طالبان اور خطے کے ممالک: ایک نئی تزویراتی حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
جب 2021ء میں افغانستان میں امریکی اوراس کے اتحادی افواج کے مکمل انخلاکے نتیجے میں افغان طالبان اقتدارمیں آئے توپاکستان میں بیشتر سفارتی اورعسکری امورکے ماہرین کی رائے تھی کہ اس بڑی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان کی خطے میں گرفت مضبوط ہوجائے گی کہ طالبان کی اس فتح میں جہاں پاکستان نے بے شمارقربانیاں دی بلکہ لاکھوں افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کرتے ہوئے اپنے ہاں پناہ بھی دی بلکہ ساری دنیا کوعلم ہے کہ اگرپڑوس میں پاکستان جیساوفادارملک نہ ہوتاتوافغانستان میں نہ صرف سوویت یونین کوشکستِ فاش ہوتی اوروہ عالمی طاقت کی کرسی سے اوندھے منہ گرکرچھ ٹکڑوں میں تقسیم ہوتااورنہ ہی امریکااوراس کے اتحادی اس طرح رسواہوکرراہِ فراراختیارکرتے لیکن کیا وجہ ہے کہ ان تمام قربانیوں کے باوجوددونوں برادرمسلم ممالک کے باہمی تعلقات شدید تنائوکاشکارہیں اوربدنصیبی سے یہ سارامعاملہ طالبان کے اقتدارسنبھالنے کے بعدسے شروع ہے۔
اگست2021ء میں جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تواس وقت کے پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کہاتھاکہ افغانستان کے عوام نے غلامی کی زنجیریں توڑدی ہیں۔واضح رہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے5ستمبر2021ء کوکابل کااچانک دورہ کیاتھاجس کی تصاویربھی میڈیاکی زینت بنی تھیں جوکہ اس ادارے کے سربراہ کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کاخمیازہ آج تک پاکستان بھگت رہاہے۔ان دنوں وہ بھی کورٹ مارشل کی زدمیں اپنے ہی سابقہ ادارہ کی تحویل میں ہیں۔ ان تصاویر اورویڈیوزمیں ہوٹل کی لابی میں چائے کا کپ تھامے صحافیوں سے غیررسمی بات چیت کرتے ہوئے ’’پریشان نہ ہوں ،سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘کے الفاظ ادا کئے تھے لیکن ان کے اس عمل نے پاکستان کی پریشانیوں میں حددرجہ اضافہ کردیا۔
لیکن پچھلے3سالوں میں چیزیں تیزی سے بدلی ہیں۔اب بظاہرپاکستان اورطالبان آمنے سامنے ہیں۔پاکستان بارہاکابل سے مطالبہ کر چکاہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے خلاف کارروائی کرے جوافغان سرزمین کوپاکستان میں حملوں کے لئے استعمال کررہی ہے۔طالبان حکومت اِن الزامات کی تردید کررہی ہے۔گذشتہ برس دسمبر کے اواخرمیں پاکستان نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں انٹیلی جنس پرمبنی فضائی آپریشن کیاتھاجبکہ افغان طالبان حکومت نے اسلام آباد سے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا تھا اورخبردارکیاتھاکہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری حکمران اسلامی امارت کے لئے سرخ لکیرہے اوروہ اس کا جواب دے گا،جس کے بعدپاکستان کی حدودمیں واقع سرحدی چوکیوں پر فائرنگ کے واقعات پیش آئے تھے۔جبکہ پاکستان کے الی دشمن انڈیانے پاکستان کی جانب سے افغانستان میں ’’فضائی کاروائی‘‘کی مذمت کی کیونکہ انڈیااس خطے میں اپنے آقا امریکاکی پالیسی پر مکمل طورعملدرآمدکررہاہے۔
جہاں ایک طرف افغانستان میں طالبان کی اقتدارمیں واپسی کے بعدپاکستانی حکومت حالات میں بہتری کاسوچ رہی تھی وہیں یہ بھی سمجھاجارہا تھاکہ اس پیش رفت سے انڈیاکو سفارتی اورخطے میں اثرورسوخ کے اعتبارسے دھچکاپہنچاہے۔تاہم حالیہ دنوں میں اب ایک بارپھرانڈیااورافغان طالبان میں بڑھتی قربت پاکستان کے لئے ایک سرخ لکیربنتی جارہی ہے۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کارخصت ہوناانڈیاکے لئے بڑا دھچکاسمجھاجارہا تھا۔ایسالگتاتھاکہ انڈیانے غنی دور حکومت میں افغانستان میں جواربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے وہ ضائع ہوجائے گی لیکن گذشتہ چندمہینوں میں انڈیاکے طالبان کے ساتھ رابطے بڑھے ہیں اورایک بار پھرافغانستان اورانڈیاکے تعلقات میں گرمجوشی نظرآرہی ہے۔
انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے 8 جنوری کودبئی میں طالبان کے قائم مقام وزیرخارجہ امیرخان متقی سے ملاقات کی ہے جس میں دونوں ممالک نے تجارتی سرگرمیوں کوفروغ دینے اور تعاون کومضبوط بنانے پراتفاق کیاہے۔طالبان کی وزارت خارجہ نے کہاہے کہ افغانستان انڈیاکوایک اہم علاقائی اوراقتصادی شراکت دارکے طورپر دیکھتا ہے۔یادرہے کہ2021ء میں طالبان کے اقتدارمیں آنے کے بعدیہ ان کی انتظامیہ کی انڈیاکے ساتھ اب تک کی اعلیٰ ترین سطح کی ملاقات تھی۔ افغانستان کی وزارت خارجہ نے کہاکہ ایران کی چابہاربندرگاہ کے ذریعے انڈیاکے ساتھ تجارت بڑھانے پربات چیت ہوئی ہے۔انڈیاایران میں چابہار بندرگاہ بنارہاہے تاکہ پاکستان کی کراچی اورگوادر پورٹ کوبائی پاس کرکے افغانستان،ایران اوروسطی ایشیاکے ساتھ تجارت کی جا سکے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ نے وکرم مصری سے ملاقات کے بعدجاری کردہ بیان میں مزیدکہا ہے کہ ’’ہماری خارجہ پالیسی متوازن ہے اورمعیشت کو مضبوط بنانے پرمرکوزہے۔ ہمارا مقصدانڈیاکے ساتھ سیاسی اوراقتصادی شراکت داری کومضبوط بناناہے۔ دوسری جانب اس ملاقات کے بعدانڈیاکی وزارت خارجہ نے کہاہے کہ افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں کودوبارہ شروع کرنے پر غورکیاجارہاہے اورتجارت بڑھانے پربھی بات ہوئی ہے۔یادرہے کہ پاکستان سمیت دنیاکے کسی بھی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کوتسلیم نہیں کیااورانڈیابھی ان ممالک میں سے ایک ہے۔
دبئی میں طالبان اورانڈیاکے درمیان ہونے والی ملاقات پرپاکستان کی وزارت خارجہ نے کوئی باضابطہ ردعمل ظاہرنہیں کیاہے تاہم خارجہ امورکے ماہرین اورتجزیہ نگاروں نے اس پیش رفت کو پاکستان کے لئے ایک اہم پیغام کے طورپردیکھا ہے۔انڈیاکے انگریزی اخبار’’دی ہندو‘‘ میں پاکستان کے لئے نامہ نگارنروپماسبرامنیم نے لکھاہے کہ’’دریائے کابل پربننے والا شہتوت ڈیم طالبان کی ترجیح ہے۔انڈیااور افغانستان کے درمیان 2020ء میں اس ضمن میں 250 ملین ڈالرکے ایک منصوبے پرمعاہدہ ہواتھالیکن طالبان کے آنے کے بعد معاملات ٹھپ ہوگئے تھے۔طالبان اب انڈیاسے اس منصوبے کومکمل کرنے کاکہہ رہے ہیں‘‘۔
امریکاکی یونیورسٹی آف البانی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسرکرسٹوفرکلیری نے لکھاہے کہ کئی دہائیوں سے امریکی پالیسی سازپاکستان کوکہتے رہے ہیں کہ طالبان کی حمایت کرنا حکمت عملی کے لحاظ سے شائد ہی فائدہ مندہوگا۔اب چیزیں واضح ہوکر سامنے آرہی ہیں‘‘۔پاکستان کی توقعات کے برعکس،کابل میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہواہے۔پاکستان سینٹرفارکانفلیکٹ اورسکیورٹی کے مطابق2024ء میں نومبرکے مہینے میں سب سے زیادہ حملے ہوئے جن میں240افراد ہلاک ہوئے جن میں تقریبا70سکیورٹی اہلکارشامل تھے۔
امریکی تھنک ٹینک دی ولسن سینٹرکے جنوبی ایشیاانسٹیٹیوٹ کے مطابق’’ کوئی یہ کہہ سکتاہے کہ طالبان کے ساتھ انڈیاکی بڑھتی ہوئی قربت افغانستان میں پاکستان کوشکست دینے کی کوشش ہے لیکن اس کاایک عملی پہلوبھی ہے کہ انڈیانہیں چاہتاکہ افغانستان کی سرزمین انڈیامیں دہشتگردانہ حملوں کے لئے استعمال ہو۔اس کے علاوہ انڈیاایران کے چابہارکے ذریعے افغانستان کے ساتھ رابطے بڑھانا بھی چاہتاہے۔انڈیابھی یہاں سے وسطی ایشیاء پہنچ جائے گا۔انڈیاکی اس کوشش کی بنیادپر وہاں کے لوگوں کااعتمادبھی بڑھے گا۔پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان افغانستان میں اپنے مخالفین پرقابوپالیں لیکن طالبان ایساکرنے کے موڈمیں نہیں ہیں اوراس کافائدہ انڈیاکومل رہاہے لیکن انڈیااورطالبان کے تعلقات کو پاکستان کے تناظرمیں نہیں دیکھناچاہیے‘‘۔
انڈیاکے انگریزی اخبار’’دی ہندو‘‘کے بین الاقوامی ایڈیٹرسٹینلے جانی کے مطابق’’انڈیا اور طالبان 2021ء میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ برقراررکھناچاہتے تھے۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔انڈیانے افغانستان میں سرمایہ کاری کی ہے اوراسے دہشت گردی پربھی تحفظات ہیں۔ پاکستان فیکٹربھی اہم ہے۔ طالبان پاکستان کی مداخلت سے آزادرہناچاہتے ہیں اوریہ انڈیاکے لئے ایک موقع ہے۔اس کایہ مطلب نہیں کہ انڈیاطالبان کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کی جلدی میں ہے۔یہ بین الاقوامی معاہدے کے بعدہی ہوگالیکن انڈیا اور طالبان رابطے برقراررکھیں گے اورآہستہ آہستہ نئے مواقع تلاش کریں گے۔
انڈیا میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کاکہناہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی بری طرح ناکام ہوچکی ہے اوربظاہراس حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔ایک ہی وقت میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت اورتعلقات بڑھانے کی بات ہورہی ہے اورساتھ ہی حملے بھی ہورہے ہیں۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی وزارت خارجہ نے افغانستان میں میں طالبان کی کہ افغانستان افغانستان کے افغانستان کی میں پاکستان پاکستان کے پاکستان کی کہ طالبان طالبان کے کی حکومت کے ساتھ کے لئے
پڑھیں:
طالبان افغانستان کو قبرستان بنائے رکھنا چاہتے ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251101-03-6
وجیہ احمد صدیقی
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات تاریخی طور پر پیچیدہ اور کشیدہ رہے ہیں، جن کی جڑیں دیرینہ سیاسی، جغرافیائی اور علاقائی مسائل میں ہیں۔ پاکستان نے اپنی خودمختاری اور قومی سلامتی کا دفاع کرتے ہوئے متعدد بار افغان سرزمین سے سرحد پار دہشت گردی کی کوششوں کی مذمت کی اور افغانستان سے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس تنازعے میں بھارت کا کردار بھی نہایت منفی اور پراثر ہے جو طالبان کو پاکستان مخالف کارروائیوں کے لیے اُکساتا ہے۔ مگر افغانستان کا قیام اور اس کا مستقبل اقتصادی و جغرافیائی حوالے سے پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات پر منحصر ہے کیونکہ یہ ایک لینڈ لاک ملک ہے جسے سمندر تک رسائی کے لیے پاکستان یا ایران کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
تاریخی تناظر یہ بتاتا ہے کہ سرحدی جھڑپیں اور ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ تنازع 1947 میں پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی ہے۔ افغانستان نے پاکستان کے مغربی سرحدی معاہدے ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کو تسلیم کرنے سے ہمیشہ انکار کیا۔ حالانکہ اس معاہدے پر افغان حکومت کے دستخط ہیں۔ اس سرحد کو لے کر کئی مرتبہ دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپیں اور چھوٹے اور بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ 1949-50 میں افغان فوجیوں اور قبائلی ملیشیاؤں کی طرف سے بلوچستان میں مبینہ حملوں کے واقعات سامنے آئے، جس پر پاکستان نے سخت ردعمل دیا۔ اس کے بعد 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں بھی متعدد بار کشیدگی بڑھی اور سرحد پر لڑائیاں ہوئیں۔ 2020 کی دہائی میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ 2024 اور 2025 میں بار بار سرحد پر فائرنگ، بمباری اور عسکری جھڑپوں کی خبریں آتی رہیں، جن میں دونوں ملکوں کے فوجی اہلکار اور غیر فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ ان جھڑپوں کا پس منظر مخصوص دہشت گرد گروہوں جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی کا افغان سرزمین پر محفوظ ٹھکانے رکھنا ہے جو پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔ اس دوران دونوں ملکوں نے کئی بار جنگ بندی کی کوشش کی لیکن دیرپا امن قائم نہیں ہو سکا۔ افغان طالبان کو یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ افغانستان بڑی طاقتوں کا قبرستان ہے۔ لیکن ان جنگوں نے سوویت یونین سے لے کر امریکا کی مداخلت تک افغانستان کو ہی قبرستان بنا دیا ہے۔ تو طالبان کیا افغانستان کو مسلسل قبرستان ہی کی حیثیت دیے رکھنا چاہتے ہیں یا وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کوئی کام کریں گے یا محض اپنے سارے پڑوسیوں سے جھگڑے کرتے رہیں گے؟ ان کا کوئی بھی پڑوسی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ ان کا سرحدی یا پانی کا تنازع نہ ہو۔ طالبان دہشت گردوں کو پناہ دے کر اپنے لیے ہی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ اس لیے وقت کا تقاضا یہ ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی جمہوری حکومت آئے جو افغان عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے اور اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرے۔ طالبان کی موجودگی میں افغان عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی امکان نہیں ہے۔
دہشت گردی کی مذمت میں پاکستان کا واضح موقف ہے کہ سرحد پار دہشت گردی انتہائی ناقابل قبول ہے اور اس کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ پاکستان نے افغان طالبان کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بنائیں۔ پاکستان کی فوج اور سیکورٹی ادارے مسلسل سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کر رہے ہیں تاکہ سرزمین کی حفاظت کی جا سکے۔ پاکستان کی یہ پالیسی ملکی سلامتی کے تناظر میں بالکل جواز رکھتی ہے اور عالمی قوانین کے مطابق بھی مستحسن ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی وجہ سے ہزاروں شہری اور فورسز کے اہلکار جان سے گئے۔ یہ حملے نہ صرف انسانی جانوں کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ملک کی معیشت اور ترقی کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کا احتجاج اور دفاعی اقدامات اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے ناگزیر اور جائز ہیں۔
بھارت کا کردار خطے میں امن کے قیام کے بجائے دہشت گردی کی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے چاہے وہ غیر ریاستی دہشت گرد ہوں یا بھارت کی طرح ریاستی دہشت گردی۔ طالبان کو پاکستان مخالف اُکسانا افغانستان کے تنازعے میں بھارت کا کردار منفی اور خطرناک ہے۔ بھارت طالبان سے قطع تعلق کے باوجود گزشتہ کچھ عرصے میں انہیں پاکستان کے خلاف اُکسانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ بھارت طالبان کو مالی اور عسکری حمایت فراہم کر کے انہیں پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے براہِ راست یا بالواسطہ مدد دے رہا ہے۔ اس کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا اور خطے میں اپنی جغرافیائی اور سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنا ہے۔ بھارت کی افغانستان سے کوئی سرحد نہیں ہے، اس لیے وہ افغانستان کو سمندر تک رسائی دینے والے راستوں کو مشکلات میں ڈال کر افغان معیشت کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں بھارت کی سیاست کو ’’بی جمالو‘‘ کے کردار کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یعنی جو اپنی ملکیت میں آنے والے دوسرے ملکوں کے لیے مشکلات پیدا کرے۔ اس کی وجہ سے افغانستان کے مسائل مزید گہرے اور پیچیدہ ہو رہے ہیں جبکہ یہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے خلاف سازش ہے۔
افغانستان کا مفاد پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات میں ہی مضمر ہے۔ افغانستان ایک لینڈ لاک ملک ہے اور سمندر تک رسائی کے لیے اسے پاکستان یا ایران کے راستے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جو افغانستان کو سمندری راستوں تک بہت آسانی سے رسائی فراہم کر سکتا ہے، لہٰذا افغانستان کے مفادات میں شامل ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات قائم رکھے۔ دوستی کی راہ اپنانے سے افغانستان نہ صرف اپنی معیشت بہتر بنا سکتا ہے بلکہ سرحدی تحفظ میں بھی بہتری آسکتی ہے۔ دہشت گردی کی حمایت چھوڑ کر افغانستان پاکستان کے ساتھ تعاون کرے تو دونوں ممالک کی سلامتی میں بہتری آئے گی اور خطے میں امن قائم ہو گا۔ پاکستان نے متعدد مواقع پر افغان طالبان سے مذاکرات کیے ہیں تاکہ سرحدی مسائل کو حل اور امن قائم کیا جا سکے، مگر بھارت کے اثرات اور دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں اس سلسلے میں رکاوٹ ہیں۔
اکتوبر 2025 میں دونوں ملکوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں کئی پاکستانی فوجی اور طالبان جنگجو ہلاک ہوئے۔ پاکستان نے افغان علاقوں میں دہشت گرد ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، جبکہ افغان طالبان نے بھی سرحدی چوکیوں پر حملے کیے۔ ان جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکی کی ثالثی میں ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت مختصر مدت کے لیے جنگ بندی ہوئی لیکن یہ مکمل طور پر برقرار نہ رہ سکی۔ یہ بات واضح ہے کہ دونوں طرف سے دہشت گردی کی سرگرمیاں ختم کیے بغیر دیرپا امن مشکل ہے۔ اس لیے خطے کے تمام فریقوں کو امن کے لیے سنجیدہ اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ جنگ نہ بڑھے اور عام شہری محفوظ رہیں۔
پاکستان کا موقف منطقی، درست اور تحفظ پر مبنی ہے کہ کسی بھی صورت میں دہشت گردی کو سرزمین پر پروان نہیں چڑھنے دیا جائے گا۔ افغانستان کے ساتھ دوستی خطے کی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہے، کیونکہ افغانستان کو سمندری راستہ پاکستان یا ایران کے ذریعے ملتا ہے۔ بھارت کی طالبان کو پاکستان مخالفت پر اُکسانا اور افغانستان میں مداخلت خطے میں عدم استحکام میں اضافہ کر رہی ہے، جسے روکا جانا چاہیے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے شمار قربانیاں دی ہیں اور امن کے لیے مذاکرات کی راہ اپنائی ہوئی ہے، امید ہے کہ افغانستان بھی اپنے مفادات کو سمجھتے ہوئے تعاون کرے گا تاکہ خطے میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔