چاند پر انسانی بستی کے لیے بجلی کی فراہمی کا منصوبہ، ناسا نے نیوکلیئر ری ایکٹر پر کام تیز کردیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT
امریکی خلائی ادارہ ناسا چاند پر توانائی کے مستقل ذرائع کے لیے نئی تاریخ رقم کرنے جا رہا ہے۔ اس حوالے سے اس نے سنہ 2030 تک چاند پر ایک نیوکلیئر ری ایکٹر نصب کرنے کے منصوبے کو تیز کر دیا ہے۔ یہ قدم چاند پر انسانوں کے مستقل قیام کی امریکی خواہشات کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چاند پر پانی اور معدنیات کی تلاش کا مشن ناکام، ناسا کا لونا ٹریل بلیزر منصوبہ ختم
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب چین اور روس بھی چاند پر اپنے قدم مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ناسا کے قائم مقام سربراہ نے متنبہ کیا ہے کہ یہ ممالک مستقبل میں چاند پر ’داخلہ ممنوعہ زون‘ قائم کر سکتے ہیں یعنی مخصوص علاقوں پر دعویٰ کر کے دوسروں کو روک سکتے ہیں۔
اگرچہ ناسا کو حالیہ بجٹ میں 24 فیصد تک کٹوتی کا سامنا ہے اور مارس سیمپل ریٹرن سمیت کئی سائنسی منصوبے متاثر ہو رہے ہیں تاہم امریکی حکام اس نیوکلیئر منصوبے کو قومی سلامتی اور خلائی معیشت کے لیے ضروری قرار دے رہے ہیں۔
امریکی ٹرانسپورٹ سیکریٹری اور ناسا کے عبوری سربراہ شان ڈفی نے تجارتی کمپنیوں سے کم از کم 100 کلو واٹ توانائی پیدا کرنے والے نیوکلیئر ری ایکٹر کی تجاویز طلب کی ہیں۔ اگرچہ یہ مقدار زمین پر لگنے والے عام ونڈ ٹربائنز کے مقابلے میں کم ہے لیکن چاند جیسے مشکل ماحول کے لیے یہ ایک انقلابی قدم ہے۔
چاند پر سولر توانائی پر انحصار کیوں مشکل؟چاند پر ایک دن زمینی وقت کے مطابق تقریباً 4 ہفتے کا ہوتا ہے یعنی 2 ہفتے مسلسل سورج کی روشنی اور 2 ہفتے مکمل اندھیرا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف سولر توانائی پر انحصار مشکل ہے۔
مزید پڑھیے: ’بک مون‘ کے ساتھ سرخی مائل چاندنی رات کا نظارہ
ماہرین کے مطابق اگر چاند پر انسانوں کا مستقل قیام ممکن بنانا ہے تو نیوکلیئر توانائی ناگزیر ہے۔
یونیورسٹی آف سرے کے خلائی ماہر ڈاکٹر سنگ وولِم کے مطابق میگاواٹ سطح کی توانائی کے بغیر چاند پر انسانی بستی کا قیام ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیوکلیئر توانائی محض ایک آپشن نہیں بلکہ یہ ایک ناگزیر حقیقت ہے۔
چین اور روس بھی میدان میں2022 میں ناسا نے تین کمپنیوں کو نیوکلیئر ری ایکٹر ڈیزائن کرنے کے لیے 5 ملین ڈالر کے معاہدے دیے تھے۔ دوسری طرف چین اور روس نے رواں سال مئی میں اعلان کیا کہ وہ سنہ 2035 تک چاند پر خودکار نیوکلیئر پاور اسٹیشن بنانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
کائنات کی کھوج یا خلائی سیاست؟ماہرین اس منصوبے کو سائنسی سے زیادہ جغرافیئی سیاست سے جوڑتے ہیں۔ اوپن یونیورسٹی کے پلینیٹری سائنس کے ماہر ڈاکٹر سیمیون باربر کا کہنا ہے کہ اگرچہ مقابلہ جدت پیدا کر سکتا ہے لیکن جب توجہ صرف ملکی مفادات اور ملکیت پر مرکوز ہو جائے تو ہم اصل مقصد یعنی کائنات کی تلاش سے بھٹک سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: چین اور روس چاند پر ایٹمی بجلی گھر بنائیں گے
ناسا کا یہ منصوبہ “آرٹیمس معاہدے سے بھی جڑا ہوا ہے جس پر سنہ 2020 میں 7 ممالک نے دستخط کیے تھے تاکہ چاند پر پرامن سرگرمیوں کے اصول طے کیے جا سکیں۔ ان معاہدوں کے تحت ہر ملک اپنے آلات اور بیسز کے گرد حفاظتی حدود قائم کر سکتا ہے جسے بعض ماہرین ایک طرح کی ’چاند کی ملکیت‘ تصور کر رہے ہیں۔
کئی سوال ہنوز تشنہ طلبابھی اس حوالے سے کئی سوالات ایسے ہیں جن کے آسان جواب انسان کے پاس نہیں۔ چاند پر نیوکلیئر ری ایکٹر بھیجنا آسان نہیں۔ تابکار مواد کو زمین کے ماحول سے گزار کر خلا میں لے جانا ایک حساس عمل ہے اور اس کے لیے خصوصی اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ناسا کا آرٹیمس 3 مشن جو سنہ 2027 میں انسانوں کو چاند پر لے جانے کا ہدف رکھتا ہے وہ بھی تاخیر اور مالی مشکلات کا شکار ہے۔
ڈاکٹر باربر خبردار کرتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس چاند پر نیوکلیئر بجلی ہے لیکن وہاں پہنچنے کا راستہ ہی نہیں تو وہ بجلی کس کام کی؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایٹمی بجلی گھر چاند پر نیوکلیئر ری ایکٹر ناسا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایٹمی بجلی گھر چین اور روس کے مطابق چاند پر رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
آسٹریلیا نے دنیا کی سب سے طاقتور بیٹری لانچ کر دی! ایک گھنٹے میں 10 لاکھ گھر روشن
سڈنی(انٹرنیشنل ڈیسک) آسٹریلیا نے توانائی کے شعبے میں ایک بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے “وراتہ سپر بیٹری” کا باضابطہ طور پر افتتاح کر دیا ہے، جو اب آؤٹ پٹ کے لحاظ سے دنیا کی سب سے طاقتور بیٹری بن چکی ہے۔
یہ جدید سپر بیٹری Akaysha Energy کے زیرِ انتظام نیو ساؤتھ ویلز میں نصب کی گئی ہے۔ یہ اس وقت 350 میگاواٹ بجلی فراہم کر رہی ہے، جبکہ مستقبل میں اس کی صلاحیت کو 850 میگاواٹ تک بڑھانے اور ایک گھنٹے کے لیے 10 لاکھ گھروں کو بجلی فراہم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
وراتہ سپر بیٹری کو خاص طور پر آسٹریلوی گرڈ کو مستحکم کرنے کے لیے سسٹم انٹیگریٹی پروٹیکشن اسکیم (SIPS) کی سپورٹ کے طور پر تیار کیا گیا ہے، تاکہ وہ وقت سے پہلے کوئلے پر انحصار ختم کرتے ہوئے 2035 تک کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو بند کر سکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بیٹری ایک پرانے کوئلے کے پلانٹ کی جگہ پر تعمیر کی گئی ہے، اور یہ ملک میں شمسی توانائی کی غیر معمولی پیداوار کو بہتر طریقے سے منظم کرنے میں بھی مدد دے گی، خاص طور پر ان اوقات میں جب سورج کی روشنی کی بھرمار ہوتی ہے اور پیداوار روایتی ڈیمانڈ سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔
اگرچہ اس طرح کے منصوبے تکنیکی اور مالیاتی چیلنجز کے ساتھ آتے ہیں، مگر وراتہ سپر بیٹری آسٹریلیا کے صاف توانائی کی طرف بڑھتے ہوئے قدم کو ایک نئی جہت دیتی ہے، جو نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک قابلِ تقلید ماڈل بن سکتی ہے۔
یہ منصوبہ صاف توانائی کی طرف منتقلی میں آسٹریلیا کے عزم اور قیادت کا عملی ثبوت ہے۔
Post Views: 4