Daily Ausaf:
2025-08-01@16:56:06 GMT

ہائے موت،تجھے موت ہی آئے

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

موت کیا ہے؟ محض کشمکش حیات؟ ….انسان سمجھتا ہے اس نے بہت سیکھ لیا ، بہت ترقی کرلی ، دنیا تسخیر کرلی ، حقیقت صرف اتنی ہے کہ ایک سانس ، محض ایک سانس…. جس پر اس کا کوئی اختیار ہی نہیں، کتنا ہی بڑا سائنسدان ہو ، ڈاکٹر ہو ، صاحب اختیار ہو ،دبنگ جرنیل یا جج ہو ، جو سانس اند ر کھینچتا ہے،کیا وہ اسے باہر نکالنے پر قادر ہے ؟ جب رب کا حکم آجائے تو اٹھا ہوا قدم زمین پر رکھنے اور زبان پر آئی بات نطق سے اداکرنے کی مہلت نہیں ملتی ….

سامنے پڑا ہے ، سفید لباس اوڑھے ،ہمیں کتنا ہی پیارا کیوں نہ ہو ، بات کرنے، جواب دینے کی سکت نہیں رکھتا ، جس اولاد کے ایک آنسو پر سب کچھ تہہ وبالا کردیتا تھا ، بے چین ہوجاتا تھا ، تڑپ اٹھتا تھا، وہی اولاد اب روتی ہے ، بلکتی ہے ، مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا ،سنتا ہی نہیں ، سننے کی سکت ہی نہیں رکھتا ، کیوں ؟ کہ اب سانس باقی نہیں رہی ، زندگی تمام ہو چکی ۔ وہ باپ ، جو ایک لمحے کو اس کی تکلیف برداشت نہیں کر تا تھا ، وہ ماں جو ایک منٹ آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھی ، وہ بھائی جو اس کے لئے دنیا سے لڑ جایا کرتے تھے ، اب جلدی میں ہیں ، تاکہ اسے اندھیری قبر میں اتار سکیں ، کیو ں ؟ کہ جانتے ہیں، اب یہ ہمارا نہیں رہا ، جس کی امانت تھی وہ لے گیا۔ بس اتنی سی حقیقت ہے ، مجبور ، مجبور محض ۔ خالق نے چاہا تو دنیا میں آگئے ، اب اسکی مرضی ہے تو لے گیا۔ سوال یہ ہے کہ کوئی بھی ہو ، کسی مذہب کو مانتاہو ، کسی ملک معاشرے کا رہنے والا ہو ، انجام یہی ہے ، تو پھر تکبر کس بات کا ؟ غرور کس چیز پر ؟مان کس شئےکا ؟
کس قدر دھوکے میں ہیں ہم ، کتنی بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ یہی سوال تو خالق ارض وسماء بھی کر رہا ہے کہ یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِ( اے انسان تجھے کس نے اپنے کریم رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔) ایک دوسری جگہ فرمایا ’’وَمَا الحَيو‌ٰةُ الدُّنيا إِلّا مَتـٰعُ الغُر‌ورِ‌ ‘‘دنیا کی زندگی صرف دھوکہ ہے.. اور فرمایا:فَلا تَغُرَّ‌نَّكُمُ الحَيو‌ٰةُ الدُّنيا وَلا يَغُرَّ‌نَّكُم بِاللَّهِ الغَر‌ورُ‌ ‘‘ ( دنیاوی زندگی کے فریب میں نہ آجانا اوردھوکے باز (شیطان) تمہیں اللہ کےحوالےسے دھوکے میں نہ ڈال دے۔) ہماری حقیقت تو بس اتنی ہی ہے کہ کل نفس ذائقۃ الموت ۔تو پھر سدھر کیوں نہیں جاتے؟اپنی مان کر تو ہم سراسر خسارے میں ہیں ، میں نہیں کہہ رہا میرے رب کا فرمان ہے ۔’’ ان الانسان لفی خسر ‘‘ بے شک انسان خسارے میں ہے ۔ سوائے اس کے کہ ’’ اِلَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ‘‘ (جو ایمان لائے ، صالح عمل کئے ، حق بات کی تلقین کی اور صبر کی تبلیغ کرتے رہے۔) دل غم و اندوہ سے بھرا ہے ،آنکھیں اشک بار ہیں اور دماغ میں وساوس کی گھن گرج ،ایک ہی آواز کاسہ استخوانی میں گونج رہی ہے کہ جب ہر حال میں انجام انا لله و انا الیه راجعون ہی ہے (ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ) تو پھر اسی کے کیوں نہ ہوجائیں ؟ وہ روز پانچ وقت بلاتا ہے ، ہم ایسے بد قسمت ہیں کہ بلانے پر نہیں جاتے ، وہ روز پیغام بھیجتا ہے کہ ’’ہوش کرو واپس بھی آنا ہے ۔‘‘ ہم پرواہ ہی نہیں کرتے ۔ جب میرا باپ ، میرا بھائی میرے سامنے دنیا سے جاتا ہے ، جب میں اپنے عزیز ازجان دوست کا جنازہ کندھوں پراٹھاتا ہوں تو کیا یہ بلاوا نہیں ، واپسی کی یا ددہانی نہیں ؟ میری مسجد میں جب اعلان ہوتا ہے کہ فلاں کا بیٹا فلاں دنیا چھوڑ گیا ، جب اخبار میں خبر شائع ہوتی ہے کہ فلاں جرنیل ، فلاں حکمران فلاں جج وفات پاگیا ، یعنی جو خود کو ناگریز سمجھتا تھا ، وہ اپنی مرضی سے ایک دن کیا ایک سیکنڈ میں اپنی مرضی سے نہیں رہ سکا تو کیا یہ میرے لئے پیغام نہیں ؟ جب ان ناگزیروں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں تو تیری کیا اوقات ؟ جب خبر آتی ہے کہ فلاں سائنس دان ، فلاں ڈاکٹر ، فلاں عالم ، محدث ، مجتہد نہیں رہا ، تو کیا یہ میرے لئے پیغام نہیں ؟ المیہ صرف یہ ہے کہ ہم دھوکے میں ہیں ، صریحاً دھوکے میں۔ جانتے ہیں جب وقت آجائے تو چاہے جان بچانے والی مشینوں کا اژدھام ہو تو بھی مانیٹر پر دل کی دھڑکن اٹھکیلیاں چھوڑ کر سیدھی لکیر بن جاتی ہے ، بڑے سے بڑے ڈاکٹر نبض ہاتھ میں پکڑے رہ جاتے ہیں اور نبض ڈوب جاتی ہے ۔ جانتے ہیں ، روز ہمارے سامنے زندگی موت سے ہار ہار جاتی ہے ، مگر مانتے نہیں ، کیوں ؟ رب بھی تو یہی پوچھ رہا ہے ناں کہ ’’ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِ ‘‘ جس زندگی پر ہم نازاں ہیں ، وہ ہے کیا ؟ میرا رب کہتا ہے ’’ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّی‘‘( انہیں بتا دیں ، یہ (صرف ) میرا حکم ہے ۔) کسی عرب شاعر نے ہماری واپسی کی کیا منظر کشی کی ہے ، امام ابن جوزی لکھتے ہیں،مام احمد بن حنبلؒ انہیں سن کر زاروقطار رونے لگے تھے۔
إذا ما قال لي ربي أما استحييت تعصيني
وتخفي الذنب عن خَلقي وبالعصيان تأتيني
فكيف أُجيب يا ويحي ومن ذا سوف يحميني
أُسلي النفــس بالآمـال من حينٍ إلى حيني
وجاءت سكرة الموت الشديدة من سيحميني
نظرتُ إلى الوُجوهِ أليس منُهم من سيفديني
سأُسئَل ما الذي قدمت في دنياي ينجيني
فكيف إجابتي من بعد ما فرطت في ديني
فيا ربــــاه عبدٌ تــائبٌ من ذا سيؤويني
سِوى ربٍ غفورٍ واسعٍ للحقِ يهديني
أتيتُ إليكَ فارحمني وثقِل في موازيني
وخفِف في جزائي أنتَ أرجـى من يجازيني
(اگر رب نے پوچھا، ” نافرمانی کرتے شرم نہیں آئی؟
تم مخلوق سے گناہ چھپا لئے،میرے پاس نافرمانی کے ساتھ آتے ہو۔
تب تب میں کیا کہوں گا ، بھلا کیسے بچ پائوں گا
اپنے دل کو جھوٹی تسلی دے کر میں کیسے چین پاسکوں گا
وہ دیکھو موت کی سختی، مجھے کون بچا سکتا ہے
میں نے چہرے دیکھے ،کوئی نہیں جو مجھے چھڑائے
سوال ہوگاکہ آج کے دن خود کو بچانے کے لئے کیا کیا ؟
جب دین بھللادیا تو میں کیا جواب دے سکوں گا
میں نادم ہوں مرے رب اور تو ہی اک سہارا ہے
تری بخشش تری رحمت یہی بس اک سہارا ہے
الہی رحم کر مجھ پر تو بے حد رحم والا ہے
ترا ہی آسرا ہے تو نرالی شان والا ہے)

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہی نہیں میں ہیں

پڑھیں:

موضوع: اہلبیت امام حسین علیہ السلام اور احیائے دین

دین و دنیا پروگرام اسلام ٹائمز کی ویب سائٹ پر ہر جمعہ نشر کیا جاتا ہے، اس پروگرام میں مختلف دینی و مذہبی موضوعات کو خصوصاً امام و رہبر کی نگاہ سے، مختلف ماہرین کے ساتھ گفتگو کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ ناظرین کی قیمتی آراء اور مفید مشوروں کا انتظار رہتا ہے۔ متعلقہ فائیلیں 

پروگرام دین و دنیا
موضوع: اہلبیت امام حسین علیہ السلام اور احیائے دین
مہمان: حجہ الاسلام و المسلمین سید ضیغم ہمدانی
میزبان: محمد سبطین علوی
موضوعات گفتگو:
احیائے دین سے مراد اور اس کی ضرورت
بی بی زینب سلام اللہ علیہا کا کردار
امام سجاد ؑکا احیائے دین میں کردار
خلاصہ گفتگو
احیائے دین سے مراد اسلام کی اصل تعلیمات کو زندہ کرنا، دین کے مقاصد اور روح کو معاشرے میں دوبارہ فعال بنانا ہے۔ جب دین کو تحریف، ظلم یا جمود کا سامنا ہو، تو احیائے دین کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ واقعۂ کربلا اسی احیائے دین کی سب سے روشن مثال ہے۔
 
بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے اس تحریک کو قیادت، بصیرت، اور خطابت کے ذریعے زندہ رکھا۔ کوفہ و شام کے درباروں میں آپ نے باطل کو للکارا اور مظلومیتِ حسینؑ کو دنیا کے سامنے آشکار کیا۔
 
امام زین العابدینؑ نے احیائے دین کا فریضہ صبر، دعا، مناجات، اور حکمت سے انجام دیا۔ آپؑ نے صحیفہ سجادیہ اور دعاؤں کے ذریعے امت کو بیدار کیا اور یزیدی نظام کی حقیقت بے نقاب کی۔
 
یہ دونوں ہستیاں کربلا کے بعد دین کو فقط محفوظ نہیں، بلکہ دوبارہ زندہ اور جاری کرنے والی عظیم شخصیات بن گئیں۔
 
 

متعلقہ مضامین

  • غزہ کی صورت حال پر پوری دنیا کو بیدار ہونا پڑے گا، حاجی حنیف طیب
  • موضوع: اہلبیت امام حسین علیہ السلام اور احیائے دین
  • محبت کی فتح؛ لو اسٹوری فلم سَیّارا” نے دنیا بھر کے باکس آفس پر تہلکہ مچا دیا
  • یوم آزادی تقریبات؛ سکھر کی تاریخ کا سب سے بڑا جشن 10 اگست کو منعقد ہوگا
  • ہائے چینی ۔۔ ہائے مہنگائی
  • محبت کی فتح؛ لو اسٹوری فلم سَیّارا نے دنیا بھر کے باکس آفس پر تہلکہ مچا دیا
  • اب تو سوچ بدلیں کہ دنیا بدل گئی!
  • روس کا دنیا کے جدید ترین اور تباہ کن کروز میزائل کا تجربہ 
  • غزہ میں غذائی قلت ،میری بیٹی کو بچا لیں ،ماں کی دنیا سے فریاد
  • روس میں شدید زلزلے کے بعد دنیا کا بلند ترین آتش فشاں پھٹ پڑا