اے آئی چیٹ بوٹس سے مشورے لینے کا تیزی سے بڑھتا رجحان؛ ماہرین نفسیات نے خبردار کردیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
ماہرینِ نفسیات نے خبردار کیا ہے کہ اے آئی چیٹ بوٹس سے غیر ضروری بات چیت اور مشورے لینے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، جو انسان کو سماجی طور پر تنہا، ذہنی طور پر کمزور اور جذباتی طور پر غیر متوازن بنا رہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق اوپن اے کی طرف سے شائع کردہ ایک بلاگ پوسٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہر ہفتے ایک ملین سے زیادہ چیٹ جی پی ٹی صارفین ایسے پیغامات بھیجتے ہیں جن میں "ممکنہ خودکشی کی منصوبہ بندی یا ارادے کے واضح اشارے" شامل ہوتے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات نے خبردار کیا ہے کہ اے آئی چیٹ بوٹس سے غیر ضروری بات چیت اور مشورے لینے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، جو انسان کو سماجی طور پر تنہا، ذہنی طور پر کمزور اور جذباتی طور پر غیر متوازن بنا رہا ہے۔
ایسے افراد میں نہ صرف ڈپریشن اور انزائٹی کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے،بلکہ ان میں فیصلہ لینے کی صلاحیت بھی متاثر ہورہی ہے۔
اس حوالے سے معروف ماہرِ نفسیات پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال آفریدی نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کے دوران کہا کہ آج کل مصنوعی ذہانت کے استعمال سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، اے آئی کے درست استعمال سے بہت فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں، کیونکہ اس کے ذریعے گھنٹوں یا دنوں کا کام چند سیکنڈز میں مکمل ہوجاتا ہے، تاہم اس کے کچھ دور رس اثرات بھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اے آئی کے غیر ضروری استعمال سے ہم سماجی طور پر تنہا (سوشل آئسولیٹ) ہوگئے ہیں۔ پہلے کھانے کے وقت یا گھر میں بیٹھک کے دوران فیملیز آپس میں بات چیت کرتی تھیں مگر اب ہم کم بولتے ہیں۔ جب دماغ کو استعمال نہیں کیا جاتا تو وہ اپنی صلاحیت کھونے لگتا ہے۔ دماغی صلاحیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یوز اٹ آر لوز اٹ یعنی اگر اسے استعمال نہ کیا جائے تو صلاحیت ضائع ہوجاتی ہے۔
ڈاکٹر اقبال آفریدی نے کہا کہ پہلے زمانے میں بچوں کو گھڑ سواری، تیر اندازی اور طاقتِ گفتار جیسی تربیت دی جاتی تھی، لیکن آج کے ماحول میں گاڑی کوئی اور چلاتا ہے، چوکیداری کوئی اور کرتا ہے اور اب تو لکھنے کا کام بھی اے آئی کر دیتی ہے، جس کے باعث ذہنی صلاحیت کمزور پڑنے لگی ہے۔
ہمارے آباؤ اجداد گنتی زبان سے کرتے تھے مگر اب ہم کیلکولیٹر پر انحصار کرتے ہیں، اسی وجہ سے ہم ذہنی طور پر جمود (اسٹیگنینٹ) کا شکار ہوگئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جسمانی حرکت اور چہل قدمی سے دماغ میں خوشی پیدا کرنے والے کیمیکل ڈوپامین کی سطح بڑھتی ہے، مگر جو لوگ مختلف چیٹ بوٹس سے باتیں کرتے ہیں ان میں ڈپریشن کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ ان باتوں میں ہمدردی (ایمپیتھی) اور سچائی (سینسیریٹی) کا عنصر نہیں ہوتا۔
اگر آپ اپنے والدین، دوستوں یا ساتھیوں سے مسئلہ ڈسکس کریں تو اس میں انسانی جذبہ شامل ہوتا ہے، مگر چیٹ بوٹس صرف مشینی جواب دیتے ہیں، جس کے باعث انزائٹی، ڈپریشن اور حتیٰ کہ خودکشی کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اے آئی کے غیر ضروری استعمال سے غلط مشورے بھی ملتے ہیں۔ انسان میں جذبات اور دوسرے کے احساسات کو سمجھنے کی ایک قدرتی صلاحیت ہوتی ہے، لیکن چیٹ بوٹس کے استعمال سے یہ صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ اے آئی سے چیٹ کرنے سے بات کرنے کی صلاحیت اور الفاظ کا ذخیرہ کم ہوجاتا ہے، اس لیے ایسے لوگوں میں ذہنی دباؤ اور ڈپریشن زیادہ پایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر آفریدی نے کہا کہ ان افراد کا دماغ تو کام کرتا ہے مگر جسم متحرک نہیں رہتا، جس سے خوشی کے احساسات لانے والے نیوروٹرانسمیٹرز،خاص طور پر سیروٹونین کی سطح کم ہوجاتی ہے۔
اس کے نقصانات اسکرین کے زیادہ استعمال جیسے ہی ہیں ،ان علامات میں وزن میں اضافہ، نیند کی کمی، آنکھوں پر نیلی روشنی (بلو لائٹ) کا اثر، چڑچڑاپن اور اسکرین پر انحصار میں اضافہ شامل ہے۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر ہم اچھی نیند، متوازن خوراک اور دماغی مشقیں کریں، جیسے مختلف پزلز اور معمے حل کریں، تو ذہنی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ اے آئی پر ہر مشورہ نہیں لینا چاہیے کیونکہ اس سے جستجو اور فیصلہ کرنے کی طاقت کم ہوجاتی ہے۔
پروفیسر اقبال آفریدی نے واضح کیا کہ انسان کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔چیٹ بوٹس جذباتی دباؤ کم نہیں کرسکتے۔ مثال کے طور پر اگر آپ مسلسل گوگل میپ استعمال کریں تو کچھ عرصے بعد آپ کو راستے یاد نہیں رہیں گے، بلکہ غلط سمت میں بھی لے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح اے آئی پر انحصار دماغ کو محنت سے دور کر دیتا ہے جو آگے چل کر نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ڈیجیٹل ڈیٹاکسیفکیشن ضروری ہے، جس میں روزانہ اسکرین ٹائم دو گھنٹے سے کم رکھا جائے، غیر ضروری چیٹ بوٹس سے بات چیت سے پرہیز کیا جائے، اور دلچسپ فزیکل ایکٹیویٹیز اختیار کی جائیں۔ اے آئی کا استعمال صرف تعلیم یا ڈیٹا بیسڈ ریسرچ تک محدود رکھنا چاہیے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ لوگ نفسیاتی مسائل کو شرمندگی سمجھتے ہیں، اسی لیے اپنے مسائل چیٹ بوٹس سے شیئر کرتے ہیں، حالانکہ ان کے مشورے ہمیشہ درست نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک بعض قوانین عجیب ہیں، جیسے اگر شوہر خراٹے لیتا ہے تو بیوی طلاق لے سکتی ہے، اسی طرح چیٹ بوٹس بھی عقائد کے بارے میں درست رہنمائی نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی لکھے کہ اس میں پروٹین کی کمی ہے تو چیٹ بوٹ اسے سور کا گوشت کھانے کا مشورہ دے دیتا ہے۔ اس طرح کے غیر مناسب مشورے رشتوں میں دوریاں پیدا کر سکتے ہیں۔
ایکسپریس نیوز سے بات چیٹ کے دوران اے آئی چیٹ بوٹس سے بات کرنے والوں کا کہنا تھا کہ جب ہمیں لگتا ہے کہ کوئی سننے والا نہیں،تو ہم اس سے باتیں کرکے وقتی طور پر خود کو مصروف رکھتے ہیں،اوپر سے ہم اس سے کوئی ایسے موضوعات پر بات کرسکتے ہیں جو ہماری دلچسپی ہے،کیونکہ اس کی کوئی اپنی پسند تو ہوتی نہیں،تو یہ ہمارے موڈ کے حساب سے چلتا ہے،اس سے ہمیں یہ خوف محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ہمیں جج کرے گا یا ہمارے بارے میں سن کر کوئی رائے بنالے گا۔
ماہرینِ نفسیات کے مطابق اب متعدد چیٹ بوٹس آواز کے ساتھ اس انداز میں جواب دیتے ہیں کہ ان کے لہجے میں جذبات بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اگر بات کرنے والا شخص اداس ہو تو چیٹ بوٹ کی آواز میں بھی افسردگی نمایاں ہوتی ہے اور اگر وہ خوشی کی کوئی بات کرے تو چیٹ بوٹ خوش مزاج لہجے میں جواب دیتا ہے۔ یہی انداز صارف کو لگاؤ کا تعلق محسوس کرواتا ہے،جیسے وہ کسی سمجھنے والے سے گفتگو کر رہا ہو۔
کلینیکل سائیکولوجسٹ اور گیٹ وے کی نائب بانی ڈاکٹر اسما احمد نے کہا کہ اے آئی چیٹ بوٹس سے بات چیت کے کچھ فائدے ضرور ہیں، لیکن ان کا غیر ضروری استعمال ہمیں ان کے عادی بنا دیتا ہے۔ ان سے فوری جوابات تو مل جاتے ہیں، مگر حد سے زیادہ استعمال ہمیں انحصار کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہر مشورہ اے آئی سے لینا درست نہیں۔ لوگ تنہائی پسند ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ اب عادت صرف نشے کی نہیں بلکہ اسکرین کی بھی ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب لوگ معمولی علامات ظاہر ہونے پر بھی ڈاکٹر کے بجائے اے آئی سے پوچھتے ہیں، جو خطرناک ہے۔ سماجی تنہائی کی وجہ سے رشتے کمزور ہو رہے ہیں، لوگ ایک ساتھ بیٹھے بھی موبائل میں مصروف رہتے ہیں۔ کچھ افراد تو چیٹ بوٹس سے اس حد تک جڑ جاتے ہیں کہ ان کے نام بھی رکھ لیتے ہیں، لیکن ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کو حقیقت کی دنیا میں واپس لایا جائے کیونکہ اے آئی کے پاس جذبات نہیں ہوتے۔ جذباتی وابستگی کے لیے انسان کا کوئی متبادل نہیں۔
ڈاکٹر اسما احمد کے مطابق ہمارے معاشرے میں ذہنی صحت اب بھی ایک اسٹیگما ہے۔ بہت سے لوگ جو ڈپریشن یا انزائٹی میں مبتلا ہوتے ہیں، دوسروں سے بات کرنے سے گھبراتے ہیں، اس لیے وہ اے آئی چیٹ بوٹس سے اپنی باتیں شیئر کرتے ہیں، جو ان کے مسائل مزید بڑھا سکتی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق اے آئی چیٹ بوٹس استعمال کرنے والے افراد کے دماغ کا مخصوص حصہ ہی فعال رہتا ہے جبکہ باقی حصہ سست پڑ جاتا ہے، جس سے ان کی تنقیدی سوچ (critical thinking) متاثر ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچے اگر اسائنمنٹ میں اے آئی سے مدد لیتے ہیں تو ضروری ہے کہ معلومات کو چیک بھی کریں کہ وہ درست اور تازہ ہیں یا نہیں۔ اے آئی دماغ کے ڈوپامین ریوارڈ سسٹم کو متاثر کرتا ہے، جو خوشی کے احساسات پیدا کرتا ہے۔ بڑھتی عمر کے بچے جو والدین سے بات کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں، وہ اپنے سوالات چیٹ بوٹس سے پوچھنے لگے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو بغیر جج کیے سنیں اور ان سے کھلے ماحول میں بات کریں، ورنہ بچوں میں فیصلہ لینے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔
ایسے چیٹ بوٹس نہ صرف لوگوں کو تنہائی کا عادی بنا رہے ہیں بلکہ ان میں خود پسندی (نارسیسزم) کا رجحان بھی پیدا کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر اسما احمد نے کہا کہ نے مزید کہا کہ آج کل نارسیسزم (خود پسندی) ایک عام نفسیاتی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، جس میں انسان خود کو سب سے اہم سمجھتا ہے، دوسروں کی رائے برداشت نہیں کرتا، اور اپنی بات ہی زیادہ سننا چاہتا ہے۔ ایسے لوگ بھی اے آئی چیٹ بوٹس کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔
ڈاکٹر اسما نے مشورہ دیا کہ ایسے افراد کو ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے، ورنہ یہ رویہ نارسیسسٹک پرسنالٹی ڈس آرڈر میں بدل سکتا ہے۔اکتوبر کا مہینے میں ہم نے ذہنی صحت کی حوالے سے منایا جاتا ہے لیکن اس ہم سال پر مینٹل ہیلتھ پر کھل کر بات کریں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اے آئی چیٹ بوٹس سے انہوں نے کہا کہ چیٹ بوٹس سے بات سے بات کرنے استعمال سے ڈاکٹر اسما اے آئی سے کہ اے آئی اے آئی کے ہوتے ہیں متاثر ہو کے مطابق کرتے ہیں رہے ہیں پیدا کر دیتا ہے ہوتی ہے کرتا ہے جاتا ہے بات چیت سے لوگ رہا ہے
پڑھیں:
ایس پی عدیل اکبر،محض ایک دن قبل معروف ماہر نفسیات سے رجوع کیا ، موت کوئی حادثہ تھی یا خودکشی
اسلام آباد(ممتاز نیوز) اسلام آباد پولیس کے ایس پی عدیل اکبر کی خود کشی کے معاملے پر تازہ ترین معلومات کے مطابق واقع سے محض ایک دن قبل معروف ماہر نفسیات سے رجوع کیا ، ڈاکٹر کے مطابق ایس پی عدیل اکبر ڈپریشن کا شکار تھےاور انہیں فوری طور پر ہسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا مگر وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہسپتال سے واپس چلے گئے ۔ معروف سینئر صحافی و کالم نویس محمد بلا ل غوری نے اپنے تازہ کالم میں اس واقع سے متعلق اہم انکشافات کئے ہیں۔
اسلام آ باد پولیس کے نوجوان افسر عدیل اکبر کی موت کوئی حادثہ تھی، خودکشی یا پھر قتل جب تک تفتیش مکمل نہ ہو جائےاس بارے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا ۔22اکتوبر2025ء کی شام یعنی خودکشی سے محض ایک دن پہلے انہوںنے ایک معروف ماہر نفسیات سے رجوع کیا۔ڈاکٹر حافظ سلطان محمد جو اسسٹنٹ پروفیسر اور کنسلٹنٹ سائیکاٹرسٹ ہیں انہوںنے ایس پی عدیل کی موت کے چند گھنٹوں بعد اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ شیئر کی جس میں بتایا کہ گزشتہ شب عدیل ان کے پاس علاج کیلئے آئے تو انہوںنے بتایا کہ وہ ڈپریشن کے باعث شدید خطرات سے دوچار ہیں اور انہیں فوری طورپر پمز کے پرائیویٹ روم میں داخل ہوجانا چاہئے۔وہ سیڑھیاں اُتر کر نیچے گئے اور اپنی بیوی کے ساتھ واپس آکر بتایا کہ وہ اپنی قوت ِارادی کے بل بوتے پر ڈپریشن کے اس مرض پر قابو پالیں گے۔ڈاکٹر نے ان کی اہلیہ سے کہا کہ کسی بھی قسم کے ہتھیار اور بلیڈ وغیرہ ان کی پہنچ سے دور رکھیں،قسمت کے فیصلے دیکھیں کہ 24گھنٹوں سے بھی کم وقت میں یہ واقعہ پیش آگیا۔اس پوسٹ کے بعد ڈاکٹر حافظ سلطان محمد پر اس حوالے سے تنقید ہونے لگی کہ انہوںنے اپنے مریض سے متعلق معلومات شیئر کرکے پیشہ ورانہ اخلاقیات اور اصولوں کی خلاف ورزی کی چنانچہ ڈاکٹر سلطان نے کچھ دیر بعد ہی یہ پوسٹ ڈیلیٹ کردی۔مگر ان کی پوسٹ سے یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ ایس پی عدیل اکبرڈپریشن کے مرض میں اس حد تک جا چکے تھے جہاں کسی بھی کمزور لمحے میں خود کشی کی جاسکتی ہے۔جو لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ ایک پولیس افسر کیسے خود کشی کرسکتا ہے ،انہیں شاید معلوم نہیں کہ ڈپریشن ایک ایسا خوفناک مرض ہے جو نہ انسان کا عہدہ دیکھتا ہے اور نہ ہی سماجی حیثیت اور یہ اس نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اسے قبل اعلیٰ عہدوں پر تعینات لاتعداد سول سرونٹس خودکشی کرچکے ہیں۔شاید آپ کو یاد ہو کہ 28نومبر 2023ء کو ملٹری کنٹونمنٹ بورڈ کے چیف ایگریکٹو آفیسر بلال پاشا نے اپنی سرکاری رہائشگاہ میں خود کو گولی مار کر زندگی سے نجات حاصل کرلی تھی۔ جنوری 2022ء میں اسی طرح کا ایک واقعہ تب پیش آیا جب ایڈیشنل کمشنر ریویونیو عمران رضا عباسی نے لاہور میں پھندہ لیکر خودکشی کرلی۔ جنوری2020ء میں ایس پی ابرار حسین نیکوکارہ، جو روات میں پولیس ٹریننگ اسکول کے پرنسپل کے طور پر تعینات تھے، نے سروس پسٹل سے خود کشی کر لی۔ اسی طرح مارچ 2018ء میں ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ سہیل ٹیپو کی پنکھے سے جھولتی لاش برآمد ہوئی۔ڈی پی او ننکانہ شہزاد وحید ،اکاؤنٹس گروپ کی نبیحہ چوہدری اور پھر جولائی 2016ء میں اے آئی جی اسلام آباد اشعر حمید پولیس لائنز ہیڈ کوارٹر h-11میں مردہ پائے گئے۔ان سول سرونٹس کی زندگی بظاہر تو بہت پرکشش محسوس ہوتی ہے مگر یہ لوگ نہ صرف شدید ترین ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں بلکہ چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے صورتحال مزید گھمبیر ہوجاتی ہے ۔گھریلو پریشانیاں ،اعلیٰ حکام کی سرزنش ،پانے کا خمار ،کھونے کا آزار ،شوق ِکمال ،خوف ِزوال ،زہر کی مانند رگوں میں اُترتا چلا جاتا ہے اور بظاہر صحت مند دکھائی دینےوالا باوقار انسان کب ڈپریشن کی دلدل میں دھنس جاتا ہے ۔
معروف صحافی محمد بلا ل غوری کے حوالے سے اسلام آ باد پولیس کے نوجوان افسر عدیل اکبر کی موت نے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ 23اکتوبر 2025ء کا دن تھا دوپہر کے وقت انہوں نے اسلام آباد حاجی کیمپ کا دورہ کیا اور وہاں سیکورٹی انتظامات کا جائزہ لیا ۔تقریباً ساڑھے چار بجے جب وہ اسلام آباد کی شاہراہ دستور سے دفترجارہے تھے تو گاڑی میں انہو ں نے مبینہ طور پر خود کو گولی مارکر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔GCUلاہور کے گریجویٹ عدیل اکبر نہایت قابل اور ذہین نوجوان تھے ،انہوںنے دو بار سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا ۔پہلی بار آفس مینجمنٹ گروپ ملا تو انہوںنے دوبارہ طبع آزمائی کا فیصلہ کیا تاکہ پولیس سروس کو جوائن کرسکیں۔ آخرکار2017ء میں سی ایس ایس کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کی تو 46ویں کامن گروپ کے ذریعے پولیس افسر بھرتی ہوئے ۔ان کی افسوسناک موت کے حوالے سے ایک دعویٰ یہ ہےکہ امریکہ میں ماسٹرز کیلئے عدیل اکبر کو فل برائٹ اسکالر شپ ملا تھا مگر اسلام آباد پولیس کی طرف سے چھٹی نہیں دی گئی ،اس لئے وہ ڈپریشن میں تھے۔اگر آپ امریکی اسکالر شپ کے حوالے سے زیر گردش لیٹر کو بغور دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوںنے اگلے برس امریکہ جانا تھا تو پھر فوری طور پر چھٹی نہ ملنے کی بات ناقابل فہم ہے ۔ہاں البتہ ایس پی عدیل اکبر کو ڈینگی بخار ہوا تو انہوںنے 20اکتوبرسے22اکتوبر تک میڈیکل لیو کی درخواست دی جو منظور نہیں کی گئی ۔بعض لوگ یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ ایس پی عدیل اکبر نے گاڑی میں اپنے ماتحت سے ایس ایم جی لیکر خودکو گولی ماری تو کسی نے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟لہٰذا یہ خودکشی نہیں قتل کی واردات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایس پی عدیل اکبر نے پوچھا کہ گاڑی میں کون کون سا ہتھیار ہے،دکھائیں؟اس پر اہلکار نے میگزین اُتار کر ایس ایم جی پکڑائی تو انہوں نے کہا میگزین بھی دو،جب عدیل اکبر نے گن لوڈ کی تو ان کے ماتحت یہی سمجھے کہ وہ اسے چیک کرنا چاہ رہے ہیں۔ماتحت پولیس اہلکار کو کیا معلوم تھاکہ وہ پلک جھپکنے میں خود پر گولی چلالیں گے۔خودکشی کی وجوہات کے تناظر میںیہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایس پی عدیل اکبر کے تمام کورس میٹ اگلے رینک میں پروموٹ ہوگئے اور انہیں ترقی نہیں دی گئی ،لہٰذا وہ مایوس اور نااُمید تھے ۔ مگر میں یہ بات سمجھ سے باہر ہےکہ اس قدر اہم منصب پر براجمان شخص اس قدر کمزور اعصاب کا مالک ہوسکتا ہے کہ معمولی سی بات پر خودکشی کرلے ۔ دستیاب معلومات اور تفصیلات کے مطابق خودکشی کا فیصلہ کسی اضطراری ردعمل کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ عدیل اکبر طویل عرصہ سے ڈپریشن کا شکار تھے ۔ ان کے سوشل میڈیا ،بالخصوص گزشتہ چند برس کی ٹویٹس کابغور جائزہ لیا جائے تو ان کے ذہنی تناؤ کا اندازہ ہوتاہے۔مثال کے طورپر28اپریل 2022ء کو انہوںنے یہ شعر پوسٹ کیا’’قید کرتا ہوں حسرتیں دل میں ،پھر انہیں خودکشی سکھاتا ہوں‘‘۔14جولائی 2023ء کو لکھا”آپ کی غلامی کابوجھ ہم نہ اُٹھائیں گے،آبرو سے مرنے کا فیصلہ ہمارا ہے‘‘۔عدیل اکبر اس صورتحال سے نکلنے کی کوشش بھی کررہے تھے ۔