عدالت دیکھنا چاہتی ہے ملٹری کورٹس ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا، جسٹس حسن رضوی WhatsAppFacebookTwitter 0 16 January, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (آئی پی ایس )سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس حسن رضوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل جاری ہیں جس میں انہوں نے کہا کہ سیکشن 2(1) ڈی ون اگر درست قرار پاتا ہے تو نتیجہ کیا ہوگا، قانون کے سیکشنز درست پائے تو یہ ٹرائل کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت تھیں، ملٹری ٹرائل میں پورا پروسیجر فالو کیا جاتا ہے۔

جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ عدالت نے آپ سے ملٹری ٹرائل والے کیسز کا ریکارڈ مانگا، تھا، عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا۔خواجہ حارث نے مقف اپنایا کہ عدالت کو ایک کیس کا ریکارڈ جائزہ کیلئے دکھا دیں گے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے پروسیجر دیکھنا ہے کیا فئیر ٹرائل کے ملٹری کورٹ میں تقاضے پورے ہوئے۔خواجہ حارث نے کہا کہ ہائی کورٹس نہ ہی سپریم کورٹ میرٹس کا جائزہ لے سکتی ہے، جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ عدالت نے ٹرائل میں پیش شواہد کو ڈسکس نہیں کرنا، عدالت محض شواہد کا جائزہ لینا چاہتی ہے، نیچرل جسٹس کے تحت کسی کو سنے بغیر سزا نہیں ہو سکتی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اگر قانون کے سیکشنز درست قرار پائے تو درخواستیں نا قابل ، سماعت ہوگی، عدالت بنیادی حقوق کے نقطہ پر سزا کا جائزہ نہیں لے سکتی۔خواجہ حارث نے استدلال کیا کہ پانچ رکنی بینچ نے قابل سماعت ہونے کے نقطہ کا جائزہ درست نہیں لیا، عدالت ٹرائل کے ریکارڈ کا میرٹ پر جائزہ بھی نہیں لے سکتی، ایف بی علی کیس میں جرم ہوا تو ملزمان سروس سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے، زندگی کا حق اور فئیر ٹرائل شروع سے ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے نہ بھی ہو تب بھی پروسیجر تو فالو کرنا ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آرٹیکل 8(3) میں بنیادی حقوق واپس لے لیے گئے ہیں۔

خواجہ حارث نے مقف اپنایا کہ یہ آرٹیکل 1973 سے آئین میں شامل ہے، ایف بی علی کیس میں ملزمان کے فئیر ٹرائل کا جائزہ بھی لیا گیا تھا، جہاں آرٹیکل 8 ذیلی سیکشن 3 کا اطلاق ہو گیا بنیادی حقوق ختم ہوگئے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سوال یہ ہے کیا سویلین کے ملٹری ٹرائل والی قانون میں ترمیم ہو سکتی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 2010 میں آیا، فوجداری ضابطہ 1898 کا ہے، ضابطہ فوجداری میں ٹرائل کو پورا طریقہ کار دیا گیا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ فئیر ٹرائل کے آرٹیکل 10 اے کی ضرورت کیوں پیش آئی، خواجہ حارث نے استدلال کیا کہ آرٹیکل 10 اے پہلے بھی فئیر ٹرائل کے مختلف آرٹیکلز موجود تھے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ آرمی ایکٹ کا بنانے کا مقصد کیا ہے، ایکٹ کا مقصد آرمڈ فورسز میں ڈسپلن قائم کرنا ہے یا کریمینل سرگرمیوں کا چیک کرنا۔خواجہ حارث نے مقف اپنایا کہ آرمی ایکٹ کا مقصد آرمڈ فورسز کی سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ نہ آئے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا کریمینل سرگرمیوں کی الگ سے قانون سازی ہوتی تو یہ مسائل نہ ہوتے، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قانون میں بہتری کا عمل ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔

جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ آرمڈز فورسز کے افسران جوانوں کو ڈیل کرتا ہے، 1967 میں ترمیم کرکے 2 ون ڈی ون سیکشن شامل ہوا، اس ترمیم سے قانون میں ” کوئی بھی شخص ” کے الفاظ شامل کر دیئے گئے، ان الفاظ کی قانون میں شمولیت سے ریٹائرڈ افسران بھی ملٹری ٹرائل کے دائرے میں اگئے، اگر یہ 2 ون ڈی ون کالعدم برقرار رہتا ہے تو پھر کسی ریٹائرڈ افسر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکے گا۔

جسٹس نعیم افغان نے مزید کہا کہ سیکشن کالعدم ہونے سے ایف بی علی بھی بڑی ہو جائیگا، سیکشن کالعدم برقرار رہنے کسی ریٹائرڈ کا ملٹری ٹرائل ہو رہا تو وہ بھی ختم ہو جائیگا، آئین میں 10 اے آنے کے بعد بھی آج فیئر ٹرائل پر عدالتوں میں بات ہوتی ہے۔

جسٹس نعیم افغان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قانون میں ترمیم سے پہلے ریٹائرڈ افسران ملٹری ٹرائل میں آئے، لگتا ہے قانون میں شامل ” کسی بھی شخص ” کے الفاظ کا درست تعین نہیں ہوا، قانون میں شائد یہ سقم راہ گیا ہے، سویلین کے ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم کرنا پڑی۔خواجہ حارث نے کہا کہ آئینی ترمیم کسی اور وجہ سے کی گئی۔

دوران سماعت عدالت عظمی نے وزارت دفاع سے سویلین کے ابتک ملٹری ٹرائل کی تفصیلات مانگ لی۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کلبھوشن۔ کے علاوہ ابتک کتنے سویلین کا ٹرائل ہوا ڈیٹا کیساتھ جواب دیدیں۔اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوشش کریں کل دلائل مکمل کر لیں، خواجہ حارث نے کہا کہ میں پوری کوشش کروں گا۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث نے کہا کہ جسٹس حسن رضوی ملٹری ٹرائل ملٹری کورٹ ٹرائل کے کا جائزہ کہ عدالت

پڑھیں:

جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد ادارے میں کیا کچھ بدلا؟

پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ ایک دوسرے کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے اور عام طور پر عدلیہ خاص طور پر سپریم کورٹ سے صادر ہونے والے فیصلے ملک کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے گزشتہ سال 26 اکتوبر کو اپنے عہدے کا حلف لیا اور اب تک وہ 7 ماہ سے زیادہ عرصے سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔ اُنہوں نے اپنے 7 ماہ کے عرصے میں بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ خود کو سیاسی معاملات سے الگ کر کے انتظامی معاملات پر زیادہ توّجہ مرکوز کی ہے اور انتظامی سطح پر کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جیسا کہ کیس مینجمنٹ سسٹم میں تبدیلی، جیل اصلاحات، فوجداری مقدمات کی جلد شنوائی وغیرہ۔

یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ میں عوامی سہولت مرکز کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی ترجیحات کا اگر جائزہ لیا جائے تو اُس میں سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں خاطر خواہ کمی، عدالتی نظام کی جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ منسلکی، پیپر لیس عدالتی نظام، عدالتی اصلاحات کے حوالے سے وسیع پیمانے پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت، لا اینڈ جسٹس کمیشن میں غیر سرکاری اراکین کے طور پر ریٹائرڈ ججز کے ساتھ ساتھ وکلا کی نمائندگی، عدلیہ میں احتساب کا نظام اور جیل اصلاحات شامل ہیں۔

کچھ حلقوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ بدلاؤ ایک اچھا فیصلہ ہے جب کہ کچھ حلقے اس امر پر شاکی نظر آتے ہیں کہ سیاسی حوالوں سے اہم مقدمات جو کہیں نہ کہیں عدالتی فیصلوں کے ذریعے ملک میں بے چینی کی فضا کو ختم کرنے کے لیے لازمی ہیں، اُن پر توجہ دیے جانے کی ضرورت ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ آئینی نوعیت کے سیاسی اثرات کے حامل مقدمات اب سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے پاس زیرِ سماعت آتے ہیں اور اُن کے فیصلوں میں براہِ راست چیف جسٹس کا عمل دخل نہیں ہوتا۔

26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا اور پھر چیف جسٹس نے 26 ویں آئینی ترمیم میں دیے گئے آئینی بینچ کی تشکیل کی جس نے 14 نومبر 2024 سے باقاعدہ سماعتوں کا آغاز کیا۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی عدالتی اصلاحات کتنی کارگر؟

21 مئی کو جاری کیے گئے سپریم کورٹ اعلامیے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے 7 ماہ میں 52 فیصد سزائے موت کے مقدمات نمٹا دیے اور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی قیادت میں سپریم کورٹ نے اس تیزی سے کام کیا ہے جس کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی۔

چیف جسٹس کے 28 اکتوبر 2024 سے لے کر 21 مئی 2025 تک لگ بھگ 7 ماہ کے اندر عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کے 238 مقدمات کے فیصلے کیے ہیں جو 454 زیر التوا مقدمات کا 52 فیصد بنتے ہیں۔

جب چیف جسٹس نے حلف لیا تو سزائے موت کی 410 اپیلیں زیر التوا تھیں، بعد میں 44 اور دائر ہوئیں لیکن جلد فیصلوں کی بدولت اس وقت زیر التوا اپیلوں کی تعداد 216 ہے۔

’چیف جسٹس کے پہلے 100 دن‘

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے پہلے 100 دنوں کے اندر عدالتی نظام کو سہل بنانے کے لیے جو سب سے اہم کام کیا وہ الیکٹرانک بیان حلفی یا ای ’ایفی ڈیوٹ‘ کا اجرا اور فوری مصدقہ نقل کا حصول تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے احتساب کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کے لیے علیحدہ سیکریٹریٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اپنے پہلے 100 دن میں زیر التوا مقدمات میں تین ہزار کی بڑی کمی کی۔ سپریم کورٹ نے 8 ہزار ایک سو چوہتر (8174) مقدمات کا فیصلہ کیا جبکہ چار ہزار نو سو تریسٹھ (4963) نئے مقدمات کا اندراج ہوا۔

’سپریم کورٹ کے اب تک اہم فیصلے‘

اپنے اثرات کے اعتبار سے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اس وقت تک جو سب سے اہم فیصلہ کیا ہے وہ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق ہے جس کو آئینی بینچ نے درست قرار دیا ہے۔ 7 مئی 2025 کو یہ فیصلہ جاری کیا گیا۔

اسی طرح سے نورمقدم کے قاتل ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے اہم تھا۔ 20 مئی کو سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جسٹس نعیم اختر افغان کی سربراہی میں اس مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے ظاہر جعفر کی قتل کے مقدمے میں سزائے موت برقرار جبکہ اغوا کے مقدمے میں سزائے موت کو عمر قید سے تبدیل کردیا۔

’سپریم کورٹ رولز 2025 کا ڈرافٹ تیار‘

13 مارچ کو سپریم کورٹ نے 1980 سے چلے آ رہے سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کا مسودہ تیار کیا، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ رولز 1980 پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ کے 4 ججز پر مشتمل کمیٹی قائم کی تھی جس نے سپریم کورٹ رولز 2025 کا ڈرافٹ تیار کرلیا ہے۔

کمیٹی جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل ہے، سپریم کورٹ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ رولز پر مکمل نظرثانی کا مقصد عدالتی کارروائی کو مزید فعال، مؤثر اور شفاف بنانا تھا۔

ابتدائی طور پر اس کمیٹی نے سپریم کورٹ ججز، سپریم کورٹ رجسٹرار، بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز سے اس سلسلے میں تجاویز طلب کیں۔ اس کے بعد اس کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے جس میں سپریم کورٹ رولز کو جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر مشاورت کی گئی۔

’چیف جسٹس کی غیر ملکی وفود سے ملاقاتیں‘

11 فروری کو آئی ایم ایف وفد نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی جو کہ ملکی تاریخ کے تناظر میں ایک نیا واقعہ تھا کیونکہ اس سے قبل کسی چیف جسٹس نے کبھی آئی ایم ایف وفد سے ملاقات نہیں کی۔ ملاقات کے بعد چیف جسٹس نے صحافیوں سے ملاقات کے دوران بتایا کہ آئی ایم وفد نے کچھ قوانین کے حوالے سے اُن سے بات چیت کی۔ بعد ازاں آئی ایم ایف وفد نے ایک بار پھر چیف جسٹس سے ملاقات بھی کی، اور اُس کے بعد 14 فروری کو اس وفد نے پاکستان بار کونسل سے بھی ملاقات کی۔

17 فروری کو چیف جسٹس نے اٹلی کی سفیر سے ملاقات کی، اس کے بعد 14 اپریل کو ایران اور ترکیے کے سفیروں نے بھی چیف جسٹس سے ملاقات کی۔ 28 اپریل کو چیف جسٹس سے ایک امریکی وفد نے بھی ملاقات کی۔

چیف جسٹس یحیٰی آفریدی 26 اپریل کو ترکیے اور چین کے دورے بھی مکمل کرکے واپس آئے۔

31 جنوری کو چیف جسٹس نے یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی انسانی حقوق سے ملاقات کی، جس میں جوڈیشل بیک لاگ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی سالمیت اور آزادی کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔

’جیل اصلاحات اور فوجداری قوانین میں اصلاحات‘

چیف جسٹس نے گزشتہ ماہ 16 مئی کو بنوں کی ضلعی عدلیہ اور بنوں جیل کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے قیدیوں سے ملاقاتیں کیں، ان کے مسائل دریافت کیے اور اس سے قبل وہ پشاور ہائیکورٹ بنوں بینچ بھی گئے۔

اس سے قبل گزشتہ برس دسمبر میں چیف جسٹس نے رحیم یار خان جیل کا دورہ بھی کیا، چیف جسٹس اب تک جیل اصلاحات کے حوالے سے کمیٹیاں قائم کر چکے ہیں اور گزشتہ برس نومبر میں چیف جسٹس نے پنجاب میں جیل اصلاحات کے حوالے سے ایک مشاورتی اجلاس کی صدارت کی جس میں جیل اصلاحات کے حوالے سے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس میں 9 مئی مقدمات میں ضمانت پر رہا خدیجہ شاہ کو بھی بطور رکن شامل کیا گیا۔

جیل اصلاحات اور فوجداری قوانین میں اصلاحات کے حوالے سے چیف جسٹس نے چاروں صوبوں میں کمیٹیاں قائم کر رکھی ہیں جن کی رپورٹس کا جائزہ لینے کے بعد اقدامات کا جائزہ لیا جائےگا۔

’چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے دور کے تنازعات‘

موجودہ چیف جسٹس کے 7 ماہ سے زیادہ عرصے میں سامنے آنے والے تنازعات کا تعلق زیادہ تر 26ویں آئینی ترمیم سے ہے، وہ چاہے بینچز دائرہ اختیار کا معاملہ ہو یا مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کیے جانے کا معاملہ، اس پر تنازعات سامنے آئے۔

ایسا ہی ایک معاملہ 21 جنوری کو سامنے آیا جب جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے ایک بینچ کے سامنے کسٹم ایکٹ کا ایک معاملہ زیرسماعت آیا تو اُس پر سرکاری وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ یہ مقدمہ آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جانا چاہیے تھا۔ اُس کے بعد مقدمے کو جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ سے ہٹا دیا گیا تو سوال اُٹھا کہ بینچ کی منظوری کے بغیر یہ اقدام کیسے کیا گیا جس پر ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذرعباس کو معطل کر کے اُن کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی بھی کی گئی لیکن بعد ازاں 28 جنوری کو اُن کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی واپس لیتے ہوئے اُنہیں بحال کردیا گیا۔

اسی طرح سے 10 فروری کو وکلا نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا اور یہ مطالبہ کیاکہ 26 ویں آئینی ترمیم مقدمے کے فیصلے تک جوڈیشل کمیشن ججز کی تقرری کے عمل کو روک دے۔ لیکن وکلا احتجاج کے باوجود جوڈیشل کمیشن نے چاروں صوبائی ہائیکورٹس میں ججز کو تعینات کیا۔

24 فروری کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں پاکستان بار کونسل کے نمائندہ اختر حسین نے عدلیہ میں ہونے والی تقرریوں پر احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔

26 اپریل کو بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے چیف جسٹس کے نام ایک خط میں اپنے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں پرایکشن لینے کی استدعا کی۔ خط پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا نے چیف جسٹس کے چیمبر میں پہنچایا۔ اس موقع پر عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان اور دیگر قیادت بھی ان کے ہمراہ تھی۔

’سپریم کورٹ اب مرکز نگاہ نہیں‘

سپریم کورٹ آف پاکستان کبھی تمام پاکستانی میڈیا کا مرکز نگاہ ہوتی تھی اور ملکی میڈیا کی زیادہ تر ہیڈلائنز وہیں سے آتی تھیں۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ عملی طور پر 2 حصوں میں بٹ چکی ہے۔ عام نوعیت کے مقدمات سپریم کورٹ جبکہ آئینی نوعیت کے مقدمات اب آئینی بینچ سماعت کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ نے 7 ماہ میں سزائے موت کے 52 فیصد مقدمات نمٹا دیے

اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اس وقت موجودہ چیف جسٹس، جسٹس یحییٰ آفریدی اُس طرح سے مرکز نگاہ نہیں جس طرح ان کے پیشرو چیف جسٹسز ہوا کرتے تھے۔ اُن کے پیشرو چیف جسٹس صاحبان کے زمانے تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر وقت سپریم کورٹ کی جانب دیکھتی تھیں کہ نجانے کب کون سا فیصلہ آ جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

26 ویں آئینی ترمیم wenews جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس سپریم کورٹ سیاسی تاریخ عدالتی اصلاحات عدالتی تاریخ وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ کشمیر :دومختلف واقعات میں 2 بھارتی فوجی جہنم واصل
  • نسل کشی یا جنگی جرم؟ فرانسیسی عدالت میں غزہ بمباری پر تاریخی مقدمہ شروع
  • امریکا میں پاکستانی تاجر کو منشیات اسمگلنگ پر 16 سال قید کی سزا
  • منشیات سمگلنگ، امریکی عدالت نے پاکستانی تاجر کو 16 برس کی سزا سنا دی
  • جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد ادارے میں کیا کچھ بدلا؟
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا
  • جسٹس منصور علی شاہ نے بطور قائم مقام چیف جسٹس پاکستان ذمہ داریاں سنبھال لیں
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھالیا
  • جسٹس منصور علی نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کا حلف اٹھا لیا
  • حکومت اور اساتذہ سے مذاکرات کرے اور ان کے مطالبات حل کرے، سید علی رضوی