Islam Times:
2025-06-09@21:54:33 GMT

شیاطن کی شکست کا ڈومینو

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

شیاطن کی شکست کا ڈومینو

اسلام ٹائمز: دوسرا اہم نکتہ جنگ بندی کے بعد مقبوضہ فلسطین کی اندرونی صورتحال کے بارے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بن غفیر اور اسموتریچ جیسے انتہاپسند صیہونی سیاست دان جنگ بندی کے شدید مخالف ہیں اور عنقریب مستعفی ہونے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ ان کے مستعفی ہونے کا نتیجہ موجودہ حکومت کے خاتمے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ یوں مڈ ٹرم الیکشن کا انعقاد ہو گا اور موجودہ اتحاد کی دوبارہ کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لہذا نئی حکومت تشکیل پائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت صیہونی فوج، موساد اور حکومتی کابینہ کے درمیان طاقت کی شدید رسہ کشی جاری ہے۔ غزہ میں جاری جنگ نے بہت حد تک اس رسہ کشی پر پردہ ڈال رکھا تھا کیونکہ رائے عامہ کی توجہ جنگ پر مرکوز تھی۔ لیکن اب جنگ ختم ہو جانے کے بعد یہ رسہ کشی اور اختلافات کھل کر منظرعام پر آئیں گے جن کا نتیجہ شدید سیکورٹی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ تحریر: محمد علی زادہ
 
آخرکار اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ میں جنگ بندی قبول کرنے کا اعلان کر ہی دیا۔ صیہونی رژیم کے اندرونی حلقے جیسے وزیر سیکورٹی امور بن غفیر اس جنگ بندی کو فلسطین کی اسلامی مزاحمت کے ساتھ جنگ میں شکست کا واضح مصداق قرار دے رہے ہیں۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے کیے گئے دعووں کی روشنی میں طے یہ تھا کہ حماس مکمل طور پر نابود ہو جائے اور غزہ میں موجود اسرائیلی یرغمالی بھی فوجی طاقت (نہ جنگ بندی) کے ذریعے آزاد کروا لیے جائیں، لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صیہونی حکمران جنگ بندی کے اس معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں جس کا مقابل فریق حماس ہے۔ گذشتہ دو دن میں مقبوضہ فلسطین میں انجام پانے والے سرویز سے پوری حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔
 
61 فیصد اسرائیلی شہری نیتن یاہو کے اس وعدے پر اعتماد نہیں رکھتے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کی پٹی پر حماس کی حکومت ختم ہو جائے گی اور حماس تقریباً نابود ہو چکی ہے۔ اسی طرح صیہونی ٹی وی چینل 13 کی سروے رپورٹ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 61.

5 فیصد اسرائیلی غزہ میں جنگ بندی کے حق میں ہیں جبکہ 23.9 فیصد اسرائیلی اس کے مخالف ہیں۔ اس سروے رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 9.8 فیصد اسرائیلی شہریوں کا خیال ہے کہ معاہدے کا دوسرا مرحلہ یعنی غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ کا خاتمہ بھی انجام پانا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں، مقبوضہ فلسطین کے اکثر آبادکاروں کا عقیدہ ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے غزہ جنگ کے شروع میں جو دعوے کیے تھے ان کی کوئی حیثیت نہیں اور انہیں اہمیت نہیں دینی چاہیے۔
 
ایک اور اہم نکتہ جس پر توجہ ضروری ہے وہ نیتن یاہو کی کابینہ میں سیاسی بحران سے متعلق ہے۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی اتحادی حکومت کے درمیان حالیہ جنگ بندی معاہدے کے بارے میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بیزالل اسموتریچ کی سربراہی میں صیہونزم مذہبی پارٹی نے اتحادی حکومت میں باقی رہنے کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ نیتن یاہو اس بات کی یقنی دہانی کروائے کہ جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو جانے کے بعد جنگ دوبارہ شروع کر دی جائے گی۔ اس پارٹی نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے: "اپنے تمام یرغمالیوں کی واپسی کے شوق کے علاوہ صیہونزم مذہبی پارٹی اس معاہدے کی شدید مخالف ہے۔" مزید برآں، داخلہ سیکورٹی کے وزیر اور یہودی طاقت پارٹی کے سربراہ ایتمار بن غفیر نے بھی مخالفت کی ہے۔
 
بن غفیر نے نیتن یاہو کو دھمکی دی ہے کہ اگر غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ انجام پا جاتا ہے تو وہ موجودہ کابینہ سے مستعفی ہو جائے گا۔ بن غفیر اور اسموتریچ کی پارٹیوں کے پاس کینسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) کی کل 120 میں سے 14 سیٹیں ہیں اور یہ تعداد حکومت گرانے کے لیے کافی ہے۔ صرف بن غفیر کے پاس 6 سیٹیں ہیں۔ غزہ میں انجام پانے والا جنگ بندی معاہدہ کل 19 جنوری 2025ء کی صبح سے لاگو ہو جائے گا۔ مقبوضہ فلسطین میں سیاسی تجزیہ کاران کا خیال ہے کہ نیتن یاہو نے جنگ بندی مذاکرات میں جن تحفظات کا اظہار کیا تھا ان میں سے کسی کو بھی اہمیت نہیں دی گئی۔ نیتن یاہو نیتساریم اور فیلاڈیلفیا سے فوجی انخلاء نہیں چاہتا تھا لیکن جنگ بندی معاہدے میں واضح کیا گیا ہے کہ صیہونی فوج تین مرحلوں میں نیتساریم اور فیلاڈیلفیا سے باہر نکل جائے گی۔
 
دوسری طرف، حماس تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو پہلے مرحلے میں ہی آزاد نہیں کرے گا بلکہ تمام یرغمالی صرف اس وقت آزاد کیے جائیں گے جب یہ یقین حاصل ہو جائے گا کہ جنگ بندی اپنے آخری مرحلے میں یعنی مستقل جنگ بندی کے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ دوحہ مذاکرات میں جو جنگ بندی معاہدہ حاصل ہوا ہے وہ حماس پر مسلط نہیں کیا گیا بلکہ اس کے برعکس یہ معاہدہ اہل غزہ اور اسلامی مزاحمت کی بہت بڑی کامیابی ہے اور غزہ میں شدید انسانی بحران سے عبور ہے۔ جنگ کے آغاز میں نیتن یاہو نے وعدہ کیا تھا کہ وہ حماس کو ختم کر دے گا اور غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد اسرائیلی یرغمالیوں کو بھی آزاد کروا لے گا۔ لیکن تقریباً ڈیڑھ سال کی جنگ کے بعد بھی ان تینوں بنیادی اہداف میں سے ایک ہدف بھی حاصل نہیں ہو پایا۔
 
دوسرا اہم نکتہ جنگ بندی کے بعد مقبوضہ فلسطین کی اندرونی صورتحال کے بارے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بن غفیر اور اسموتریچ جیسے انتہاپسند صیہونی سیاست دان جنگ بندی کے شدید مخالف ہیں اور عنقریب مستعفی ہونے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ ان کے مستعفی ہونے کا نتیجہ موجودہ حکومت کے خاتمے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ یوں مڈ ٹرم الیکشن کا انعقاد ہو گا اور موجودہ اتحاد کی دوبارہ کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لہذا نئی حکومت تشکیل پائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت صیہونی فوج، موساد اور حکومتی کابینہ کے درمیان طاقت کی شدید رسہ کشی جاری ہے۔ غزہ میں جاری جنگ نے بہت حد تک اس رسہ کشی پر پردہ ڈال رکھا تھا کیونکہ رائے عامہ کی توجہ جنگ پر مرکوز تھی۔ لیکن اب جنگ ختم ہو جانے کے بعد یہ رسہ کشی اور اختلافات کھل کر منظرعام پر آئیں گے جن کا نتیجہ شدید سیکورٹی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کی صورت میں ظاہر ہو گا۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مستعفی ہونے کا مقبوضہ فلسطین فیصد اسرائیلی جنگ بندی کے نیتن یاہو مستعفی ہو کا نتیجہ ہو جائے ہیں اور بن غفیر کے بعد

پڑھیں:

ملک میں ڈیمز کی تعمیر کیلئے اجلاس، منصوبہ بندی کیلئے سفارشات پیش

اسلام آباد:

ملک میں آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں وسائل کے مؤثر استعمال اور طویل مدتی انفرا اسٹرکچر کی منصوبہ بندی کے لیے سفارشات پیش کی گئیں۔

نائب وزیراعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت ملک میں آبی ذخائر کی تعمیر کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا۔

اجلاس میں ملک بھر میں بڑے آبی ذخائر، ڈیمز کی تعمیر کے عمل کو تیز کرنے پر تفصیلی غور کیا گیا۔

شرکا نے وسائل کے مؤثر استعمال اور طویل مدتی انفرا اسٹرکچر منصوبہ بندی کے لیے سفارشات پیش کیں۔

نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ملک کو درپیش اور بڑھتے ہوئے آبی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فعال منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔

اسحاق ڈار نے اس سلسلے میں قومی سطح پر مربوط اور مشترکہ اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔

اجلاس میں پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم، وفاقی وزرا آبی وسائل، منصوبہ بندی، خزانہ، قانون و انصاف، وزیراعظم کے بین الصوبائی رابطہ اور وزیراعظم آفس کے مشیروں، ڈپٹی وزیراعظم آفس کے معاون خصوصی، اقتصادی امور، آبی وسائل، کابینہ، خزانہ اور منصوبہ بندی کے وفاقی سیکریٹریز، چیئرمین فیڈرل بورڈ ّریونیو (ایف بی آر)، چیف سیکریٹری بلوچستان اور دیگر اہم اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔

متعلقہ مضامین

  • یورپی یونین کا نیتن یاہو کے وارنٹ جاری کرنے والے آئی سی سی ججوں کی حمایت کا اعلان
  • جنوبی لبنان میں امریکہ و اسرائیل، یونیفل مشن کے خاتمے کے خواہاں
  • ملک میں ڈیمز کی تعمیر کیلئے اجلاس، منصوبہ بندی کیلئے سفارشات پیش
  • غزہ میں صیہونی بربریت جاری، مزید 36 فلسطینی شہید، درجنوں زخمی
  • آج کا پاکستان کل جیسا نہیں رہا! نئی صف بندی؟
  • نیتن یاہو ہر مسئلے میں جھوٹ بولتا ہے، اسرائیلی صحافی کا اعلان
  • نیتن یاہو ہر مسئلے میں جھوٹ بولتا ہے، اسرائیلی صحافی
  • نیتن یاہو کا اعتراف: حماس کو کمزور کرنے کے لیے غزہ میں مسلح گروہوں کو فعال کیا
  • جوکر مودی!
  • اسرائیل جنگبندی یا اپنے فوجیوں کے مزید تابوتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے، ابو عبیدہ کا انتباہ