سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ آج کل عدالت کے لیے سب سے مشکل کام اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانا ہے، عدالت اگر فیصلے پر عمل درآمد نہ کراسکے تو اس کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے۔لاہور میں جانوروں کے حقوق سے متعلق ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کیسز کی سنوائی ہوئی.

جبری گمشدگی کے حوالے سے فیصلہ اسی عدالت عالیہ نے دیا، بنیادی حقوق کے بارے میں بہت سے فیصلے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ملیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کے لیے سب سے مشکل کام اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانا ہے.عدالت اگر فیصلے پر عمل درآمد نہ کراسکے تو اس کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جنرل ضیاالحق نے سری لنکا کی حکومت سے درخواست کی تھی کہ اس کی بیٹی ایک ہاتھی کا بچہ رکھنا چاہتی ہے. ہاتھی بھی ہمارے انسانوں کی طرح بہت اموشنل ہوتے ہے. 3 سالہ ہاتھی کا بچہ سری لنکا سے پاکستان آیا اور ایک بیک یارڈ میں رکھا گیا وہ بچہ بڑا ہوتا گیا اور تب ضیا الحق نے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد میں چڑیا گھر بنایا جائے اور اسے وہاں رکھا جائے۔انہوں نے کہا کہ جب میں اس بارے سوچ رہا تھا تو اسی وقت میں جبری گمشدگی کے کیسز بھی دیکھ رہا تھا. بطور جج اس درد کو سمجھتا ہوں کسی کا عزیز جبری گمشدہ کر دیا جائے تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو غیر آئینی طریقے سے عہدے سے ہٹا کر قتل کیا گیا جس میں سپریم کورٹ بھی استعمال ہوئی. جنرل ضیا الحق کا دور سب سے خوفناک تھا، اس دور میں ٹارچر سیلز بنائے گئے، لوگوں کو مہینوں عقوبت خانوں میں رکھا جاتا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پاکستان میں انسان محفوظ نہیں تو جانوروں کی بات کیوں کی جائے. ججوں پر بات کی جاتی ہے قانون تو ایک ہے. لیکن ججمنٹ کیوں مختلف ہوتی ہے، قانون ایک ہوتا ہے لیکن کیس کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔عدالت عظمٰی کے جج کا کہنا تھا کہ جانوروں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ان کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔فاضل جج کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں بہترین اسلامی اسکولز موجود ہیں.ہمیں اسکول کے دور میں حقیقت سے برعکس پڑھایا جاتا رہا، شیر کے رہن سہن کے بارے میں جو پڑھایا گیا وہ حقیقی زندگی سے بالکل برعکس تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے بنی گالہ کی خوبصورتی کو داغدار کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ٹاؤن پلانر نے اسے جانوروں کے قیام کی بہترین جگہ قرار دیا تھا. مگر اشرافیہ نے وہاں رہائش گاہیں قائم کرکے قدرتی خوبصورتی کو نقصان پہنچایا۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس اطہر من اللہ نے کہنا تھا کہ نے کہا کہ

پڑھیں:

سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایسٹر کی تقریب، مسیحی برادری کی خدمات کا اعتراف

سپریم کورٹ اعلامیہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس، جسٹس منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ کے مسیحی ملازمین کے لیے ان کے ساتھ ایسٹر تقریب میں خصوصی شرکت کی اور کیک کاٹا۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ میں کرسمس تقریب کا انعقاد

جسٹس منصور علی شاہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بین المذاہب ہم آہنگی کی اہمیت اور تفہیم پر زور دیا۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستانی عدلیہ آئین میں دی گئی مذہبی آزادی، مساوات اور انسانی توقیر کی اقدار کی حفاظت کے عزم کو دہراتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مسیحی برادری کو پُرامن ایسٹر کی مبارکباد، وزیراعظم شہباز شریف

اُنہوں نے عدلیہ کے لیے مسیحی برادری کی خدمات کو سراہا اور مسیحی ملازمین اور اُن کے اہل خانہ کو ایسٹر کی مبارکباد دی۔

تقریب میں سپریم کورٹ ججز اور عدالتی ملازمین نے شرکت کے ذریعے مذہبی اور ثقافتی تنوّع پر یقین کے حوالے سے اپنے عزم کی توثیق کی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئین ایسٹر جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ مذہبی ہم آہنگی مسیحی برادری

متعلقہ مضامین

  • نہروں پر کام بند: معاملہ 2 مئی کو مشترکہ مفادات کونسل میں پیش ہو گا، وزیراعظم: باہمی رضامندی کے بغیر کچھ نہیں ہو گا، بلاول
  • وزیراعظم کی یقین دہانی پر شکر گزار ہوں، بلاول بھٹو
  • جب تک مشترکہ مفادات کونسل میں باہمی رضامندی سے فیصلہ نہیں ہوتا مزید نہر نہیں بنائی جائے گی، وزیراعظم
  • دعا کی طاقت… مذہبی، روحانی اور سائنسی نقطہ نظر
  • ڈی جی والڈ سٹی کامران لاشاری نے عہدے سے استعفیٰ دیدیا
  • سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایسٹر کی تقریب، مسیحی برادری کی خدمات کا اعتراف
  • عمر سرفراز چیمہ وہی ہیں جو گورنر تھے؟ سپریم کورٹ کا استفسار
  • یہ عمر سرفراز چیمہ  وہ ہے جو گورنر رہے ہیں؟سپریم کورٹ کا استفسار
  • ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ
  • ’طعنہ دینے ہمارے ووٹوں سے ہی صد بنے‘بلاول بھٹو کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا اللہ کا ردعمل