمین پر غیرقانونی قبضے ہو چکے ہیں۔امور کشمیر کی پنجاب بھر میں قیمتی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز اور پلازے بن چکے ہیں۔ یہ امر قابل غور ہے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ، محترمہ فاطمہ جناح اور نواب زادہ لیاقت علی خان کی جانب سے لاہور کے پوش علاقہ گلبرگ کی مرکزی سڑک پر 29 کنال زمین ٹرسٹ کے نام وقف کی گئی تھی لیکن اس قیمتی زمین پر بھی اب شاپنگ مال اور پلازے بن چکے ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی تحصیل میں بھی کروڑوں نہیں اربوں روپے کی سرکاری زمینوں، شاہراؤں اور بازاروں میں پختہ اور عارضی تجاوزات قائم کرا کے ’’منتھلیاں‘‘ اکٹھی کی جاتی ہیں جبکہ بڑے کاروباری اور انڈسٹریل شہروں میں کھربوں روپے کی سرکاری زمینوں پر تجاوزات لگوا کر کروڑوں روپے سرکاری افسران و اہلکار ماہانہ اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جس انفورسمنٹ/انکروچمنٹ انسپکٹر کو تجاوزات کے خاتمے کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے وہی بعد ازاں تجاوزات کے قیام میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ تجاوزات کی بھرمار کے باعث شہر میں ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم ہو چکا ہے بیشتر شاہراؤں پر دن کے اوقات میں گھنٹوں ٹریفک کا جام رہنا معمول بن چکا ہے۔
کئی بار تو چند کلومیٹر فاصلہ طے کرنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ اہم ترین شاہراؤں اور کارنر روڈ پر ٹریفک پولیس کی آشیرباد سے غیر قانونی پرائیویٹ پارکنگ سٹینڈ کے باعث ٹریفک جام بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔پنجاب کی ٹریفک پولیس ناجائز پارکنگ مافیا کی بی ٹیم بنی نظر آتی ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج کا یہ عالم ہے کہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے بھی اکثر و بیشتر اپنے مرکزی گیٹ سرکاری زمین اور شاہراہوں پر قبضہ کرکے بنائے ہوتے ہیں۔تجاوزات کے باعث شہریوں کو نہ صرف سفری مشکلات کا سامنا ہے بلکہ شاہرائیں بھی جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے قومی خزانے کو کھربوں روپے کا نقصان بھی ہو تا ہے۔ ہر دکان کے آگے تین غیر قانونی سٹال جبکہ میونسپل کمیٹی والے ایک ایک ریڑھی سے یومیہ خرچہ لیکر اسے بیچ سڑک روڈ بند کر کے دکانداری کی اجازت دے دیتے ہیں۔یوں تجاوزات کی وجہ سے 120 فٹ کی سڑک عام طور پر محض 20فٹ کی رہ جاتی ہے اور 60 فٹ چوڑا بازار بمشکل 10فٹ تک رہ جاتا ہے۔۔ گھر کے باہر ایکسٹرا ریمپ کی وجہ سے گلی محلوں میں لڑائیاں اور قتل و غارت کی نوبت آجاتی ہے لیکن مجال ہے کہ انتظامی افسران خواب غفلت سے بیدار ہوں۔
حال ہی میں پنجاب حکومت کی جانب سے سبزی اور پھل فروشوں کو ریڑھیاں دی گئی ہیں تو ہم اگر چوبرجی کے علاقے میں سے گزریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ تمام خوبصورت ریڈھیاں فٹ پاتھوں پر لگا دی گئی ہیں جس کے باعث پیدل افراد کو تیز رفتار ٹریفک کے بہاؤ میں سڑک پر چلنا پڑتا ہے۔ اس کے باعث یہاں ٹریفک حادثات معمول بنتے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تجاوزات کی سرپرستی کرنے والے افسران کو ناصرف عہدوں سے ہٹایا جائے بلکہ ان کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی بھی کی جانی چاہیے۔اس کے ساتھ ایک مربوط منصوبہ بندی کے تحت شہر کی تمام سڑکوں اور اہم شاہراہوں پر فٹ پاتھوں کی بحالی کو یقینی بنایا جائے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کی سرکاری زمینوں تجاوزات کی تجاوزات کے کے باعث
پڑھیں:
پنجاب میں خواتین کے قتل، زیادتی، اغوا ور تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ
لاہور:پنجاب میں خواتین کے قتل، زیادتی، اغوا اور تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جنوری تا دسمبر 2024 کے دوران پنجاب میں خواتین پر ہونے والے 4 سنگین جرائم ، جنسی زیادتی، غیرت کے نام پر قتل، اغوا اور گھریلو تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا، لیکن نظامِ انصاف کی ناکامی نے متاثرہ خواتین کو انصاف سے دور رکھا۔
رپورٹ کی تیاری کے لیے ایس ایس ڈی او نے رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) کے تحت دستیاب ڈیٹا اکٹھا کیا اور اسے اضلاع کی آبادی کے تناسب سے کرائم ریٹ کے فارمولے کے ذریعے تجزیہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق لاہور میں جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ 532 واقعات رپورٹ ہوئے، جس کے بعد فیصل آباد میں 340 اور قصور میں 271 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ اس کے باوجود سزا کے تناسب انتہائی کم رہا۔
لاہور میں صرف 2 اور قصور میں 6 ملزمان کو ہی مجرم قرار دیا گیا۔ آبادی کے لحاظ سے قصور میں فی لاکھ 25.5 اور پاکپتن میں 25 واقعات رپورٹ ہوئے، جو ظاہر کرتا ہے کہ چھوٹے اور دیہی اضلاع میں خواتین کو خطرات لاحق ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل کے جرائم میں فیصل آباد سرِ فہرست رہا جہاں 31 واقعات پیش آئے، جب کہ راجن پور اور سرگودھا میں 15-15 کیسز رپورٹ ہوئے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان تمام مقدمات میں کسی کو سزا نہیں دی گئی، تاہم فی صد آبادی کے حساب سے راجن پور میں 2.9 اور خوشاب میں 2.5 فی صد کے تناسب نے اس رجحان کی شدت کو اجاگر کیا۔
اغوا کے حوالے سے لاہور میں 4,510 کیسز رپورٹ ہوئے، مگر صرف 5 ملزمان کو سزا ہوئی۔ فیصل آباد میں 1,610، قصور میں 1,230، شیخوپورہ میں 1,111 اور ملتان میں 970 شکایات درج ہوئیں، لیکن کسی کو بھی عدالتوں سے سزا نہیں ہوئی۔آبادی کے تناسب سے لاہور کا کرائم ریٹ فی لاکھ 128.2، قصور 115.8 اور شیخوپورہ 103.6 رہا۔
گھریلو تشدد کے کیسز میں گجرانوالہ نے سبقت لے لی جہاں 561 شکایات موصول ہوئیں، جب کہ ساہیوال میں 68 اور لاہور میں 56 مقدمات درج ہوئے۔ ان تمام واقعات میں بھی سزاؤں کا تناسب صفر رہا اور فی لاکھ آبادی کے لحاظ سے گجرانوالہ میں 34.8 اور چنیوٹ میں 11 کے اعداد و شمار نے اس نوعیت کے جرائم کی سنگینی کو واضح کر دیا۔
ایس ایس ڈی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیّد کوثر عباس نے کہا ہے کہ پنجاب پولیس نے رپورٹنگ کے نظام کو بہتر بنایا ہے مگر عدالتوں میں کیسز کا مؤثر تعاقب نہ ہونے کے باعث سزائیں نا ہونے کے برابر ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس کے پاس وہ واقعات بھی پہنچتے ہی نہیں جو متاثرین رپورٹ نہیں کرا پاتے یا روک دیے جاتے ہیں اور اس لیے عدالتی اصلاحات کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی مہمات ناگزیر ہیں تاکہ خواتین بروقت ویمن سیفٹی ایپ اور ورچوئل پولیس اسٹیشن کے ذریعے اپنے کیس درج کرا سکیں۔
ایس ایس ڈی او کے سینئر ڈائریکٹر پروگرامز شاہد خان جتوئی نے بتایا کہ اغوا کے پیچھے انسانی اسمگلنگ، جبری تبدیلی مذہب، تاوان اور زیادتی جیسے سنگین جرائم چھپے ہیں جن کے لیے فوری ریاستی مداخلت درکار ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ رپورٹ میں شامل نقشہ جات اور ضلعی اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ کئی چھوٹے اضلاع بڑے شہروں سے کہیں زیادہ متاثر ہیں۔
رپورٹ کو ایک ہنگامی وارننگ قرار دیتے ہوئے ایس ایس ڈی او نے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس، عدلیہ اور متعلقہ ادارے مشترکہ طور پر فوری اصلاحات کریں، قانونی عملدرآمد کو مؤثر بنائیں اور خواتین کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔