انسانی آنکھ کتنے میگا پکسلز کی ہوتی ہے
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
کیمروں آج کے دور میں ہماری روزمرہ کی زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے جس میں سب کو زیادہ سے زیادہ میگا پکسلز چاہیے ہوتے ہیں۔
لیکن کیا آپ نے کبھی اپنی آنکھ کے بارے میں سوچا ہے کہ اس میں کتنے میگا پکسل پائے جاتے ہیں؟
انسانی آنکھ تقریباً 576 میگا پکسلز (ایم پی) کے برابر ہے۔ مطلب دنیا و آسمان کے نظاروں کو ان کے اصل رنگ اور شفافیت سے دیکھنے کیلئے انسانی آنکھ کو 576 ایم پی درکار ہوتے ہیں۔
میگا پکسلز دراصل کسی بھی تصویر میں پکسلز کی تعداد کی پیمائش ہوتی ہے۔ ایک میگا پکسل ایک ملین پکسلز کے برابر ہوتا ہے۔
انسانی آنکھ کی ریزولیوشن کا تخمینہ مقامی تفصیلات کی مقدار سے لگایا جاتا ہے جو انسان آنکھ میں سمانے والے منظر میں دیکھ سکتا ہے۔
انسانی آنکھ کی ریزولوشن اس وقت سب سے زیادہ ہوتی ہے جب منظر تبدیل ہورہا ہوتا ہے۔
لیکن اگر وہ ایک ہی منظر میں ہو تو ریزولوشن بہت کم ہوتی ہے، تقریباً 5 سے 15 میگا پکسلز۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید ترین کیمرے بھی پوری طرح سے انسانی آنکھ کی بصری صلاحیتوں کی نقل نہیں کر سکتے ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتی ہے
پڑھیں:
خون آلود ویٹو
اسلام ٹائمز: تاریخ ہر گز نہیں بھولے گی کہ اس لمحے جب دنیا غزہ میں جاری نسل کشی روکنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف تھی، امریکہ نے ان کوششوں کی مخالفت کی اور نسل کشی کا ساتھ دیا۔ یہ ویٹو نہ صرف سفارتی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ غزہ میں جاری اسرائیل کے انسان سوز مظالم، جنگی جرائم اور نسل کشی جیسے مجرمانہ اقدامات میں امریکہ کے شریک ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آسان الفاظ میں یہ کہ اگر آج غزہ کے کسی مہاجر کمیپ میں کوئی بچہ قتل ہوتا ہے یا کوئی ماں اپنے بچے کی لاش پر گریہ کناں نظر آتی ہے تو اس خون آلود تصویر میں وائٹ ہاوس بھی برابر کا شریک ہے۔ امریکہ کے اس ویٹو کے بعد یہ سوال سنجیدگی سے سامنے آیا ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کی حامل سیکورٹی کونسل کس حد تک امن اور انسانی حقوق کی حفاظت کرنے کی طاقت اور جواز رکھتی ہے؟ امریکہ کے بار بار کے ویٹو نے اسے ایک بے اثر اور ناکارہ ادارہ بنا دیا ہے۔ تجرہر: رسول قبادی
اس رات جب غزہ کی پٹی میں بسنے والے دو کروڑ سے زائد خوف، بھوک اور جلاوطنی کے مارے فلسطینیوں کی امید اقوام متحدہ سے لگی ہوئی تھی، صرف ایک ووٹ نے ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا اور وہ امریکہ کا ویٹو تھا۔ امریکہ نے اس اقدام کے ذریعے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ انسانی حقوق کا حامی نہیں بلکہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے مسلسل مجرمانہ اقدامات اور انسانیت سوز مظالم کا حامی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بدھ کے روز کئی ماہ سے جاری قتل و غارت اور جلاوطنی کے بعد غزہ کے بارے میں ہنگامی اجلاس منعقد کیا جس میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی فراہمی اور دونوں طرف کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر مشتمل قرارداد پیش کی گئی۔ سیکورٹی کونسل کے 10 اراکین نے مل کر یہ قرارداد پیش کی تھی اور اسے کل 15 اراکین میں سے 14 کی حمایت بھی حاصل ہو گئی لیکن امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا۔
جھوٹی زبان اور خون میں لت پت ہاتھ
اقوام متحدہ میں امریکہ کے نمائندے دوروتی شی نے عجیب موقف اختیار کرتے ہوئے دعوی کیا کہ چونکہ اس قرارداد میں "حماس" کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا لہذا وہ قابل قبول نہیں ہے۔ اس نے کہا: "ہم کسی ایسی قرارداد کی حمایت نہیں کریں گے جس میں حماس کی مذمت نہ کی گئی ہو۔" لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ غزہ کی پٹی میں انجام پا رہا ہے وہ ایک غاصب رژیم کی اسلحہ سے لیس فوج اور بے پناہ کروڑوں عام شہریوں کے درمیان جنگ ہے۔ دوسری طرف واشنگٹن ایسے ناقابل قبول بہانوں کے ذریعے دسیوں ہزار انسانوں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، کے قتل عام کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ٹرمپ حکومت نے بھی بائیڈن حکومت کی جانب سے پانچ بار جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کرنے کے بعد پہلی بار ویٹو کر کے اپنے ووٹرز کو بھی مایوس کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ، ایک ووٹ کے محاصرے میں
امریکہ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کیے جانے نے ایک بار پھر سلامتی کونسل کی ناقص ترکیب کو عیاں کر دیا ہے۔ ایسا ادارہ جہاں صرف ایک ملک باقی تمام رکن ممالک کے ووٹ کو بے اثر کر سکتا ہے۔ روس کے نمائندے ویسیلے نبینزیا اس بارے میں کہتے ہیں: "اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ عالمی امن کی محافظ ہونے کی بجائے امریکہ کے جیوپولیٹیکل اندازوں کی اسیر ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "سلامتی کونسل کی جانب سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان 80 سالہ جنگ کے تناظر میں عالمی امن اور استحکام کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لینے کا ایک اور موقع ضائع ہو گیا ہے۔" دوسری طرف چین نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کی جانب سے ویٹو کی شدید مذمت کی ہے۔
اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب فو کونگ نے امریکہ کے اس اقدام کو "ویٹو کی طاقت کا شر پر مبنی غلط استعمال" قرار دیا اور کہا: "واشنگٹن نے انتہائی بے رحمی سے غزہ کی عوام کی امید ختم کر دی ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "جب سے غزہ میں جنگ شروع ہوئی ہے دنیا دیکھ رہی ہے کہ انسانی امداد کو ایک ہتھیار میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مزید برآں، سویلین انفرااسٹرکچر کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور صحافیوں اور امدادی کارکنوں کا وحشیانہ قتل عام ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے اقدامات نے انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی تمام سرخ لکیریں پار کر دی ہیں اور سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں نیز عالمی عدالت انصاف کے جاری کردہ احکامات کو بھی پامال کر دیا ہے۔ اس کے باوجود ایک مخصوص ملک (امریکہ) کی حمایت سے عالمی قوانین کی یہ خلاف ورزیاں مسلسل جاری ہیں۔"
یورپ بھی امریکہ کا مخالف
شاید اس بار جو چیز پہلے سے بہت زیادہ مختلف تھی وہ برطانیہ جیسے ممالک کا موقف تھا۔ سلامتی کونسل میں لندن کے نمائندے نے کہا: "ہم نے اس قرارداد کی حمایت کی ہے کیونکہ غزہ میں انسانی صورتحال ناقابل برداشت ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "اسرائیل کو چاہیے کہ وہ فوراً غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کی محدودیت ختم کر دے۔" اس برطانوی سفارتکار نے کہا: "اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فوجی آپریشن کا دائرہ بڑھانے کے فیصلے کا کوئی جواز نہیں اور ہمیں اس پر اعتراض ہے۔" دوسری طرف انسانی حقوق کے اداروں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے امریکہ کے ویٹو کی مذمت سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کا یہ اقدام ایک سفارتی اقدام نہیں بلکہ "جرم میں شریک ہونا" ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل نے اپنے بیانیے میں کہا: "یہ ویٹو اسرائیل کو اہل غزہ کی نسل کشی جاری رکھنے اور عام شہریوں کو بھوکا رکھنے کے لیے سبز جھنڈی دکھانے کے مترادف ہے۔"
امریکہ شریک جرم ہے
تاریخ ہر گز نہیں بھولے گی کہ اس لمحے جب دنیا غزہ میں جاری نسل کشی روکنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف تھی، امریکہ نے ان کوششوں کی مخالفت کی اور نسل کشی کا ساتھ دیا۔ یہ ویٹو نہ صرف سفارتی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ غزہ میں جاری اسرائیل کے انسان سوز مظالم، جنگی جرائم اور نسل کشی جیسے مجرمانہ اقدامات میں امریکہ کے شریک ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آسان الفاظ میں یہ کہ اگر آج غزہ کے کسی مہاجر کمیپ میں کوئی بچہ قتل ہوتا ہے یا کوئی ماں اپنے بچے کی لاش پر گریہ کناں نظر آتی ہے تو اس خون آلود تصویر میں وائٹ ہاوس بھی برابر کا شریک ہے۔ امریکہ کے اس ویٹو کے بعد یہ سوال سنجیدگی سے سامنے آیا ہے کہ موجودہ سیٹ اپ کی حامل سیکورٹی کونسل کس حد تک امن اور انسانی حقوق کی حفاظت کرنے کی طاقت اور جواز رکھتی ہے؟ امریکہ کے بار بار کے ویٹو نے اسے ایک بے اثر اور ناکارہ ادارہ بنا دیا ہے۔