ایڈنبرگ(نیوز ڈیسک)ایک ایسا ملک سامنے آیا ہے جو لوگوں کو بہترین ملازمت کی پیشکش کر رہا ہے۔ یہ آفر اسکاٹ لینڈ سے سامنے آئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسکاٹ لینڈ کا ایک چھوٹا سا جزیرہ جہاں کوئی آباد نہیں اس کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ایک مینیجر کی تلاش ہے۔ ملازمت کے ساتھ رہنے کی جگہ بھی دی جائے گی جس کے لیے 31 ہزار ڈالر (پاکستانی 86 لاکھ سے زائد) کی سالانہ تنخواہ دی جائے گی۔

اسکاٹش وائلڈ لائف ٹرسٹ کو Handa جزیرے کی دیکھ بھال کے لیے ایک مینیجر درکار ہے، ہانڈا خوبصورت یورپی سمندری پرندوں کی شرح افزائش کے لیے ایک اہم مقام سمجھا جاتا ہے۔

ہانڈا کا جزیرہ سکاٹ لینڈ میں سدرلینڈ کے مغربی ساحل پر واقع ہے۔ اس میں چٹان کے حیرت انگیز نظارے ہیں اور آپ وہاں ایک فیری کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں جو تربت سے لوگوں کو ضرورت پڑنے پر لے جاتی ہے۔

یہاں ملازمت حاصل کرنے والا شخص کاموں کی منصوبہ بندی کرے گا، رضاکاروں کی ایک ٹیم کی قیادت کرے گا، جزیرے کی جنگلی حیات کی حفاظت کرے گا، اور ہر سال تقریباً 8 ہزار سیاحوں کی نگرانی بھی کرے گا۔

جزیرے پر کوئی مستقل رہائش اختیار نہیں کرسکتا، اس لیے یہ ملازمت کسی ایسے شخص کے لیے مثالی ہے جو شہر سے دور پرسکون، پرامن زندگی کو ترجیح دیتا ہوگا۔

یہاں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جزیرے پر ملازمت کے لیے آپ کو مخصوص قابلیت کی ضرورت نہیں ہے، لیکن یہ مددگار ہے اگر آپ کو جزیرے کی جنگلی حیات، بشمول زمین اور سمندر میں رہنے والے پودوں اور جانوروں کے بارے میں اچھی طرح معلومات ہو۔

علاوہ ازیں یہاں ملازمت کے لیے موجودہ ڈرائیونگ لائسنس اور گاڑی تک رسائی بھی ضروری ہوگی۔ آغاز میں یہ ملازمت 6 ماہ کے معاہدے کے ساتھ دی جائے گی اور 31 ہزار ڈالرز (6 ماہ کے لیے) تنخواہ دی جائے گی۔
مزیدپڑھیں:ایران: سپریم کورٹ کے باہر مسلح شخص نے فائرنگ کرکے 2 ججوں کو قتل کردیا

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دی جائے گی کے لیے کرے گا

پڑھیں:

اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ

وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز (اے سی سی) کے ملک چھوڑنے کی حکومتی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق پاکستان میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں افغان شہریوں کو اپنے سامان کے ساتھ طورخم اور چمن بارڈر عبور کرتے دیکھا گیا۔حکومت پاکستان کی جانب سے 31 مارچ سے ان افغان شہریوں کی ملک بدری کی دوسری مہم کا آغاز کیا تھا جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ تھا (ایک شناختی دستاویز جو 2017 میں پاکستانی اور افغان حکومتوں نے مشترکہ طور پر جاری کی تھی)۔

دراصل یہ 2023 میں شروع کی گئی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کی وطن واپسی تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں ان تمام افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا جن کے پاس شناختی ثبوت موجود نہیں تھے۔تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے کی جانے والی یہ ملک بدریاں افغانستان میں طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے، جنہیں اسلام آباد کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے کا ذمہ دار ٹہراتا جاتا ہے۔وزارت داخلہ کے مطابق ’اپریل 2025 کے دوران ایک لاکھ 529 افغان شہری پاکستان سے واپس اپنے ملک جاچکے ہیں۔27 سالہ اللہ رحمٰن نے ہفتے کے روز طورخم بارڈر پر اے ایف پی کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں پاکستان میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان نہیں گیا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں پولیس مجھے اور میرے خاندان کو ذلیل نہ کرے اور اب ہم بے بسی کے عالم میں افغانستان واپس جا رہے ہیں‘۔افغانستان کے وزیر اعظم حسن اخوند نے ہفتے کے روز پڑوسی ملک پاکستان کے ’یک طرفہ اقدامات‘ کی سخت مذمت کی جب کہ اس سے ایک روز قبل وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے افغان شہریوں کی واپسی کے معاملے پر کابل کا دورہ کیا تھا۔افغان شہریوں کی اکثریت رضاکارانہ طور پر واپس جارہی ہے تاکہ زبردستی ملک بدری سے بچ سکیں، لیکن اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق صرف اپریل میں پاکستان میں 12 ہزار 948 گرفتاریاں کی گئی جو گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہری اپنے ملک کی صورتحال سے فرار ہوکر پاکستان میں داخل ہوئے جب کہ 2021 میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے۔افغان شہریوں کی ملک بدری کی اس مہم کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے کیوں کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد افغان آبادی کی میزبانی سے اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔41 سالہ حجام تنویر احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغانی یہاں پناہ لینے آئے تھے لیکن پھر نوکریاں کرنے لگے، انہوں نے کاروبار کھول لیے اور پاکستانیوں سے نوکریاں چھین لیں جو پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔دوسری جانب یو این ایچ سی آر نے کا کہنا ہے کہ ملک بدر کیے جانے والے افغان شہریوں میں نصف سے زائد بچے ہیں جب کہ سرحد عبور کرنے والوں میں خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جو ایک ایسے ملک میں داخل ہورہی ہیں جہاں انہیں سیکنڈری تعلیم کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔

2023 میں واپسی کے پہلے مرحلے کے دوران، دستاویزات نہ رکھنے والے لاکھوں افغانوں کو زبردستی سرحد پار بھیج دیا گیا تھا۔مارچ میں اعلان کردہ دوسرے مرحلے میں حکومت پاکستان نے 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کے رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے اور ان ہزاروں افراد کو بھی خبردار کیا جو کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں کہ وہ اپریل کے آخر تک ملک چھوڑ دیں۔ایک دکاندار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان وہ کام کرتے ہیں جسے کرتے ہوئے پاکستانیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جیسے کچرا اٹھانا وغیر لیکن جب وہ چلے جائیں گے تو یہ کام کون کرے گا؟

متعلقہ مضامین

  • بیک وقت پینشن اور تنخواہ لینے پر پابندی عائد
  • دوبارہ سرکاری ملازمت پر پنشن یا تنخواہ میں سے صرف ایک سہولت ملے گی، وزارت خزانہ
  • بیک وقت پنشن اور تنخواہ لینے والے سرکاری ملازمین کو بڑا جھٹکا 
  • افسران کی گاڑیوں اور رہائش گاہوں سے متعلق اہم فیصلہ کر لیا گیا
  • بیک وقت پنشن اورتنخواہ لینے پر پابندی عائد
  • بیک وقت پینشن اورتنخواہ لینے پر پابندی عائد
  • ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت پر پینشن یا تنخواہ میں سے کوئی ایک چیز ملے گی، وزارت خزانہ نے آفس میمورنڈم جاری کر دیا
  • غزہ میں 6 لاکھ سے زائد بچوں کو مستقل فالج کا خطرہ
  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ
  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے: وزارت داخلہ