Nai Baat:
2025-11-03@14:36:09 GMT

فلسطینیوں کو مبارک ہو

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

فلسطینیوں کو مبارک ہو

سواسال بعدجنگ بندی معاہدے کی صورت میںمظلوم اورنہتے فلسطینیوں کے سامنے وقت کے بدمست ہاتھی اسرائیل کایہ حال دیکھ کرنہ صرف دل باغ باغ ہوگیابلکہ یہ ایمان اوریقین بھی مزیدپختہ ہواکہ حق کے مقابلے میں باطل انشاء اللہ اسی طرح ہمیشہ مغلوب،ذلیل اوررسواہوتارہے گا،جنگ بندی کے اس معاہدے میں اسرائیل سمیت باطل کے ہربچونگڑے اورپیروکارکے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ باطل کاآخری سٹاپ،منزل اور مقدر اگر مغلوب ہونانہ ہوتاتواسرائیل پندرہ ماہ تک ایڑی چوٹی کازورلگانے کے بعدبھی غزہ کے کوچے سے اس طرح بے آبروہوکرنہ نکلتا۔اپنی پوری طاقت، قوت، ناپاک عزائم اورفرعونی لاؤلشکرسمیت مظلوم، مجبور، لاچار، بے بس اورنہتے فلسطینیوں پر چڑھائی کرنے والے نیتن یاہوکایہ خیال اورگمان تھاکہ وہ طاقت کے زورپرارض مقدس کوقبضہ کرلیں گے لیکن نیتن یاہواوران جیسے باطل کے پیروکاریہ بھول گئے تھے کہ وقت کے ہرظالم،جابراورفرعون کاانجام آخررسوائی اورپسپائی ہی ہے۔غزہ میں سواسال سے جاری اسرائیلی جارحیت اوربربریت میں پچپن ہزارسے زائدبے گناہ،معصوم اورنہتے فلسطینی شہید ہوئے۔شہداء میں اکثریت معصوم بچوں،خواتین اوربزرگوں کی ہے۔ اسرائیل نے پندرہ ماہ کے اس ظلم، جبراوربربریت میں ظلم کے وہ وہ پہاڑتوڑے جسے دیکھ کرانسان کیاشیطان بھی شرماجائے۔طاقت کے نشے میں مدہوش اسرائیلی دہشتگردوں نے غزہ کوفتح کرنے کے چکرمیں اخلاقیات کیا۔؟انسانی حقوق کوبھی پاؤں تلے روندڈالا۔نیتنی سورماؤں نے غزہ پرچڑھائی کے دوران جہاں بچوں،عورتوں اوربزرگوں میں کوئی فرق نہیں کیاوہیں انہوں نے ہسپتالوں اورتعلیمی اداروں تک کابھی خیال نہیں رکھا۔ سخت سے سخت جنگ کے دوران بھی بچوں، خواتین، بزرگوں اور ہسپتالوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا لیکن اسرائیلی فوج نے سواسال کی جنگ کے دوران معصوم اورکمسن بچوں، خواتین، بزرگوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنا کر ہلاکو خان اورچنگیزخان کوبھی پیچھے چھوڑ دیا۔ جو ظلم اسرائیلی درندوں نے مظلوم فلسطینیوں پرڈھایاایساکام اگرکوئی مسلمان کسی ایک کافرکے خلاف بھی کرتا تو اسرائیل سے امریکہ تک باطل کے ہرآلہ کاراورپیروکارنے آسمان سرپراٹھاکرنہ صرف انسان حقوق کا رونا رونا تھا بلکہ ہر طرف اخلاقیات کے نعرے بھی لگانے تھے پرافسوس پندرہ ماہ تک انبیاء کی سرزمین پرنہ صرف اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی گئیں بلکہ انسانی حقوق کے پرخچے بھی اڑائے گئے مگرباطل کے کسی گورے اور کالے پیروکار کے کانوں پرجوں تک بھی نہیں رینگی۔ سواسال تک اسرائیلی دہشتگردمظلوم اورنہتے فلسطینیوں کومرغیوں کی طرح ذبح اورمولی گاجرکی طرح کاٹتے رہے۔ غزہ کو آگ وبارود کا ڈھیر بنا کر آبادیوں کانام ونشان تک مٹا دیا گیا لیکن اسرائیل کے اس ظلم، جبر اور بربریت کے باوجود مظلوم فلسطینی عزم واستقامت کے پہاڑ بنے کھڑے رہے۔ پچپن سے زائد اسلامی ممالک، کروڑوں مسلمانوں اورقدآورمسلم حکمرانوں کی خاموشی، لاپرواہی اوربے حسی کواپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعدبھی مظلوم اورنہتے فلسطینی اسرائیل سے نہ شکست مانے اورنہ ہی ہمت ہارے بلکہ یہ ہاتھوں میں پتھر، غلیل اورڈنڈے اٹھاکرصیہونیوں کے خلاف سینہ تان کرکھڑے رہے۔جس طرح مظلوم کشمیری برسوں سے بھارتی جارحیت، بربریت اورظلم کے خلاف پہاڑ بن کر کھڑے ہیں اسی طرح مظلوم فلسطینی بھی اسرائیل کی بھاری طاقت،جدید ہتھیاروں اورظلم وجبرکے خلاف ایک طویل عرصے سے سیسہ پلائی ہوئی دیواربن کرنہ صرف کھڑے بلکہ ڈٹے رہے ہیں۔یہ باغیرت اورنڈرفلسطینیوں کی انہی لازوال قربانیوں،ہمت،جرات اوربہادری کاثمرونتیجہ ہے کہ باطل کے لے پالک اسرائیل کوتمام تر طاقت اور قوت کے باوجود مذاکرات اور معاہدے کی میز پر آ کر نہتے فلسطینیوں سے امن معاہدہ کرنا پڑا۔ اسرائیل کاپندرہ ماہ کی بدمعاشی اورغنڈہ گردی کے بعدجنگ بندی کے معاہدے پرناک رگڑنایہ مظلوم فلسطینیوں کی وہ تاریخی فتح ہے جسے تاریخ میں ہمیشہ یادرکھاجائے گا۔اس جنگ بندی کے بارے میں دنیاچاہے کچھ بھی کہے لیکن سچ اورحق یہ ہے کہ ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں اٹھاکراسرائیلی بدمعاشی،بدقماشی اورظلم وجبرکامقابلہ کرنے والے مظلوم ونہتے فلسطینیوں نے طاقت کے گھمنڈمیں باؤلے ہونے والے نیتن یاہواوران کے پیروکاروں وآلہ کاروں کاغرورخاک میں ملادیاہے اب اسرائیل سمیت ان کے تمام پشتی بانوں کوبھی اندازہ ہواہوگاکہ حق کے لئے لڑنے والے خالی ہاتھ ہی کیوں نہ ہوں ان کامقابلہ کرناآسان نہیں،اسرائیلی تویہ سمجھ رہے تھے کہ وہ پائوں دبائیں گے توفلسطینی آگے سے بھاگ جائیں گے لیکن انہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ فلسطینی بھاگنے والے نہیں بلکہ بھگانے والے ہیں۔چھپن اسلامی ممالک اور کروڑوں مسلمانوں کی خاموشی وبے حسی کے باوجودمظلوم فلسطینیوں نے ایک ظالم، جابر اور ناجائزریاست کے خلاف تن تنہاء کھڑے ہوکریہ ثابت کردیاہے کہ عزم بلند،ارادے پختہ،مقاصدنیک اورقوم ایک ہوں توباطل کی کوئی طاقت اورقوت چاہے وہ نیٹوکی شکل میں ہویاناجائزاسرائیل کی صورت میں نہتے مسلمانوں کابھی کچھ نہیں بگاڑسکتی،نیٹوکوالٹے پائوں بھگانے والے بھی نہتے مسلمان تھے،اب غزہ سے بوریابسترگول کرجانے والوں کے خلاف بھی خالی ہاتھ والے مسلمان ہی ہیں۔اسرائیل نے غزہ کے ساتھ فلسطینیوں کے دل اوروجودکوبھی خون سے رنگین اورزخمی زخمی کیالیکن سلام ہے ان فلسطینی ماؤں، بہنوں، بھائیوں اور بیٹیوں کو کہ اس ظلم اور جبر کے بعدبھی ان کے قدم ایک لمحے کے لئے بھی نہیں ڈگمگائے۔فلسطینی کل بھی حق کے لئے لڑرہے تھے اوریہ آج بھی سروں پرکفن باندھ کراپنے حق کے لئے کھڑے ہیں۔اللہ سے دعاہے کہ انبیاء کی اس سرزمین اوریہاں رہنے والے تمام مسلمانوں کوباطل کے تسلط سے مکمل آزادکرکے اسرائیل اوراس کے پشتی بانوں کوفرعون کی طرح دنیاکے لئے عبرت کا نشان بنادے۔آمین۔مظلوم فلسطینیوں کوصبرآزماجدوجہداورلازوال قربانیوں کے بعدفتح کی یہ شروعات بہت بہت مبارک ہو۔خداکرے کہ باطل کی رسوائی اوراسرائیل کی پسپائی کایہ سفراسی طرح جاری رہے۔آمین۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: مظلوم فلسطینی باطل کے کے خلاف کے لئے

پڑھیں:

غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے

اسلام ٹائمز: اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

نومبر 2024ء میں لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا، اکتوبر 2025ء میں غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ غزہ جنگ بندی معاہدے میں بڑے بڑے کھلاڑیوں نے جنگ بندی کی ضمانت لی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی دنیا اس بات کی شاہد ہے کہ غزہ میں جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔ آئے روز فلسطینیوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ نیتن یاہو مسلسل غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں انجام دے رہا ہے۔ معاہدے کے وقت بھی دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کا یہی کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو قابل اعتبار نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ماضی ایسی ہی سیاہ تاریخ سے بدنما ہے کہ جہاں امن اور معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی سب کچھ لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ہوچکا ہے کہ مسلسل لبنان کے مختلف علاقوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی طور پر انتشار پھیلانے کی امریکی کوششیں بھی تیز ہوچکی ہیں۔

غزہ کا معاملہ ہو یا پھر لبنان کا، دونوں میں ہمیں نظر آتا ہے کہ جنگ بند نہیں ہوئی، بلکہ جنگ تو جاری ہے۔ قتل عام جاری ہے۔ دہشت گردی جاری ہے۔ انسانیت و ظلم کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں اب دنیا کے انسانوں کی ذمہ داری کیا ہونی چاہیئے۔؟ مجھے یہاں اس نقطہ پر رک کر یہ کہنے دیجئے کہ ہمیں بھی اس ظلم اور دہشتگردی کے مقابلہ میں پہلے ہی کی طرح ظالم کے خلاف ہر قسم کا احتجاج، بائیکاٹ اور پروگرام جاری رکھنا چاہیئے، اس عنوان سے زیادہ سے زیادہ شعوری مہم کو بڑھانی چاہیئے، تاکہ غاصب اسرائیلی دشمن کو اس کے ناپاک عزائم اور معصوم انسانوں کے قتل عام سے روکا جائے۔

غزہ اور لبنان میں جنگ کی ایک نئی شکل سامنے آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بمباری کی شدت میں کمی آئی ہو، لیکن جنگ رکی نہیں، اس نے صرف شکل بدلی ہے۔ یہ صرف اس لئے کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو نارملائز کیا جائے اور دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کو فلسطین اور لبنان کے مسائل سے ہٹائی کی جائے۔ فلسطین کے علاقے ہوں یا لبنان ہو، دونوں مقامات پر ہی اسرائیلی فضائی حملے، ڈرون حملے اور سرحد پار سے گولہ باری مختلف بہانوں سے جاری ہے، جبکہ جنوبی لبنان تو بدستور خطرے میں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک منظم تشدد ہے، جہاں اسرائیل اپنی مرضی سے حملہ کرتا ہے، معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فلسطین و لبنان اس کے نتائج کو برداشت کرتے ہیں۔

امریکہ اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی یہ بات اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اب ایک بڑی اور کھلم کھلا جنگ کی طرف جاتا ہے تو اس کا ہدف ناقابل رسائی ہے، کیونکہ وہ پہلے ہی ایک طویل جنگ میں ناکامی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف مکمل جنگ شروع کرتا ہے تو اس کا ایک ہی حقیقی مقصد ہوگا کہ لبنان کی مزاحمت یعنی حزب اللہ کو ہمیشہ کے لیے کچلنا اور ختم کرنا۔ 1982ء کے بعد سے ہر اسرائیلی مہم اسی عزائم کے گرد گھومتی رہی ہے، بیروت پر حملے سے لے کر 2006ء کی جنگ تک امریکہ اور اسرائیل انہی مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کی جنگ کے باوجود اسرائیل کبھی بھی حزب اللہ کو عسکری یا سیاسی طور پر ختم نہیں کرسکا۔ دراصل یہ حزب اللہ کی بڑی کامیابی ہے۔

تمام جنگوں نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مقصد ناقابل رسائی ہے۔اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ فیصلہ کن فتح ناممکن ہے۔ کوئی بھی مکمل جنگ جو حزب اللہ کو تباہ کرنے میں ناکام رہتی ہے، اس کے بجائے اسے مضبوط کرے گی تو اسرائیل جنگ میں کیوں جائے گا۔؟ اس کا جواب محدود مقاصد میں ہے۔ اسرائیل کے چھوٹے پیمانے پر حملے اور قتل و غارت گری حکمت عملی کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے، یعنی مخصوص اہداف کو تباہ کرنا، حزب اللہ کی جدید کاری میں تاخیر، یا ڈیٹرنس کا اشارہ دینا۔ یہی حکمت عملی اسرائیل نے غزہ میں حماس کے خلاف اپنائی ہے کہ وہاں بھی حماس کو غیر مسلح کرنا اور ختم کرنا لیکن تمام تر طاقت اور کوششوں کے باوجود اسرائیل کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔

بموں کے ذریعے یہ جمود اسرائیل کو اپنے دفاعی نظام کو جانچنے اور ڈیٹرنس اور طاقت کے اپنے گھریلو بیانیہ کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تل ابیب کے نقطہ نظر سے، یہ سب سے بہتر ممکنہ نتیجہ ہے کہ فوجی مداخلت کی ایک مسلسل مہم جو بھاری اسرائیلی ہلاکتوں سے بچتی ہے اور حزب اللہ کوبڑی کارروائیوں سے دور رکھتی ہے۔ لہذا اس وقت اسرائیل مسلسل لبنان میں محدود قسم کی کارروائیوں کو انجام دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ بھی اپنی طاقت کو از سر نو جمع کر رہی ہے۔ کیونکہ عمارتوں کی تباہی اور شخصیات کے قتل سے حزب اللہ کبھی بھی نہ تو کمزور ہوئی ہے اور نہ ہی ختم کی جا سکتی ہے، کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم یا جماعت نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور نظریہ ہے، جو نسل در نسل پروان چڑھتا ہے۔

دوسری طرف غزہ اور لبنان کی مزاحمت اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ اسرائیل مکمل جنگ نہیں چاہتا اور یہ کہ ایسی کوئی بھی جنگ اسرائیل کے اندرونی محاذ کو لبنان کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت امتحان دے گی۔ مزاحمت جتنی دیر تک برقرار رہتی ہے، اتنا ہی یہ مستقبل کے کسی بھی تصادم کی شرائط کو اپنے حساب کتاب سے تشکیل دے سکتی ہے۔ اگر اسرائیل کبھی مکمل جنگ شروع کرتا ہے اور اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو یہ مزاحمت کی وجہ سے ناکامی ہوگی۔ کچھ اشارے اس بات کے بھی موجود ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ہوا سے حملہ کرنے اور سرخ لکیروں کی جانچ کرنے پر راضی ہے، جبکہ مزاحمت برداشت کرتی ہے اور جوابی حملہ کرنے کے لیے صحیح وقت کا انتظار کررہی ہے۔ کوئی بھی پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ توازن کب تبدیل ہو جائے گا۔

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اس خطے میں جنگیں اکثر غلط حساب کتاب سے شروع ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک ہی جوابی حملہ یا چھاپہ مار کارروائی سے ہی جنگ کا حساب تبدیل ہو جاتا ہے۔ جو بات یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر حالات میں بھی مزاحمت زندہ رہتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ مزاحمت اس پیمانے پر جوابی کارروائی کرے گی، جسے اسرائیل نظر انداز نہیں کرسکتا اور وہ لمحہ ایک اور جنگ کا آغاز کرے گا، جو انتخاب سے باہر نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سفارت کاری ناکام ہوچکی ہے۔ اسرائیل سفارتی درخواستوں یا بین الاقوامی اپیلوں کا جواب نہیں دیتا۔ اب اگر مزاحمت کی جانب سے کارروائیوں کا آغاز ہو تو یہ جنگ کو توسیع دینے کے لیے نہیں بلکہ بمباری کو روکنے کے سادہ حق کے لیے ہوگی۔ خلاصہ یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارے اور اتحاد سب کے سب ناکام ہوچکے ہیں اور جنگ رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور اس جنگ کو صرف مزاحمت کی زبان سے ہی روکا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں، تازہ حملوں میں 7 افراد شہید
  • غزہ میں مسلسل اسرائیل کی جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، بلال عباس قادری
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • وزیر اعظم کی اسلام آباد بار، پنجاب بار کونسل کے انتخابات میں انڈیپینڈنٹ گروپ کی برتری پر مبارک باد
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • غزہ میں اسرائیل فضائی حملے کے دوران نوجوان فلسطینی باکسر شہید
  • غزہ کی امداد روکنے کیلئے "بنی اسرائیل" والے بہانے
  • اسرائیل نے 30 فلسطینیوں کی لاشیں واپس کردیں، غزہ پر بمباری سے مزید شہادتیں
  • اسرائیلی پابندیوں سے فلسطینیوں کو خوراک و پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے، انروا
  • اسرائیل  نے 30 فلسطینیوں کی لاشیں ناصر اسپتال کے حوالے کردیں