ایک اور سانحہ رونما ہوا، ایک اور کشتی سمندر میں غرق ہو گئی۔ افریقی ملک موریطانیہ کے راستے غیر قانونی طور پر اسپین جانے والوں کی یہ کشتی مراکش کے سمندر میں الٹ جانے سے پچاس تارکین وطن ڈوب گئے۔ ان میں غالب اکثریت یعنی 44 افراد پاکستانی تھے۔ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق کشتی پر 86 تارکین وطن سوار تھے جو 2 جنوری کو موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی۔ کشتی میں کل 66 پاکستانی سوار تھے جب کہ 36 افراد کو بچا لیا گیا اور 50 جاں بحق ہو گئے۔ کشتی حادثے میں جاں بحق 44 پاکستانیوں میں سے 12 نوجوان گجرات کے رہائشی تھے، اس کے علاوہ سیالکوٹ اور منڈی بہا الدین کے افراد بھی کشتی میں موجود تھے۔ واقعہ میں بچ جانے والے ایک پاکستانی نے فون پر اپنے اہل خانہ کو بتایا کہ جب کشتی سمندر میں کھڑی تھی تو شدید سردی کے باعث کچھ لوگ بیمار ہو گئے تھے اور کشتی میں راشن بھی کم تھا، ایسے میں انسانی اسمگلروں نے بیمار افراد کو زبردستی سمندر میں پھینک دیا اور کچھ لوگوں کو تشدد کر کے قتل بھی کیا۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی کشتی 2 جنوری کو اسپین کے لیے روانہ ہوئی تھی، انسانی اسمگلروں نے مزید پیسوں کا مطالبہ کیا تھا اور انسانی اسمگلروں نے 8 روز تک کشتی سمندر میں ہی کھڑی رکھی۔ کشتی میں گجرات کے گائوں جوڑا کرنانہ کے 5 افراد بھی سوار تھے۔ اہل خانہ کے مطابق ان 5 میں سے 4 افراد جاں بحق ہوئے، ایک زندہ بچ گیا۔ زندہ بچ جانے والے زاہد بٹ کا گھر والوں سے رابطہ ہوا ہے۔ اہل خانہ کے مطابق زاہد بٹ نے ٹیلی فون پر اہل خانہ کو حادثے سے متعلق آگاہ کیا، کہ کشتی روک کر انسانی اسمگلر پیسوں کا تقاضا کرتے رہے، پاکستانیوں پر تشدد بھی کیا گیا۔ انسانی اسمگلرز نے ان افراد کو ایک سیف ہائوس میں رکھا تھا۔انسانی اسمگلنگ کے گھنائونے کاروبار میں ملوث افراد کے ہاتھوں پاکستانی شہریوں کے جانی نقصان کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ طویل سلسلے کی ایک کڑی ہے، اللہ کرے کہ یہ اس نوعیت کا آخری واقعہ ہو مگر جس قدر وسیع پیمانے پر یہ مکروہ دھندہ پاکستان اور بہت سے دوسرے ملکوں میں جاری ہے، اس کے پیش نظر اس طرح کے مزید واقعات اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ دھندہ سال ہا سال سے جاری ہے اور حکومت کی بار بار کی کوششوں، اقدامات اور اعلانات کے باوجود اسے روکا نہیں جا سکا۔ پنجاب اور آزاد کشمیر کے کئی علاقوں سے انسانی اسمگلنگ کی یہ کارروائیاں تسلسل سے جاری ہیں، ملک کے مختلف ہوائی اڈوں کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو یونان وغیرہ کے راستے بیرون ملک بھجوایا جا چکا ہے اور واقفان حال کے مطابق اب بھی لیبیا میں پانچ ہزار کے قریب پاکستانی انسانی اسمگلنگ میں ملوث کارندوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ پاکستانی باقاعدہ ویزا لے کر لیبیا گئے ہیں اور اب وہاں سے خفیہ راستوں اور کشتیوں کے ذریعے یورپ جانے کے لیے کوشاں ہیں۔ انسانی اسمگلروں کا یہ گروہ پاکستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر دنیا کے بہت سے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں اس کا نیٹ ورک پھیلا ہوا ہے اور اس کے مکروہ دھندے میں تیزی سے توسیع کا عمل بھی جاری ہے، مثال کے طور پر صرف 2024ء کے دوران 2023ء کے مقابلے میں انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں بہتر مستقبل کے سہانے خواب دیکھ کر اپنا وطن چھوڑنے والوں کی ہلاکتوں میں 58 فی صد اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر 2024ء میں خوشحال زندگی کی تلاش میں اسپین جانے کی کوشش میں دس ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ہسپانوی گروپ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ سال کشتیوں سے اسپین پہنچنے کی کوشش میں ہر روز 30 افراد ہلاک ہوئے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں ہلاکتوں میں 58 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ہسپانوی گروپ کا کہنا ہے کہ پر خطر راستوں کے علاوہ ہلکی ساخت کی کشتیوں کا استعمال اور ریسکیو کے کام میں وسائل کی کمی بھی ہلاکتوں کا باعث ہیں۔ ہلاکتوں کی بڑی تعداد ریسکیو اور حفاظتی نظاموں کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک سال میں اتنی زیادہ ہلاکتیں ایک ناقابل قبول المیہ ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثر کا تعلق افریقی ممالک سے ہے، جب کہ دیگر پاکستان سمیت دنیا کے 28 ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں پاکستان سے ہزاروں نوجوان بہتر مستقل کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے رہے ہیں اور بہت سے واقعات میں کئی سو افراد کی ہلاکتیں بھی ہوئیں ہیں۔ مغربی افریقا سے اس سال ہزاروں تارکین وطن نے جزائر کینری کا رخ کیا جو افریقی ساحل کے پاس واقع اسپین کا ایک جزیرہ نما ہے۔ اس جزیرہ نما کو براعظم تک رسائی کے لیے ایک اہم راستے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 10 ہزار 457 ہلاکتیں 15 دسمبر تک ریکارڈ کی گئی تھیں جن میں زیادہ تر اس جزیرہ نما کے راستے میں واقع ہوئیں۔ بحراوقیانوس کے اس راستے کو دنیا کے پر خطر ترین راستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہسپانوی گروپ ہلاکتوں کے اعداد وشمار کو مرتب کرتے ہوئے لاپتا افراد کے خاندانوں اور زندہ بچائے جانے والوں سے متعلق سرکاری اعداد وشمار پر انحصار کرتا ہے۔ گروپ کے اعداد وشمار کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک ہزار 538 بچے اور 421 خواتین بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اپریل اور مئی تارکین وطن کی اموات کے حوالے سے مہلک ترین رہے۔ 2024ء میں موریطانیہ سے آنے والے لوگوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ فروری میں اسپین نے موریطانیہ کے لیے 21 کروڑ یورو کی امداد کا اعلان کیا تھا تاکہ انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی کر سکے۔ مگر اس کے باوجود انسانی اسمگلنگ کی روک تھام میں خاطر خواہ کمی نہیں ہو سکی! جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، یہاں بھی انسانی اسمگلنگ کے کاروبار کی جڑیں بہت گہری ہیں اور بار بار کے حادثات میں پاکستانی تارکین وطن کے بھاری جانی نقصان کے باوجود اور حکومتی ذمے داران کی جانب سے ہر بار سخت تادیبی کارروائیوں اور عبرتناک سزائوں کے اعلانات قطعی بے اثر ثابت ہو رہے ہیں جون 2023ء میں کشتی ڈوبنے کے واقعہ میں سات سو سے زائد لوگوں کی جانیں گئیں جن میں نصف سے زائد تعداد یعنی 360 افراد پاکستانی تارکین وطن تھے، پھر دسمبر 2024ء کے وسط میں اسی طرح کے ایک سانحہ میں کشتی میں سوار چار درجن کے قریب پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، چار جنوری کو بھی اس طرح کے واقعہ میں کئی پاکستانیوں کی جانیں گئیں اور اب پھر چوالیس پاکستانی سمندر کی لہروں کی نذر ہو گئے۔ حالیہ سانحہ میں انسانی اسمگلروں کے جس قسم کے غیر انسانی سلوک کی داستانیں سننے میں آئی ہیں اسے سفاکیت کی انتہا ہی قرار دیا جائے گا۔ ان پے در پے واقعات کے بعد ہونا تو یہ چاہیے کہ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد کی آنکھیں کھل جاتیں اور وہ اپنی زندگیوں سے کھیلنے سے باز آ جاتے مگر بدقسمتی سے اس رجحان میں کمی نہیں آ سکی اور لوگ خون پسینے کی کمائی ان انسانی اسمگلروں کے حوالے کر کے موت خرید رہے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انسانی اسمگلروں کے انسانی اسمگلنگ تارکین وطن کشتی میں اور کشتی اہل خانہ کے مطابق نے والے کے لیے
پڑھیں:
مقبوضہ فلسطینی علاقوں انسانی صورتحال انتہائی تشویشناک، رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 اپریل 2025ء) غزہ میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری جنگ اور انسانی امداد کی فراہمی پر کڑی پابندیوں نے 22 لاکھ فلسطینیوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے جبکہ علاقے میں شہری خدمات کا نظام بڑی حد تک تباہ ہو گیا ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد بالخصوص گزشتہ ہفتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے حملوں میں تیزی آئی ہے جس سے باقیماندہ شہری ڈھانچہ ملیامیٹ ہونے کا خطرہ ہے۔
اسرائیل کی جانب سے جاری کردہ انخلا کے احکامات اور غزہ کے محاصرے نے لوگوں کی تباہ حال زندگیوں کو اور بھی مشکل بنا دیا ہے جبکہ تقریباً آٹھ ہفتوں سے ان تک کوئی مدد نہیں پہنچی۔(جاری ہے)
Tweet URLدوسری جانب، مغربی کنارے میں اسرائیل کی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور آبادکاروں کے تشدد میں فلسطینی شہری متواتر ہلاک، زخمی اور بے گھر ہو رہے ہیں۔
ہلاکتیں، بھوک اور مایوسی'او ایچ سی ایچ آر' نے بتایا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مکمل محاصرے کے نتیجے میں پورا علاقہ خوراک اور ایندھن سمیت ہر طرح کی امداد سے محروم ہے۔ آٹا اور ایندھن نہ ہونے کے باعث تنور بند ہو رہے ہیں، بنیادی ضرورت کی خوراک انتہائی مہنگی ہو گئی ہے اور ساحل سمندر کے قریب اسرائیل کے حملوں سے ماہی گیری کی صنعت تباہ ہو رہی ہے۔
علاقے میں خوراک کے باقیماندہ ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جس سے بالخصوص بچوں میں غذائی قلت بڑھتی جا رہی ہے۔ان حالات میں مایوسی اور بے چینی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑے اور ان میں اسلحہ استعمال ہونے کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔اسرائیل کے حملوں اور شہری حکام کو نشانہ بنائے جانے سے غزہ میں نفاذ قانون اور انصاف کا نظام بھی تباہ ہو گیا ہے جس سے شورش جنم لے رہی ہے۔
شہری خدمات پر حملے21 اور 22 اپریل کے درمیان اسرائیل کی فوج نے غزہ کے تین علاقوں میں بمباری کر کے 36 بلڈوزر، کھدائی کرنے والی مشینیں، پانی فراہم کرنے والے ٹرک اور سیوریج کا گندا پانی کھینچنے والے ٹینک تباہ کر دیے۔ یہ مشینری ملبہ ہٹانے، لوگوں کو پانی پہنچانے اور نکاسی آب کا نظام برقرار رکھنے کے لیے استعمال کی جا رہی تھی۔
اسرائیل کے اس اقدام سے ملبے تلے دب کر ہلاک ہونے والوں کی لاشوں اور زخمیوں کو نکالنے کا کام متاثر ہو گا جبکہ کوڑا کرکٹ اٹھانے اور پناہ گاہوں میں پینے کا پانی پہنچانے کی خدمات برقرار نہیں رہ سکیں گی۔
نکاسی آب کے لیے استعمال ہونے والی مشینری کی تباہی سے علاقے میں گندا پانی جمع ہونے لگے گا جس سے بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔بین الاقوامی قانون کے تحت شہری مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی مشینری کو تباہ کرنا غیرقانونی عمل ہے جو جنگی جرم کے مترادف ہو سکتا ہے۔
'او ایچ سی ایچ آر' نے بتایا ہے کہ 18 مارچ اور 22 اپریل کے درمیان غزہ میں رہائشی عمارتوں پر 229 اور بے گھر لوگوں کی خیمہ بستیوں پر 91 حملے ہو چکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں سمیت سیکڑوں لوگوں کی ہلاکت ہوئی۔
18 اپریل کو اسرائیلی فوج نے تل الزعتر میں دو رہائشی عمارتوں پر حملہ کر کے 13 افراد کو ہلاک کیا جن میں آٹھ بچے اور ایک صحافی بھی شامل تھے جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے۔
اسی طرح، 24 اپریل کو غزہ شہر پر اسرائیل کی بمباری میں تین بچے اپنے والدین کے ساتھ مارے گئے۔بین الاقوامی قانون کی پامالیدفتر نے کہا ہے کہ شہریوں اور شہری تنصیبات پر اسرائیل کے حملے عسکری کارروائیوں کے دوران اہداف میں امتیاز، طاقت کے متناسب استعمال اور احتیاط کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ گزشتہ 18 ماہ کے دوران غزہ میں بہت بڑے پیمانے پر شہریوں کے جانی نقصان سے بھی اسرائیل کی پالیسیوں اور طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ میں غزہ کے شہریوں کی زندگی سے مکمل لاپروائی برتی جا رہی ہے۔
اسرائیل کی پالیسیوں کا بظاہر مقصد غزہ کے شہریوں کو سزا دینا اور ان کے لیے ایسے حالات پیدا کرنا ہے کہ ان کے لیے اس علاقے میں انسانی گروہ کی حیثیت سے اپنا وجود قائم رکھنا ممکن نہ رہے۔
ادارے نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ایسے حالات کا تدارک یقینی بنائیں اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
مغربی کنارے میں آبادکاروں کا تشددمغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد سے فلسطینیوں کے ہلاک و زخمی ہونے اور ان کی املاک و روزگار کی تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔
ادارے نے بتایا ہے کہ 23 اپریل کو آبادکاروں نے راملہ کے علاقے سنجیل میں حملہ کر کے آٹھ فلسطینی بچوں کو زخمی کر دیا اور تین کھیت تباہ کر دیے۔ اطلاعات کے مطابق، اس واقعے کے بعد اسرائیل کی سکیورٹی فورسز نے ہنگامی مدد پہنچانے والے عملے کو زخمیوں تک پہنچنے اور آگ بجھانے سے روک دیا۔
21 اپریل کو تقریباً 200 آبادکاروں نے اسی علاقے میں تین گھر جلا دیے اور فلسطینیوں کی ملکیتی بھیڑیں چرا لیں۔23 اور 24 اپریل کو وادی اردن کے شمالی علاقے میں اسرائیلی آبادکاروں نے سات فلسطینیوں کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا، ان کے رہائشی خیمے اور مویشیوں کے باڑے نذرآتش کر دیے جبکہ اسرائیل کی سکیورٹی فورسز نے فلسطینی ایمبولینس گاڑیوں کو علاقے تک رسائی سے روکے رکھا۔
17 اپریل کو جنوبی ہیبرون میں اسرائیلی آبادکاروں نے 60 سالہ فلسطینی کی ٹانگ میں گولی مار کر اسے معذور کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اسرائیل کی سکیورٹی فورسز نے موقع پر پہنچ کر اس شخص کے 16 سالہ بیٹے کو اسرائیلی فورسز پر حملے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔
گزشتہ ہفتے اسرائیل کی سکیورٹی فورسز نے اپنی گاڑیوں پر سنگ باری کرنے والے تین فلسطینیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جن میں دو بچے بھی شامل تھے۔
اس طرح 7 اکتوبر 2023 کے بعد مغربی کنارے میں ہلاک کیے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد 192 تک پہنچ گئی ہے۔ 23 اپریل کو سکیورٹی فورسز نے جنین میں بکتر بند گاڑی پر پتھر پھینکنے والے بچوں کے ایک گروہ پر فائرنگ کی جس سے 12 سالہ لڑکا ہلاک ہو گیا۔ 17 اپریل کو نابلوس میں بھی فورسز نے سنگ باری کرنے والے 16 اور 19 برس کے دو فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔'او ایچ سی ایچ آر' کا کہنا ہے کہ مہلک طاقت زندگی کو تحفظ دینے کے لیے انتہائی ناگزیر حالات میں ہی استعمال کی جا سکتی ہے۔
جن لوگوں سے زندگی کو خطرہ لاحق نہ ہو ان کے خلاف انتہائی طاقت کا استعمال انہیں زندگی کے حق سے ناجائز طور پر محروم کیے جانے کے مترادف ہے۔آبادی کی جبری منتقلیمغربی کنارے کے شمالی حصے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی کارروائی اب تیسرے مہینے میں داخل ہو چکی ہے۔ جینین اور تلکرم کے پناہ گزین کیمپوں سے نقل مکانی کرنے والوں کو واپسی سے روکا جا رہا ہے جبکہ بڑے پیمانے پر عمارتوں کی تباہی، کیمپوں کے اندر نئی سڑکیں اور رکاوٹیں تعمیر کرنے اور دیہات و قصبوں پر حملوں جیسی کارروائیاں جاری ہیں۔
ادارے نے کہا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ فلسطینیوں کی ان کیمپوں میں واپسی کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ یہ لوگ مستقل طور پر بے گھر ہو جائیں گے جو بین الاقوامی قانون کے تحت قابض طاقت کے ہاتھوں مقامی آبادی کی جبری منتقلی کے مترادف ہو گا۔