اگر آپ یو اے ای کے گولڈن ویزا کے لیے اپلائی کرنے کا سوچ رہے ہیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات میں طویل مدتی رہائش حاصل کرنے کے ساتھ آپ دیگر فوائد سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں؟

متحدہ عرب امارات کے گولڈن ویزا کے فوائد کی فہرست پیش خدمت ہے، جن سے آپ 10 سالہ ویزا سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

متحدہ عرب امارات کا گولڈن ویزا کیا ہے؟

گولڈن ویزا 10 سالہ طویل مدتی رہائشی اجازت نامہ ہے، جو آپ کو اسپانسر کی ضرورت کے بغیر متحدہ عرب امارات میں رہنے، کام کرنے یا مطالعہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ گولڈن ویزا مختلف زمروں کے لوگوں کو دیا جاتا ہے، جن میں باصلاحیت افراد، محققین، نمایاں طلباء، ڈاکٹرز، ماہرین، اختراع کار، کھلاڑی، کاروباری اور سرمایہ کار شامل ہیں۔

1: طویل مدتی، قابل تجدید رہائش گولڈن ویزا کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ ویزا رکھنے والوں کو 10 سال کے لیے قابل تجدید رہائشی ویزا پر متحدہ عرب امارات میں رہنے کی اجازت دیتا ہے۔ آپ ویزا کی تجدید تب تک کر سکتے ہیں جب تک کہ آپ اس زمرے کے لیے اہلیت کے معیار کو پورا کرتے ہیں جس کے تحت آپ نے ابتدائی طور پر ویزا کے لیے درخواست دی تھی۔

2: کسی کفیل یا آجر کی ضرورت نہیں ہے عام طور پر یواے ای میں رہائشی ویزوں کے لیے اسپانسر کی ضرورت ہوتی ہے، جو یا تو وہ کمپنی ہو سکتی ہے جو آپ کو ملازمت دے رہی ہے (کام کے ویزے کی صورت میں) یا خاندان کا کوئی فرد جو پہلے سے متحدہ عرب امارات (فیملی ویزا) میں مقیم ہے۔ تاہم عرب امارات کے ویزا سسٹم میں نئی ​​تبدیلیوں نے متعدد آپشنز (بشمول گولڈن ویزا) متعارف کرائے ہیں جو خود کفیل ہیں۔گولڈن ویزا رکھنے سے ان کارکنوں کی مدد ہو سکتی ہے جو مثال کے طور پر زیادہ آسانی سے ملازمتیں تبدیل کرسکتے ہیں، کیونکہ انہیں اپنے سابقہ ​​آجر کے زیر کفالت اپنے رہائشی ویزا کو منسوخ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

3: متحدہ عرب امارات سے باہر 6 ماہ سے زیادہ رہنے سے رہائشی ویزا منسوخ نہیں ہوتا

گولڈن ویزا رکھنے والوں کے پاس 6 ماہ سے زائد عرصے تک متحدہ عرب امارات سے باہر رہنے اور پھر بھی رہائشی ویزا کو درست رکھنے کی لچک ہوتی ہے۔ عام طور پررہائشی ویزا منسوخ ہو جاتا ہے، اگر رہائشی چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے عرب امارات سے باہر ہے۔

4: خاندان کے اراکین کی کفالت کے لیے بہتر اختیارات

نیا ویزا سسٹم تمام تارکین وطن کو 25 سال کی عمر تک کے مرد بچوں کی کفالت کرنے کی اجازت دیتا ہے اور اگر لڑکا بچہ عزم کا فرد ہے تو اسے کسی بھی عمر تک کفیل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ گولڈن ویزا ہولڈر ہیں تو 10 سال کی رہائش رکھنے سے ہر چند سال بعد رہائش کی تجدید کرنے سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔گولڈن ویزا سسٹم اسپانسر شدہ خاندان کے ارکان کو اس یقین دہانی کے ساتھ فراہم کرتا ہے کہ گولڈن ویزا کے بنیادی حاملین کے انتقال کی صورت میں اسپانسر شدہ ارکان کا اجازت نامہ برقرار رہے گا۔

5: گھریلو ملازمین پر کوئی حد نہیں جو آپ اسپانسر کر سکتے ہیں

گولڈن ویزا آپ کو گھریلو مددگاروں کی کسی بھی تعداد کو اسپانسر کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔

6: گولڈن ویزا کے درخواست دہندگان کے لیے ایک خصوصی ملٹی انٹری ویزا

اگر آپ کے پاس ابھی تک گولڈن ویزا نہیں اور آپ فی الحال متحدہ عرب امارات میں نہیں رہ رہے تو ایک چھ ماہ کے انٹری وزٹ ویزا کے لیے آپ درخواست دے سکتے ہیں، جو آپ کو مکمل کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات آنے کی اجازت دیتا ہے۔

7: سبق لیے بغیر ڈرائیونگ لائسنس کے لیے درخواست دیں

اگر آپ دبئی میں گولڈن ویزا ہولڈر ہیں جن کے پاس آپ کے آبائی ملک سے درست ڈرائیونگ لائسنس ہے، تو آپ کو بس دبئی میں ڈرائیونگ انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک بار جب آپ ایک طالب علم کے طور پر رجسٹر ہو جاتے ہیں، تو آپ کو کوئی کلاس لینے کی ضرورت نہیں اور آپ عملی اور روڈ ٹیسٹ کے لیے براہ راست درخواست دے سکتے ہیں۔ اگر آپ دونوں ٹیسٹ پاس کر لیتے ہیں، تو آپ یو اے ای ڈرائیونگ لائسنس جاری کروا سکیں گے۔

8: خصوصی ہیلتھ انشورنس پیکجز

گولڈن ویزا ہولڈرز جو دبئی اور ابوظہبی میں کل وقتی ملازم ہیں، ان کے آجر کی ہیلتھ انشورنس پالیسی کا احاطہ جاری رہے گا، تاہم سرمایہ کاروں، فری لانسرز اور بیرون ملک مقیم افراد کو اپنی ہیلتھ انشورنس پالیسی کے لیے خود ادائیگی کرنا ہوگی۔نیشنل ہیلتھ انشورنس کمپنی، گولڈن ویزا ہولڈرز کے لیے دامن کا وقف ہیلتھ انشورنس پلان پیکیج کے پریمیم ڈی ایچ 3 ہزار درہم کی سالانہ کوریج کی حد کے لئے 2 ہزار393 سے کم سے شروع ہو سکتے ہیں۔

9: زیادہ کام کرنے کی لچک

گولڈن ویزا رکھنے والوں کے لئے زیادہ کام کرنے کی لچک ہوتی ہے جس سے وہ بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں، تاہم یو اے ای کے لیبر لا کے آرٹیکل 9 کے تحت جو کارکن اپنے آجر کو مطلوبہ نوٹس فراہم کیے بغیر عرب امارات چھوڑ کر چلے جائیں، انہیں ایک سال تک ملازمت پر پابندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔تاہم 2022 کی کابینہ کی قرارداد اس قاعدے سے استثنیٰ کا خاکہ پیش کرتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ گولڈن ویزا رکھنے والے مستثنیٰ افراد میں شامل ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: متحدہ عرب امارات میں ہیلتھ انشورنس رہائشی ویزا سکتے ہیں کی ضرورت کے لیے ا کرنے کی اگر ا پ

پڑھیں:

تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
۔۔

ٹالسٹائی کا خیال تھا کہ گذشتہ دو صدیوں کے اندر اخلاقی ترقی ہوئی ہے لیکن حکومتیں بری طرح سے غیر اخلاقی ثابت ہوئی ہیں چنانچہ اس کے نزدیک دنیا کے مظلوم عوام کے مسائل کا واحد حل یہ ہی ہے کہ ان کے اندر وہ اخلاقی جرأ ت پیدا ہوجائے جس سے وہ ظالموں کے استحصال کا عدم تشدد کے ذریعے مقابلہ کرسکیں ۔ وہ کہتا ہے ” یہ دنیا نہ ہنسی مذاق کی جگہ ہے اور نہ دارو رسن کی وادی ہے اور نہ ہی کسی ابدی دنیا کا پیش خیمہ ہے ہماری دنیا خود ایک ابدی حقیقت ہے یہ دنیا خوبصورت اور دلکش ہے ہمیں اسے زیادہ حسین و دلفریب بنانا چاہیے ان لوگوں کے لیے جو ہمارے ساتھ زندہ ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو ہمارے بعد زندہ رہیں گے”۔ ستمبر 1860 میں ایک انگلستان کے عظیم ناول نگار چالس ڈکنس نے یکایک فیصلہ کیا کہ اسے اپنے ماضی سے تمام رشتے منقطع کر لینا چاہیے اور پھر اس نے اپنے بچوں کی موجودگی میں سارے خطوط اور دوسرے کاغذات نذر آتش کر دیئے ۔ ڈکنس کو ”زمانہ ” کی اہمیت کا غیر معمولی احساس تھا۔ زندگی کی جدوجہد میں انسانی فطرت کے جو نمونے ڈکنس نے پیش کیے ہیں وہ شیکسپیئر کے علاوہ کسی دوسرے انگریزادیب کے یہاں مفقود ہیں۔اس نے انسانی زندگی کے تمام اہم پہلوئوں پر غور وفکر کیا۔ اس کاناول Great Expectationایسے افراد کی داستا ن ہے جنہوں نے خود کو سماج اور روز مرہ زندگی سے قطع تعلق کرکے اپنی زندگی عذاب بنا رکھی ہے ۔ Miss Havishamاپنی نامرادیوں اور محرومیوں کا بدلہ سماج سے لینا چاہتی ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خو دتنہا رہ جاتی ہے اور ایذا رسانی اس کی فطرت بن جاتی ہے ڈکنس کے زمانے میں قدیم روایتی قدریں تیزی سے ختم ہورہی تھیں اور لوگ نہ صرف قدیم بستیوں سے اجڑنے لگے تھے بلکہ صنعتی انقلاب اور مشینی تہذیب کے طفیل مرد، عورت اور بچے ”غیر انسان ” ہوتے جارہے تھے اس ماحول میں انسان محض ”چیز ” بنتا جارہا تھا ۔ اس ناول میں کردار وں کی اہم خصو صیت یہ ہے کہ وہ اس عجیب و غریب دنیا میں جینے پر مجبور ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے بلکہ خود کلامی کے سہارے زندہ رہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سماجی حالات نے ان کی آواز چھین لی ہے پریشان حال اور پر ا گندہ خیال انسان اپنی چھوٹی سی دنیا الگ بسائے ہوئے ہیں مکانات اپنے اپنے طور بنتے اور گرتے رہتے ہیں کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں۔
ڈکنس اپنے سماج کے گہرے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ” انسان کے درمیان جنگ زرگری ہی ساری تباہی کی جڑ ہے زرپرستی اور زر کی ہوس نے اگر سماج کے بالا ئی طبقے کو دولت او ر فراغت بخشی ہے تو دوسری جانب غربا کے لیے گھٹن ، تنہائی اور پریشانی کا سامان فراہم کیا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ دولت جمع کرنے کی جدوجہد میں اہل زر بھی محفوظ نہیں رہتے اور خود ان کی زندگی بھی عذاب ہوکر رہ جاتی ہے ۔ شیکسپیئر اپنے ڈرامے King Learمیں دکھاتاہے کہ جب تک بادشاہ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اور اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا ۔ سارتر کہتا ہے زندگی چپکنے والی غلاظت ہے جو بہتے بہتے جم گئی ہے جبکہ کیرک گرد کہتا تھا ” میں کبھی بھی بچہ نہیں تھا میں کبھی بھی جوان نہیں ہوا میں کبھی بھی زندہ نہیں رہا میں کبھی بھی کسی انسان سے محبت نہیں کر سکا زندگی کس قدر کھوکھلی اور لغوہے کوئی کسی کو دفن کرتاہے کوئی میت کے ساتھ جاتا ہے کوئی قبر میں تین بیلچے مٹی کے پھینکتا ہے آخر ستر برس کی عمر کب تک ساتھ دے گی کیوں نہ اس زندگی کا فوری طورپر خاتمہ کردیاجائے کیوں نہ آدمی قبرستان میں ڈیرے ڈال دے کیوں نہ قبر میں گھس جائے ”۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95 فیصد انسانوں کے یہ ہی احساسات و جذبات ہیں کہو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95فیصد انسانوں کی یہ ہی سو چ ہے کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ آج ہم Great Expectationکے کردار نہیں بن کے رہ گئے ہیں کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ آج 95 فیصد پاکستانی سارتر کی بات سے متفق ہیں کہ زندگی چپکنے والی غلاظت ہے آج چند سو کو چھوڑ کر کوئی ایک پاکستانی دکھا دو جو دل سے ہنستا ہو جسے کوئی غم نہ ہو کوئی فکر یا پریشانی نہ ہو ۔ جو چین سے سو تا ہے جو پیٹ بھر کے روٹی کھا تا ہو ۔ خدا کے واسطے کسی ایک شخص کا پتہ بتادو جوروز اپنی قبر نہ کھو دتا ہو جس کے اندر ننگی چیخیں نہ چیختی ہوں جو روز نہ مرتا ہو اور روز نہ جیتا ہو ۔ اس وقت اپنے آپ کو پیٹنے کا دل چاہتا ہے ماتم کرنے کا جی کرتا ہے ۔ جب امیرو کبیر ، محلوں او ر اونچے اونچے تختوں پر بیٹھے موٹے موٹے پیٹ والے یہ بکوا س کرتے ہیں کہ ملک ترقی کررہا ہے ملک سے غربت کا خاتمہ ہورہا ہے خو شحالی آرہی ہے ، مہنگائی کم ہورہی ہے لوگوں کا سکون لوٹ رہا ہے ارے کوئی ان اندھوں ، بہروں اور کانوں کو ملک کی گندی اورغلاظت سے بھری بستیاں دکھا دے ۔ خون تھوکتے انسان دکھا دے اپنے آپ کو پیٹتی بہنوں ، اور بیٹیوں کو دکھا دے بھوکے سوتے بچوں کو دکھا دے۔ تڑپتی بلکتی سسکتی مائوں کو دکھا دے ۔ خدارا کوئی تو اٹھے جوان اندھوں، بہروں اور کانوں کو ملک کی بستیوں میں لے جائے ۔ جہاں انسان تڑپ اور بلک رہے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے امیروں ، بااختیاروں ، سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور حکمرانوں تم ہم 95 فیصد انسانوں سے بالکل الگ ہوتم اور ہم کیسے ایک ہوسکتے ہیں جب کہ تم ہمارے غموں ، دکھوں اور تکلیفوں کو محسوس ہی نہیں کرسکتے تم تمہارے جیسے کیسے ہوسکتے ہو۔ تم ہمارے اپنے کیسے ہوسکتے ہو ۔ تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ غربت ، افلاس کس بلاکا نام ہیں فاقوں کی تکلیف کیسی ہوتی ہے۔ بیروزگاری کا غم جسم کو کیسے کاٹتا ہے ۔ اپنے جسم سے نکلنے والا خون دیکھ کر کیسے دل تڑپتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی خواہشوں اور امیدوں کے قتل عام پر کیسے دل روتا ہے ۔ نہیں بالکل نہیں تم اور ہم الگ الگ ہیں اس لیے یہ ڈھکو سلے بازی بند کرو یہ ڈرامہ بازی اب نہیں چلے گی یہ منافقت اب ناقابل برداشت ہوچکی ہے کیونکہ تمہارا پاکستان الگ ہے اور ہمارا پاکستان الگ ہے ۔ تمہارے خون کارنگ الگ ہے اورہمارے خون کا رنگ الگ ہے تمہارے جسم الگ ہیں اور ہمارے جسم الگ ہیں ہمارے سارے المیوں ، ساری ذلالتوں ، سارے غموں اور دکھوں کے تم ہی ذمہ دار ہو۔ ہم صرف تمہاری ہی وجہ سے چیزیں بن کے رہ گئے ہیں ۔جب سکندر اعظم 325قبل از مسیح میں شمالی مغربی ہندوستان میں گھو ما تو اس نے پنجاب میں اور اس کے آس پاس مقامی باشندوں کے ساتھ ساری لڑائیاں جیت لیں لیکن وہ اس قابل نہ ہوسکا کہ اپنے سپاہیوں میں اتنا جو ش و خروش پیدا کرسکے کہ و ہ طاقتور شاہی نند ا خاندان پر حملہ کرسکیں ۔ جو مشرقی ہندوستان کے شہر پٹالی پترا ، ( جو اب پٹنہ کہلا تا ہے ) اور جو ہندوستان کے بیشتر حصے پر حکومت کرتا تھا تاہم سکندر اعظم خاموشی سے یونان واپس جانے کے لیے تیا ر نہیں تھا ایک روز پر جو ش مباحثے میں دنیا کے فاتح نے جین فلسفیوں کے ایک گروہ سے پو چھا کہ وہ اس کی طرف توجہ دینے کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں اس سوال کا جواب اس نے یہ پایا ”بادشاہ سکندر ہر شخص صرف زمین کے اتنے ہی حصے کا مالک ہوسکتا ہے جتنے پر ہم کھڑے ہوئے ہیں آپ بھی ہم میں سے باقی سب کی طرح ایک انسان ہو سوائے اس کے آپ ہر وقت مصروف رہتے ہو اور کسی اچھائی کے لیے نہیں ۔ اپنے گھر سے اتنے میل ہامیل دور سفر کررہے ہو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے ایک پریشانی کا باعث ہو، آپ جلد ہی مر جائو گے اور تب آپ صرف اس قدر زمین کے مالک ہوگے جو آپ کو اپنے اندر چھپا نے کے لیے کافی ہوگی ”۔ میر ے ملک کے امیروں ، بااختیاروں ، طاقتوروں ، حکمرانوںیہ ہی بات تمہارے سو چنے کی بھی ہے کہ تم اپنے لیے اور دوسروں کے لیے پر یشانی کا باعث ہو۔ آج نہیںتو کل تمہیں مر ہی جانا ہے اور اس وقت تم صرف اتنی ہی زمین کے مالک ہوگے جو تمہیں اپنے اندر چھپانے کے لیے کافی ہوگی ۔ باقی تمہاری ساری دولت ساری چیزوں کے مزے دوسرے لے رہے ہونگے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • ایک سال میں بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ
  • چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے پر مسلم لیگ ن کا حیران کن ردعمل آگیا
  • بکرےیا گائے کا گھی اور تیل کے بغیر مزیدار گوشت بنانے کا طریقہ جانیں؟
  • بغیر گھی اور تیل کے بکرے/ گائے کا مزیدار گوشت بنانے کا طریقہ جانیں؟
  • برف میں جما گوشت گھنٹوں کے بجائے منٹوں میں کیسے پگھلائیں؟ طریقہ جانیں
  • 3 دن واشنگٹن اور 2 دن نیویارک میں کتنی میٹنگز کیں۔۔؟ شیری رحمٰن نے حیران کن تفصیلات شیئر کر دیں
  • اسرائیل غزہ کے حقائق کو دنیا بھر سے چھپا رہا ہے، اقوام متحدہ کا اعلان
  • تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟
  • پاک افغان بارڈر پر پاک فوج کے جوان عید کیسے مناتے ہیں؟
  • ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سفری پابندیاں، امریکا میں منعقدہ فیفا اور اولمپکس کیسے متاثر ہوں گے؟