موجودہ پروگرام آخری آئی ایم ایف پروگرام ہوگا: وزیرِ خزانہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام پاکستان کا آخری پروگرام ہوگا۔
غیر ملکی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ کے بعد پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری آئی ہے اور اقتصادی اصلاحات کی بدولت مہنگائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان چین کی مالیاتی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تیار ہے اور جلد ہی پاکستان اپنی یوان بانڈ مارکیٹ تک رسائی حاصل کرے گا۔
محمد اورنگزیب نے یہ بھی کہا کہ ہانگ کانگ میں کارپوریٹ اسٹاک لسٹنگز کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، اور رواں مالی سال کے اختتام تک پانڈا بانڈ کا آغاز متوقع ہے۔
وزیرِ خزانہ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ پاک چین مشترکہ منصوبے کی ہانگ کانگ میں لسٹنگ کی توقع ہے اور سی پیک دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چینی شہریوں کے لیے سیکیورٹی کے اقدامات مسلسل جاری ہیں، اور میڈیا میں جو صورتحال دکھائی جا رہی ہے، زمینی حقیقت اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
پاکستان: سمندر کی گہرائیوں میں چھپا خزانہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-2
پاکستان کے لیے یہ خبر کسی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں کہ دو دہائیوں بعد سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کے لیے 23 آف شور بلاکس کی کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں۔ پٹرولیم ڈویژن کے مطابق ان بلاکس کا مجموعی رقبہ 53 ہزار 510 مربع کلومیٹر پر محیط ہے، جب کہ پہلے مرحلے میں تقریباً 8 کروڑ امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی، جو ڈرلنگ کے دوران ایک ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ پیش رفت انرجی سیکورٹی اور مقامی وسائل کی ترقی میں ایک بڑی کامیابی ہے، جو پاکستان کی توانائی خودکفالت کے سفر میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ کامیاب بولی دہندگان میں پاکستان کی بڑی اور تجربہ کار کمپنیاں شامل ہیں، او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ماری انرجیز، پرائم انرجی، اور فاطمہ پٹرولیم، جنہوں نے مقامی سطح پر اپنی تکنیکی صلاحیت اور مالی ساکھ کو مستحکم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ترکیہ پٹرولیم، یونائیٹڈ انرجی اور اورینٹ پٹرولیم جیسے بین الاقوامی اداروں کی شمولیت اس منصوبے کو عالمی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش بناتی ہے۔ یہ اشتراک پاکستان کے اپ اسٹریم سیکٹر میں غیر ملکی اعتماد کی بحالی اور اس کے پوٹینشل کے بڑھتے ہوئے اعتراف کی علامت ہے۔ امریکی ادارے ڈیگلیور اینڈ میکناٹن کی جانب سے حالیہ بیسن اسٹڈی میں پاکستان کے سمندر میں 100 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ممکنہ ذخائر کا عندیہ دیا گیا ہے، جو اگر حقیقت میں تبدیل ہو جائیں تو پاکستان نہ صرف اپنی توانائی کی ضروریات خود پوری کر سکتا ہے بلکہ خطے میں توانائی ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس اندازے کی بنیاد پر ہی حکومت نے ’’آف شور راؤنڈ 2025‘‘ کا آغاز کیا، جو شاندار کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا۔ گزشتہ چند برسوں میں سامنے آنے والے اشارے بھی اس پیش رفت کی بنیاد بنے۔ 2024 میں ڈان نیوز نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان نے ایک دوست ملک کے تعاون سے تین سالہ سمندری سروے مکمل کیا ہے، جس سے تیل و گیس کے بڑے ذخائر کے مقام اور حجم کی نشاندہی ہوئی۔ اسی طرح 2025 میں نیوی کے ریئر ایڈمرل (ر) فواد امین بیگ نے چین کی مدد سے سمندر کی تہہ میں گیس کے ذخائر دریافت ہونے کی تصدیق کی، جس سے پاکستان کے سمندری وسائل کی اہمیت مزید اجاگر ہوئی۔ یہ تمام شواہد اور اعداد وشمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان کے پاس توانائی کے میدان میں ترقی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان امکانات کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ بدقسمتی سے ماضی میں کئی بار ایسے مواقع سیاسی عدم استحکام، پالیسی کے فقدان، اور تکنیکی کمزوریوں کی نذر ہوچکے ہیں۔