حکمرانوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو مزاحمت ہو گی: حافظ نعیم
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
لاہور (خصوصی نامہ نگار) امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے ادارہ نورحق کراچی میں غزہ کی تازہ ترین صورتحال، حماس اسرائیلی جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ 15ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت و دہشت گردی کے باوجود اہل غزہ و فلسطین کی مزاحمت اور حماس کے مجاہدین کی تاریخی کامیابی پر جمعہ 17جنوری کو ملک گیر سطح پر ’’یوم عزم تشکر‘‘ منایا جائے گا، شکرانے کے نوافل ادا کیے جائیں گے، تمام آئمہ مساجد خطبات جمعہ میں امریکہ و اسرائیل کی مذمت، اہل غزہ و فلسطین کی حمایت کے حوالے سے عوام کی ذہن سازی کریں۔ معاہدے پر عملدرآمد کے بعد امریکہ و اسرائیل کی کوشش ہوگی کہ وہ پاکستان، سعودی عرب اور انڈونیشیا سے مطالبہ کرے کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے، ہم حکمرانوں اور امریکہ کی طرف دیکھنے والوں کو متنبہ کرتے ہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچا بھی گیا تو زبردست عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا، اسرائیل کی ناجائز ریاست کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے مرکز علوم اسلامیہ منصورہ میں تقریب تکمیل بخاری شریف سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس کی کامیابی پوری امت کی کامیابی ہے، فلسطین کے مجاہدوں نے مزاحمت سے صہیونی تکبر کو خاک میں ملادیا، صلح اسرائیل کی نہیں حماس کی شرائط پر ہوئی ہے۔ صہیونیوں نے غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا اور بچوں سمیت پچاس ہزار سے زائد معصوم لوگوں کو شہید کیا، غزہ کی تعمیرنو اب اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
فرانس کا فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان، امریکا برہم، اسرائیل ناراض
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا ہے کہ فرانس رواں سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران فلسطین کو باضابطہ طور پر ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔
عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق، صدر میکرون نے فلسطینی صدر محمود عباس کو ایک خط کے ذریعے اس فیصلے سے آگاہ کیا ہے۔ اپنے خط میں انہوں نے واضح کیا کہ فرانس مشرق وسطیٰ میں ایک پائیدار اور منصفانہ امن کے قیام کے لیے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ صدر میکرون کے مطابق یہ اقدام اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ستمبر میں رسمی طور پر پیش کیا جائے گا۔
فرانس وہ پہلا بڑا مغربی ملک بننے جا رہا ہے جو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا، جب کہ وہ یورپ میں یہودیوں اور مسلمانوں دونوں کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والا ملک بھی ہے۔ فرانسیسی حکومت کا ماننا ہے کہ اقوام متحدہ کے اجلاس کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے تاکہ دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر دو ریاستی حل کے لیے ایک نیا سفارتی فریم ورک ترتیب دیا جا سکے۔
فرانس کے اس جرات مندانہ فیصلے پر امریکا اور اسرائیل کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے فرانسیسی اقدام کو “دہشت گردی پر انعام” قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ فیصلہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے بھی اس فیصلے کو “شرمناک” قرار دیا۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ یہ فیصلہ حماس کے لیے ایک پروپیگنڈا فتح ہے اور امریکا اسے مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فرانس کا یہ قدم 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں مارے جانے والے اسرائیلی شہریوں کی توہین ہے۔
فرانس کے وزیر خارجہ ژاں نویل بارو نے ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ فرانس حماس کا مخالف ہے اور یہ فیصلہ دو ریاستی حل کی حمایت میں کیا جا رہا ہے، جس کی حماس خود مخالفت کرتا رہا ہے۔
دوسری جانب کئی ممالک نے فرانس کے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔ سعودی عرب نے فرانسیسی فیصلے کو سراہتے ہوئے دیگر ممالک سے بھی اسی طرح کے اقدامات کی اپیل کی ہے۔ سعودی وزارت خارجہ کے مطابق، یہ فیصلہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی حمایت ہے۔
اسپین، جو پہلے ہی فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکا ہے، نے بھی میکرون کے اعلان کا خیرمقدم کیا۔ ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے کہا کہ دو ریاستی حل ہی واحد راستہ ہے، اور اس میں فرانس کی شمولیت ایک مثبت قدم ہے۔
کینیڈا نے بھی اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے اور امدادی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹیں نہ ڈالے۔ وزیر اعظم مارک کارنی نے اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام بھی لگایا۔
واضح رہے کہ امریکا پہلے ہی ایسے ممالک کو خبردار کر چکا ہے جو یکطرفہ طور پر فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ واشنگٹن کا موقف ہے کہ ایسے فیصلے امریکی خارجہ پالیسی کے خلاف ہو سکتے ہیں۔
دریں اثناء فلسطینی اتھارٹی کے نائب صدر حسین الشیخ نے فرانس کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام عالمی قوانین کی حمایت اور فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی توثیق ہے۔