سواسال بعدجنگ بندی معاہدے کی صورت میںمظلوم اورنہتے فلسطینیوں کے سامنے وقت کے بدمست ہاتھی اسرائیل کایہ حال دیکھ کرنہ صرف دل باغ باغ ہوگیابلکہ یہ ایمان اوریقین بھی مزیدپختہ ہواکہ حق کے مقابلے میں باطل انشاء اللہ اسی طرح ہمیشہ مغلوب،ذلیل اوررسواہوتارہے گا،جنگ بندی کے اس معاہدے میں اسرائیل سمیت باطل کے ہربچونگڑے اورپیروکارکے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ باطل کاآخری سٹاپ،منزل اور مقدر اگر مغلوب ہونانہ ہوتاتواسرائیل پندرہ ماہ تک ایڑی چوٹی کازورلگانے کے بعدبھی غزہ کے کوچے سے اس طرح بے آبروہوکرنہ نکلتا۔اپنی پوری طاقت، قوت، ناپاک عزائم اورفرعونی لاؤلشکرسمیت مظلوم، مجبور، لاچار، بے بس اورنہتے فلسطینیوں پر چڑھائی کرنے والے نیتن یاہوکایہ خیال اورگمان تھاکہ وہ طاقت کے زورپرارض مقدس کوقبضہ کرلیں گے لیکن نیتن یاہواوران جیسے باطل کے پیروکاریہ بھول گئے تھے کہ وقت کے ہرظالم،جابراورفرعون کاانجام آخررسوائی اورپسپائی ہی ہے۔غزہ میں سواسال سے جاری اسرائیلی جارحیت اوربربریت میں پچپن ہزارسے زائدبے گناہ،معصوم اورنہتے فلسطینی شہید ہوئے۔شہداء میں اکثریت معصوم بچوں،خواتین اوربزرگوں کی ہے۔ اسرائیل نے پندرہ ماہ کے اس ظلم، جبراوربربریت میں ظلم کے وہ وہ پہاڑتوڑے جسے دیکھ کرانسان کیاشیطان بھی شرماجائے۔طاقت کے نشے میں مدہوش اسرائیلی دہشتگردوں نے غزہ کوفتح کرنے کے چکرمیں اخلاقیات کیا۔؟انسانی حقوق کوبھی پاؤں تلے روندڈالا۔نیتنی سورماؤں نے غزہ پرچڑھائی کے دوران جہاں بچوں،عورتوں اوربزرگوں میں کوئی فرق نہیں کیاوہیں انہوں نے ہسپتالوں اورتعلیمی اداروں تک کابھی خیال نہیں رکھا۔ سخت سے سخت جنگ کے دوران بھی بچوں، خواتین، بزرگوں اور ہسپتالوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا لیکن اسرائیلی فوج نے سواسال کی جنگ کے دوران معصوم اورکمسن بچوں، خواتین، بزرگوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنا کر ہلاکو خان اورچنگیزخان کوبھی پیچھے چھوڑ دیا۔ جو ظلم اسرائیلی درندوں نے مظلوم فلسطینیوں پرڈھایاایساکام اگرکوئی مسلمان کسی ایک کافرکے خلاف بھی کرتا تو اسرائیل سے امریکہ تک باطل کے ہرآلہ کاراورپیروکارنے آسمان سرپراٹھاکرنہ صرف انسان حقوق کا رونا رونا تھا بلکہ ہر طرف اخلاقیات کے نعرے بھی لگانے تھے پرافسوس پندرہ ماہ تک انبیاء کی سرزمین پرنہ صرف اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی گئیں بلکہ انسانی حقوق کے پرخچے بھی اڑائے گئے مگرباطل کے کسی گورے اور کالے پیروکار کے کانوں پرجوں تک بھی نہیں رینگی۔ سواسال تک اسرائیلی دہشتگردمظلوم اورنہتے فلسطینیوں کومرغیوں کی طرح ذبح اورمولی گاجرکی طرح کاٹتے رہے۔ غزہ کو آگ وبارود کا ڈھیر بنا کر آبادیوں کانام ونشان تک مٹا دیا گیا لیکن اسرائیل کے اس ظلم، جبر اور بربریت کے باوجود مظلوم فلسطینی عزم واستقامت کے پہاڑ بنے کھڑے رہے۔ پچپن سے زائد اسلامی ممالک، کروڑوں مسلمانوں اورقدآورمسلم حکمرانوں کی خاموشی، لاپرواہی اوربے حسی کواپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعدبھی مظلوم اورنہتے فلسطینی اسرائیل سے نہ شکست مانے اورنہ ہی ہمت ہارے بلکہ یہ ہاتھوں میں پتھر، غلیل اورڈنڈے اٹھاکرصیہونیوں کے خلاف سینہ تان کرکھڑے رہے۔جس طرح مظلوم کشمیری برسوں سے بھارتی جارحیت، بربریت اورظلم کے خلاف پہاڑ بن کر کھڑے ہیں اسی طرح مظلوم فلسطینی بھی اسرائیل کی بھاری طاقت،جدید ہتھیاروں اورظلم وجبرکے خلاف ایک طویل عرصے سے سیسہ پلائی ہوئی دیواربن کرنہ صرف کھڑے بلکہ ڈٹے رہے ہیں۔یہ باغیرت اورنڈرفلسطینیوں کی انہی لازوال قربانیوں،ہمت،جرات اوربہادری کاثمرونتیجہ ہے کہ باطل کے لے پالک اسرائیل کوتمام تر طاقت اور قوت کے باوجود مذاکرات اور معاہدے کی میز پر آ کر نہتے فلسطینیوں سے امن معاہدہ کرنا پڑا۔ اسرائیل کاپندرہ ماہ کی بدمعاشی اورغنڈہ گردی کے بعدجنگ بندی کے معاہدے پرناک رگڑنایہ مظلوم فلسطینیوں کی وہ تاریخی فتح ہے جسے تاریخ میں ہمیشہ یادرکھاجائے گا۔اس جنگ بندی کے بارے میں دنیاچاہے کچھ بھی کہے لیکن سچ اورحق یہ ہے کہ ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں اٹھاکراسرائیلی بدمعاشی،بدقماشی اورظلم وجبرکامقابلہ کرنے والے مظلوم ونہتے فلسطینیوں نے طاقت کے گھمنڈمیں باؤلے ہونے والے نیتن یاہواوران کے پیروکاروں وآلہ کاروں کاغرورخاک میں ملادیاہے اب اسرائیل سمیت ان کے تمام پشتی بانوں کوبھی اندازہ ہواہوگاکہ حق کے لئے لڑنے والے خالی ہاتھ ہی کیوں نہ ہوں ان کامقابلہ کرناآسان نہیں،اسرائیلی تویہ سمجھ رہے تھے کہ وہ پائوں دبائیں گے توفلسطینی آگے سے بھاگ جائیں گے لیکن انہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ فلسطینی بھاگنے والے نہیں بلکہ بھگانے والے ہیں۔چھپن اسلامی ممالک اور کروڑوں مسلمانوں کی خاموشی وبے حسی کے باوجودمظلوم فلسطینیوں نے ایک ظالم، جابر اور ناجائزریاست کے خلاف تن تنہاء کھڑے ہوکریہ ثابت کردیاہے کہ عزم بلند،ارادے پختہ،مقاصدنیک اورقوم ایک ہوں توباطل کی کوئی طاقت اورقوت چاہے وہ نیٹوکی شکل میں ہویاناجائزاسرائیل کی صورت میں نہتے مسلمانوں کابھی کچھ نہیں بگاڑسکتی،نیٹوکوالٹے پائوں بھگانے والے بھی نہتے مسلمان تھے،اب غزہ سے بوریابسترگول کرجانے والوں کے خلاف بھی خالی ہاتھ والے مسلمان ہی ہیں۔اسرائیل نے غزہ کے ساتھ فلسطینیوں کے دل اوروجودکوبھی خون سے رنگین اورزخمی زخمی کیالیکن سلام ہے ان فلسطینی ماؤں، بہنوں، بھائیوں اور بیٹیوں کو کہ اس ظلم اور جبر کے بعدبھی ان کے قدم ایک لمحے کے لئے بھی نہیں ڈگمگائے۔فلسطینی کل بھی حق کے لئے لڑرہے تھے اوریہ آج بھی سروں پرکفن باندھ کراپنے حق کے لئے کھڑے ہیں۔اللہ سے دعاہے کہ انبیاء کی اس سرزمین اوریہاں رہنے والے تمام مسلمانوں کوباطل کے تسلط سے مکمل آزادکرکے اسرائیل اوراس کے پشتی بانوں کوفرعون کی طرح دنیاکے لئے عبرت کا نشان بنادے۔آمین۔مظلوم فلسطینیوں کوصبرآزماجدوجہداورلازوال قربانیوں کے بعدفتح کی یہ شروعات بہت بہت مبارک ہو۔خداکرے کہ باطل کی رسوائی اوراسرائیل کی پسپائی کایہ سفراسی طرح جاری رہے۔آمین۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: مظلوم فلسطینی باطل کے کے خلاف کے لئے
پڑھیں:
ایک سال میں بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: گزشتہ ایک سال کے دوران بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
پاکستان میں معاشی دباؤ، بڑھتی مہنگائی اور مقامی سطح پر روزگار کی کمی ایک عرصے سے عوام کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنے بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک کا رخ کریں۔ حالیہ اقتصادی سروے رپورٹ نے اس رجحان کی ایک چونکا دینے والی تصویر پیش کی ہے، جس کے مطابق صرف رواں مالی سال میں لاکھوں پاکستانیوں نے روزگار کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑ کر غیرملکی سرزمین پر قدم رکھا ہے۔
یہ رپورٹ نہ صرف اعداد و شمار کا ایک مجموعہ ہے بلکہ اس میں وہ تلخ حقیقت بھی جھلکتی ہے جس کا سامنا پاکستانی نوجوان روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ رواں سال میں مجموعی طور پر جو پاکستانی ملازمت کے لیے بیرون ملک گئے، ان کی تعداد 7 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان میں سے ہر ایک شخص ایک خواب، ایک امید اور ایک جدوجہد لے کر سرحد پار گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ افراد صوبہ پنجاب سے بیرون ملک روانہ ہوئے، جہاں معاشی حالات اور آبادی کے دباؤ نے اس رجحان کو اور تیز کر دیا ہے۔ پنجاب سے مجموعی طور پر 4 لاکھ 4 ہزار 345 افراد نے دیگر ممالک میں روزگار کی تلاش میں ہجرت کی۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ صوبہ بھر میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں یا جو موجود ہیں وہ خاطر خواہ تنخواہ یا معیار زندگی فراہم نہیں کرتے۔
دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا رہا، جہاں سے ایک لاکھ 87 ہزار افراد نے غیرملکی ملازمتوں کے لیے رجوع کیا۔ صوبے میں اگرچہ ترسیلات زر کا ایک مضبوط کلچر موجود ہے، تاہم اتنی بڑی تعداد میں نقل مکانی اس بات کی علامت ہے کہ مقامی سطح پر معاشی بہتری کے دعوے زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے۔
تیسرے نمبر پر سندھ سے 60 ہزار 424 افراد بیرون ملک گئے، جو کہ خاص طور پر شہری علاقوں میں بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ کے بیشتر افراد مشرق وسطیٰ کے ممالک، بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب گئے جہاں تعمیرات، ڈرائیونگ، سیکورٹی اور دیگر خدمات کی شعبہ جات میں روزگار کے مواقع دستیاب تھے۔
رپورٹ میں ملک کے دیگر علاقوں کی صورتحال بھی سامنے لائی گئی ہے، جو کم توجہ کے باوجود قابلِ غور ہے۔ سابقہ فاٹا، اب ضم شدہ قبائلی اضلاع سے 29 ہزار 937 افراد نے ملک چھوڑا۔ ان علاقوں میں تعلیمی اور پیشہ ورانہ مواقع کی کمی پہلے ہی عوام کو بیرونی دنیا کی طرف متوجہ کرتی رہی ہے، اور موجودہ اعداد و شمار اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر سے 29 ہزار 591 افراد نے روزگار کے لیے ہجرت کی، جس میں زیادہ تر لوگ برطانیہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کی طرف گئے۔ یہ تعداد خاص طور پر اس لیے اہم ہے کیونکہ آزاد کشمیر میں پہلے سے ہی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے، جس کا اثر نوجوانوں کی سوچ پر بھی پڑتا ہے۔
اسلام آباد جو کہ ملک کا دارالحکومت اور نسبتاً خوشحال شہر تصور کیا جاتا ہے، وہاں سے بھی 8 ہزار 621 افراد نے بیرون ملک ملازمت کو ترجیح دی۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روزگار کی کمی صرف پسماندہ علاقوں تک محدود نہیں رہی بلکہ بڑے شہروں تک پھیل چکی ہے۔
بلوچستان سے صرف 5 ہزار 668 افراد نے بیرون ملک ہجرت کی، جو نسبتاً کم تعداد ضرور ہے لیکن اسے بلوچستان کی آبادی اور رسائی کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہاں بنیادی سہولیات، تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے محدود وسائل عوام کو عالمی مارکیٹ کے لیے مکمل تیار نہیں کر پاتے۔
اسی طرح شمالی علاقہ جات، جیسے گلگت بلتستان وغیرہ سے صرف 1692 افراد نے بیرون ملک روزگار کے لیے سفر کیا۔ یہ تعداد کم ضرور ہے لیکن ان علاقوں میں روزگار کے مواقع کی قلت اور انفرا اسٹرکچر کی عدم موجودگی مستقبل میں اس رجحان کو بڑھا سکتی ہے۔
اقتصادی سروے کی یہ رپورٹ محض ایک عددی تجزیہ نہیں دیتی، بلکہ اس سے یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ آخر ہماری ریاست، حکومتیں اور ادارے کب اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے؟ کیا بیرون ملک جانے والے ہر پاکستانی کا خواب، عزت کی روٹی کمانا، ہمیں ایک قومی پالیسی بنانے پر مجبور نہیں کرتا؟ کیا ہمیں ملک میں ایسے حالات فراہم نہیں کرنے چاہییں کہ ہماری افرادی قوت ملک میں ہی استعمال ہو؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر ہماری معیشت کے لیے اہم ضرور ہیں، لیکن مسلسل بڑھتی ہجرت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو وہ مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں جن کی وہ حق دار ہے۔ اگر اس رجحان کو روکنا ہے تو ہمیں تعلیم، ہنر مندی، روزگار کی فراہمی اور کاروباری مواقع کے شعبوں میں فوری اور دیرپا اقدامات کرنے ہوں گے۔