شادی کے لیے اسلام قبول کرنا کیسا تجربہ تھا، شرمیلا ٹیگور نے ساری تفصیل بیان کردی
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
بالی ووڈ کی ماضی کی معروف اداکارہ شرمیلا ٹیگور نے ایک انٹرویو میں اپنی محبت کی کہانی سنائی اور بتایا کہ انہوں نے شادی سے قبل کیسے اسلام قبول کیا تھا۔
شرمیلا ٹیگور نے بتایا کہ جب انہوں نے منصور علی خان جنہیں ٹائیگر پٹودی بھی کہا جاتا تھا، سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تو انہیں معاشرتی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا کیونکہ منصور پٹودی اور شرمیلا ٹیگور دونوں مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے تھے اور اُس دور میں بین المذاہب شادیوں کا تصور آسان نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا سیف علی خان پٹودی محل کو میوزیم میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟
ایک انٹرویو میں شرمیلا ٹیگور نے یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے شادی کے لیے اسلام قبول کیا تھا اور ٹائیگر پٹودی نے ان کا نام عائشہ بیگم تجویز کیا تھا۔ شرمیلا نے اپنی ساس، نواب بیگم ساجدہ سلطان آف بھوپال سے پہلی ملاقات کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے کہا، جب میں پہلی بار اپنی ساس سے ملیں تو وہ بہت گھبرائی ہوئی تھیں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا، ’تم میرے بیٹے کے بارے میں کیا سوچتی ہو؟‘ میں نے انہوں نے جواب دیا، ’مجھے وہ پسند ہے‘۔ پھر انہوں نے سوال کیا، ’تمہارا ارادہ کیا ہے؟‘ جس پر شرمیلا نے کہا، ’مجھے ابھی تک کچھ نہیں پتا میں نے ابھی انہیں جاننا ہے۔ مجھے ان سے بہت محبت ہے اور آپ انہیں مجھ سے زیادہ عرصہ سے جانتی ہیں‘۔
سمی گریوال کے ساتھ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا، ’یہ نہ تو بہت آسان تھا اور نہ ہی بہت مشکل، لیکن اسے سمجھنا اور برداشت کرنا ضروری تھا‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے وہ مذہب سے خاص تعلق نہیں رکھتی تھیں لیکن اب انہیں لگتا ہے وہ ہندوازم اور اسلام کے بارے میں زیادہ سمجھتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: میرے دونوں بچے مذہب اسلام کی پیروی کرتے ہیں، سنیتا مارشل
اپنے ایک پرانے انٹرویو میں اداکارہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب وہ ٹائیگر پٹودی سے شادی کر رہی تھیں تو انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ ان کے والدین کو ٹیلیگرام مل رہے تھے جن میں کہا جا رہا تھا کہ گولیاں بولیں گی اور ٹائیگر کے خاندان کو بھی ایسی ہی دھمکیاں ملیں جس سے وہ کافی پریشان ہو رہے تھے تاہم اس کے باوجود شادی بالکل خیریت سے ہوگئی اور کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہیں آیا۔
واضح رہے کہ مشہور بھارتی اداکارہ شرمیلا ٹیگور کو اپنے دور کی بہترین اداکاراؤں میں سے ایک مانا جاتا تھا، یہاں تک کہ وہ فلم کے لیے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ بن گئی تھیں، انہوں نے اسلام قبول کیا اور مشہور کرکٹر منصور علی خان پٹودی سے شادی کی، جس کے بعد نام تبدیل کرکے عائشہ سلطانہ رکھا گیا۔
شرمیلا ٹیگور کی شادی نواب منصور علی خان پٹودی سے 27 دسمبر 1968 میں ہوئی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سیف علی خان شرمیلا ٹیگور منصور علی خان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سیف علی خان منصور علی خان منصور علی خان اسلام قبول انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں فلسطینیوں کیخلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہئے، ترکیہ
اپنے ایک جاری بیان میں یورو-میڈیٹیرین ہیومن رائٹس واچ کا کہنا تھا کہ غزہ کے اقصادی محاصرے کے خاتمے اور بلا مشروط انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے کیلئے عالمی برادری موثر تعاون کرے۔ جان بوجھ کر اس طرح کی غیر انسانی شرائط کو مسلط کرنا، نسل کشی کی واضح ترین مثال ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ "هاکان فیدان" نے کہا کہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار انقرہ میں وزارت خارجہ کی عمارت میں اپنے نارویجین ہم منصب "سپین بارت ایدہ" کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے غزہ میں انسانی صورت حال کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں 50 روز سے انسانی امدادکا داخلہ بند ہے۔ یہ صورت حال مزید جاری نہیں رہ سکتی۔ اسی سلسلے میں یورو-میڈیٹیرین ہیومن رائٹس واچ نے غزہ کی پٹی کی سنگین معاشی اور انسانی صورت حال سے خبردار کیا۔ اس ادارے نے اعلان کیا کہ غزہ کی مالی امداد روک کر اسرائیل نے منظم طریقے سے یہاں کے مکینوں کو تباہ کرنے کی ٹارگٹڈ پالیسی اپنائی ہے۔
غزہ میں نسل کشی کے آغاز سے صیہونی رژیم نے یہاں کسی بھی قسم کی امداد اور رقوم کو داخل ہونے سے روک رکھا ہے۔ یہ مالی محاصرہ غزہ میں شدید اقتصادی بحران پیدا کر رہا ہے اور فلسطینیوں کو اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ وہ بلیک مارکیٹ سے مہنگی قیمتوں پر اشیائے ضروریہ خریدیں جو کہ اُن کی مالی حالت کو مزید بگاڑ رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے اس ادارے نے مزید کہا کہ یہ اقتصادی دباؤ صرف غزہ کے اقتصادی ڈھانچے پر ہی حملہ نہیں بلکہ وہاں کی آبادی کو بھوک سے مرنے اور بتدریج تباہ کرنے کی صیہونی پالیسیوں کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس ادارے نے مطالبہ کیا کہ غزہ کے اقصادی محاصرے کے خاتمے اور بلا مشروط انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنانے کے لئے عالمی برادری موثر تعاون کرے۔ جان بوجھ کر اس طرح کی غیر انسانی شرائط کو مسلط کرنا، نسل کشی کی واضح ترین مثال ہے۔