اسلام ٹائمز: دوسرا اہم نکتہ جنگ بندی کے بعد مقبوضہ فلسطین کی اندرونی صورتحال کے بارے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بن غفیر اور اسموتریچ جیسے انتہاپسند صیہونی سیاست دان جنگ بندی کے شدید مخالف ہیں اور عنقریب مستعفی ہونے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ ان کے مستعفی ہونے کا نتیجہ موجودہ حکومت کے خاتمے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ یوں مڈ ٹرم الیکشن کا انعقاد ہو گا اور موجودہ اتحاد کی دوبارہ کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لہذا نئی حکومت تشکیل پائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت صیہونی فوج، موساد اور حکومتی کابینہ کے درمیان طاقت کی شدید رسہ کشی جاری ہے۔ غزہ میں جاری جنگ نے بہت حد تک اس رسہ کشی پر پردہ ڈال رکھا تھا کیونکہ رائے عامہ کی توجہ جنگ پر مرکوز تھی۔ لیکن اب جنگ ختم ہو جانے کے بعد یہ رسہ کشی اور اختلافات کھل کر منظرعام پر آئیں گے جن کا نتیجہ شدید سیکورٹی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ تحریر: محمد علی زادہ
آخرکار اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ میں جنگ بندی قبول کرنے کا اعلان کر ہی دیا۔ صیہونی رژیم کے اندرونی حلقے جیسے وزیر سیکورٹی امور بن غفیر اس جنگ بندی کو فلسطین کی اسلامی مزاحمت کے ساتھ جنگ میں شکست کا واضح مصداق قرار دے رہے ہیں۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے کیے گئے دعووں کی روشنی میں طے یہ تھا کہ حماس مکمل طور پر نابود ہو جائے اور غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالی بھی فوجی طاقت (نہ جنگ بندی) کے ذریعے آزاد کروا لیے جائیں، لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صیہونی حکمران جنگ بندی کے اس معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں جس کا مقابل فریق حماس ہے۔ گذشتہ دو دن میں مقبوضہ فلسطین میں انجام پانے والے سرویز سے پوری حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔
61 فیصد اسرائیلی شہری نیتن یاہو کے اس وعدے پر اعتماد نہیں رکھتے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کی پٹی پر حماس کی حکومت ختم ہو جائے گی اور حماس تقریباً نابود ہو چکی ہے۔ اسی طرح صیہونی ٹی وی چینل 13 کی سروے رپورٹ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 61.
ایک اور اہم نکتہ جس پر توجہ ضروری ہے وہ نیتن یاہو کی کابینہ میں سیاسی بحران سے متعلق ہے۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی اتحادی حکومت کے درمیان حالیہ جنگ بندی معاہدے کے بارے میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بیزالل اسموتریچ کی سربراہی میں صیہونزم مذہبی پارٹی نے اتحادی حکومت میں باقی رہنے کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ نیتن یاہو اس بات کی یقنی دہانی کروائے کہ جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو جانے کے بعد جنگ دوبارہ شروع کر دی جائے گی۔ اس پارٹی نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے: "اپنے تمام یرغمالیوں کی واپسی کے شوق کے علاوہ صیہونزم مذہبی پارٹی اس معاہدے کی شدید مخالف ہے۔" مزید برآں، داخلہ سیکورٹی کے وزیر اور یہودی طاقت پارٹی کے سربراہ ایتمار بن غفیر نے بھی مخالفت کی ہے۔
بن غفیر نے نیتن یاہو کو دھمکی دی ہے کہ اگر غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ انجام پا جاتا ہے تو وہ موجودہ کابینہ سے مستعفی ہو جائے گا۔ بن غفیر اور اسموتریچ کی پارٹیوں کے پاس کینسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) کی کل 120 میں سے 14 سیٹیں ہیں اور یہ تعداد حکومت گرانے کے لیے کافی ہے۔ صرف بن غفیر کے پاس 6 سیٹیں ہیں۔ غزہ میں انجام پانے والا جنگ بندی معاہدہ کل 19 جنوری 2025ء کی صبح سے لاگو ہو جائے گا۔ مقبوضہ فلسطین میں سیاسی تجزیہ کاران کا خیال ہے کہ نیتن یاہو نے جنگ بندی مذاکرات میں جن تحفظات کا اظہار کیا تھا ان میں سے کسی کو بھی اہمیت نہیں دی گئی۔ نیتن یاہو نیتساریم اور فیلاڈیلفیا سے فوجی انخلاء نہیں چاہتا تھا لیکن جنگ بندی معاہدے میں واضح کیا گیا ہے کہ صیہونی فوج تین مرحلوں میں نیتساریم اور فیلاڈیلفیا سے باہر نکل جائے گی۔
دوسری طرف، حماس تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو پہلے مرحلے میں ہی آزاد نہیں کرے گا بلکہ تمام یرغمالی صرف اس وقت آزاد کیے جائیں گے جب یہ یقین حاصل ہو جائے گا کہ جنگ بندی اپنے آخری مرحلے میں یعنی مستقل جنگ بندی کے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ دوحہ مذاکرات میں جو جنگ بندی معاہدہ حاصل ہوا ہے وہ حماس پر مسلط نہیں کیا گیا بلکہ اس کے برعکس یہ معاہدہ اہل غزہ اور اسلامی مزاحمت کی بہت بڑی کامیابی ہے اور غزہ میں شدید انسانی بحران سے عبور ہے۔ جنگ کے آغاز میں نیتن یاہو نے وعدہ کیا تھا کہ وہ حماس کو ختم کر دے گا اور غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد اسرائیلی یرغمالیوں کو بھی آزاد کروا لے گا۔ لیکن تقریباً ڈیڑھ سال کی جنگ کے بعد بھی ان تینوں بنیادی اہداف میں سے ایک ہدف بھی حاصل نہیں ہو پایا۔
دوسرا اہم نکتہ جنگ بندی کے بعد مقبوضہ فلسطین کی اندرونی صورتحال کے بارے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بن غفیر اور اسموتریچ جیسے انتہاپسند صیہونی سیاست دان جنگ بندی کے شدید مخالف ہیں اور عنقریب مستعفی ہونے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ ان کے مستعفی ہونے کا نتیجہ موجودہ حکومت کے خاتمے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ یوں مڈ ٹرم الیکشن کا انعقاد ہو گا اور موجودہ اتحاد کی دوبارہ کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لہذا نئی حکومت تشکیل پائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت صیہونی فوج، موساد اور حکومتی کابینہ کے درمیان طاقت کی شدید رسہ کشی جاری ہے۔ غزہ میں جاری جنگ نے بہت حد تک اس رسہ کشی پر پردہ ڈال رکھا تھا کیونکہ رائے عامہ کی توجہ جنگ پر مرکوز تھی۔ لیکن اب جنگ ختم ہو جانے کے بعد یہ رسہ کشی اور اختلافات کھل کر منظرعام پر آئیں گے جن کا نتیجہ شدید سیکورٹی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مستعفی ہونے کا مقبوضہ فلسطین فیصد اسرائیلی جنگ بندی کے نیتن یاہو مستعفی ہو کا نتیجہ ہو جائے ہیں اور بن غفیر کے بعد
پڑھیں:
ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈز: پاکستان نے جنوبی افریقا کو 31 رنز سے شکست دے دی
انگلینڈ میں جاری ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈز میں پاکستان چیمپئنز نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنوبی افریقا چیمپئنز کو 31 رنز سے شکست دے دی۔
پاکستان چیمپئنز نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر 198 رنز بنائے اور جیت کے لیے 199 رنز کا ہدف دیا۔ عمر امین نے شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 58 رنز کی نصف سنچری اسکور کی جبکہ شعیب ملک 46 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔ دیگر بیٹسمینوں میں شرجیل خان نے 19، کامران اکمل نے 17، محمد حفیظ نے 8 اور آصف علی نے 11 گیندوں پر 23 رنز بنائے۔
جنوبی افریقا چیمپئنز کی جانب سے اولیور نے 2 وکٹیں حاصل کیں، جب کہ وین پارنیل اور جے پی ڈومینی کے حصے میں ایک، ایک وکٹ آئی۔
199 رنز کے ہدف کے تعاقب میں جنوبی افریقا چیمپئنز کی ٹیم 9 وکٹوں کے نقصان پر 167 رنز ہی بنا سکی۔ مورے وین وک نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے 20 گیندوں پر 44 رنز بنائے، تاہم ان کی اننگز ٹیم کو فتح نہ دلا سکی۔ ہاشم آملہ 12، جے پی ڈومینی 11 اور وین پارنیل 21 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔
پاکستان کی جانب سے بولنگ میں بھی شاندار کارکردگی دیکھنے میں آئی۔ کپتان محمد حفیظ اور سہیل تنویر نے دو، دو کھلاڑیوں کو پویلین بھیجا، جبکہ رومان رئیس، عماد وسیم، سہیل خان، شعیب ملک اور وہاب ریاض نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔
اس فتح کے ساتھ پاکستان چیمپئنز نے ٹورنامنٹ میں اپنی پوزیشن مزید مستحکم کرلی ہے اور شائقین کو ایک یادگار مقابلہ دیکھنے کو ملا۔