WE News:
2025-11-03@18:27:47 GMT

عمران خان اور ’کٹھ پتلی‘ حکومت سے مذاکرات

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

عمران خان کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔ تحریک انصاف اور حکومتی کمیٹیوں کے مذاکرات عملی طور پر شروع ہونے سے پہلے ہی ’لا حاصل‘ ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اِدھر مذاکرات کی بات شروع ہوتی ہے اُدھر خان صاحب کی دھمکی آمیز ٹویٹ آ جاتی ہے۔ مذاکرات کے باقاعدہ آغاز سے قبل ہی عمران خان کی طرف سے وزیراعظم شہباز شریف کو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ’کٹھ پتلی اور اردلی‘ قرار دینے پر حکومتی وزرا سیخ پا ہوگئے اور کہنے لگے کہ ایسے حالات میں مذاکرات آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں۔

حکومتی کمیٹی کے ارکان کہتے ہیں 2 ملاقاتوں میں تحریک انصاف کی کمیٹی نے ہر اگلی ملاقات کے لیے ہفتے کا وقت مانگ لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف شاید 20 جنوری سے پہلے کوئی بات آگے نہیں بڑھانا چاہتی، کیونکہ ان کی نظریں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری پر لگی ہیں کہ شاید وہ حلف اٹھاتے ہی گرین لینڈ خریدنے یا قبضہ کرنے کے بعد وہ فوراً پاکستان کی مقتدرہ کو عمران خان کی رہائی کےاحکامات صادر کردیں گے۔ مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ افغانستان سے اچانک فوجی انخلا کے بعد امریکی مفادات اس خطے میں ختم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اگرچہ چین کے سی پیک منصوبے پر امریکا سنجیدہ تحفظات رکھتا ہے، مگر عین ممکن ہے وہ عمران خان کی رہائی کے بجائے اپنا فوکس سی پیک ہی پر رکھے۔

یہ بھی پڑھیں:سیاستدان اور معیاری تعلیم کا خواب؟

عمران خان کی تند و تیز ٹوئٹس کے پیچھے بہت سے عوامل ہوسکتے ہیں، مگر 2 بہت اہم ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بیرونی دباؤ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کردے گا یوں انہیں رہائی مل جائے گی اور دوسرا شاید ان کے خیال میں موجودہ حکومت سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں کر پائے گی، اور انہیں جیل سے نکالے بغیر سیاسی استحکام ممکن نہیں۔ وہ اپنی ہر ٹویٹ کے ذریعے ملک کی سیاست میں ایک ہیجانی صورت حال برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

اعصاب کی اس جنگ میں جیت کس کی ہوگی کوئی نہیں جانتا۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے عمران خان کے 2 بڑے مطالبات ہیں۔ تحریک انصاف کے تمام سیاسی اسیران کی رہائی اور 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر 31 جنوری تک جوڈیشل کمیشن بنانا۔ ایک طرف عمران خان کہتے ہیں کہ وہ تمام مقدمات کا سامنا کریں گے دوسری طرف وہ اپنے سمیت تمام رہنماؤں کی رہائی بھی چاہتے ہیں۔

پچھلے کچھ عرصے سے بیک ڈور رابطوں کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان سمیت بعض رہنماؤں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خفیہ رابطوں کی تصدیق کی ہے، مگر دوسری جانب سے مکمل خاموشی ہے۔ علیمہ خان نے کہا کہ 26 نومبر کو ڈی چوک کی بجائے سنگجانی میں احتجاج کرنے کے بدلے میں عمران خان کی رہائی کی یقین دہانی کرائی گئی۔ مگر بانی پی ٹی آئی نے صاف انکار کر دیا۔ اپنی حالیہ ٹوئٹ میں عمران خان کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ سنگجانی کے مقام پر احتجاج کے بدلے میں انہیں رہائی کی آفر کی گئی۔ ان کی اپنی جماعت اور فیملی میں تضادات کی بھرمار ہے۔

بیرون ملک پاکستانیوں سے خان صاحب کی ترسیلات زر کے بائیکاٹ کی اپیل بھی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی تو دسمبر) میں ریکارڈ 17 اعشاریہ 845 ارب ڈالر پاکستان بھیجے۔ یعنی ان میں 4 اعشاریہ 4 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:نیا سال اور نئی سیاسی چالیں

عمران خان کی حکومت گرنے کے بعد بھی یہی تاثر تھا کہ عمران خان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر دنیا بھر میں مقیم پاکستانی ترسیلات زر بھیجنا بند کردیں گے۔ مگر ہر سال لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی بیرون ملک جا رہے ہیں اور اسی طرح ترسیلات زر بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستان میں حکومت کوئی بھی ہو ان میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی کسی سیاسی لیڈر یا وزیراعظم کو ترسیلات نہیں بھیجتے بلکہ وہ اپنے خاندان کو سپورٹ کرتے ہیں جسے وہ کسی سیاسی لیڈر کے کہنے پر بند نہیں کر سکتے۔

دھواں دھار تقرریں، جلسے، امریکا، اسٹیبلشمنٹ اور تمام سیاسی جماعتوں پر سازش کے زریعے حکومت گرانے کے الزامات، پھر 9 مئی اور 26 نومبر، عمران خان تمام حربے استعمال کرچکے، مگر شنوائی نہیں ہو رہی۔ اب آخری امید امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ رہ گئے ہیں کہ شاید وہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر ان کی رہائی کا بندوبست کردیں۔ چور حکمرانوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے نعرے لگانے والے عمران خان اب حکومت کے ساتھ مشروط مذاکرات کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ مگر حکومت ان مذاکرات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔

یہ بھی پڑھیں:نوجوانوں کو بیرون ملک جانے سے کیسے روکیں؟

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف تنہائی اور اندرونی خلفشار کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ موجودہ حالات میں حکومت کی سینیئر قیادت عمران خان کی کسی ڈیل کے نتیجے میں رہائی کے حق میں نہیں ہے۔ اگرچہ عام تاثر یہ ہے کہ عمران خان کی رہائی سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا جس سے ملک میں معاشی استحکام کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اس نے تمام مشکل فیصلے کر لیے اور اب معیشت کی بہتری کے اثرات نظر آنا شروع ہوچکے ہیں۔ اب اسے ڈر ہے کہ عمران خان کی واپسی ان کی مشکلات میں اضافہ کرسکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد ولید

آرمی چیف حکومت شہبازشریف عمران خان مذاکرات معیشت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا رمی چیف حکومت شہبازشریف مذاکرات عمران خان کی رہائی تحریک انصاف ان کی رہائی بیرون ملک کے ساتھ ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

پی ٹی آئی کی اصل قیادت جیل میں ہے، باہر موجود لوگ متعلقہ نہیں: فواد چوہدری

سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی اصل قیادت جیل میں ہے، عمران خان نے بیرسٹر گوہر اور سلمان اکرم راجا کو اس لیے رکھا ہے کہ وہ خود معاملات کنٹرول کرسکیں، سہیل آفریدی کو بھی اسی لیے لایا گیا ہے۔

شاہ محمود قریشی سے ملاقات سے متعلق نجی ٹی وی پروگرام میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا کہ یہ ان کی شاہ محمود قریشی سے واحد ملاقات نہیں ہے، میں ان سے کئی بار ملا ہوں، اعجاز چوہدری اور محمود الرشید سے بھی کئی بار ملا ہوں۔ جو لوگ باتیں کر رہے ہیں وہ چونکہ جیلوں میں ان لوگوں کو ملنے نہیں گئے، اس لیے انہیں لگ رہا ہے کہ یہ کیسے ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں: محاذ آرائی ترک کیے بغیر پی ٹی آئی کے لیے موجودہ بحران سے نکلنا ممکن نہیں، فواد چوہدری

فواد چوہدری نے کہا کہ شاہ محمود قریشی، اعجاز چوہدری، محمود الرشید اور یاسمین راشد نے تین ماہ قبل عمران خان کو خط لکھا تھا، جس میں مذاکرات کے ذریعے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی بات کی گئی تھی، ہم ان کی اس بات سے متفق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت مذاکرات نہیں کرتی تو پی ٹی آئی کے پاس کیا آپشن ہوگا سوائے اس کے کہ وہ دھرنا دے، لانگ مارچ کرے اور حکومت اسے روکے گی۔ اب حکومت کے ساتھ شاہ محمود قریشی، اعجاز چوہدری، محمود الرشید، یاسمین راشد اور چمر چیمہ ہی مذاکرات کر سکتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو عمران خان کے ساتھ جا کر بات کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سہیل آفریدی اور ان کی کابینہ میں بہت اچھے اور قابل لوگ ہیں، لیکن عمران خان اور ان میں بہت فاصلہ ہے۔ حکومت ایک قدم آگے آئے اور پی ٹی آئی ایک قدم پیچھے ہٹے۔ عمران خان نے ایک دم آ کے وزیرِاعظم نہیں بن جانا، پہلے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی کوشش کریں۔ حکومت پی ٹی آئی رہنماؤں کی ضمانت ہونے دے اور بشریٰ بی بی اور عمران خان کو جیل میں اے کلاس دے تاکہ سیاسی ٹمپریچر نیچے آئے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے پارٹی رہنماؤں سے ملاقات میں کیا ہدایات دیں؟ شیخ وقاص اکرم نے تفصیلات بتادیں

ان کا کہنا تھا کہ اڑھائی ماہ قبل اڈیالہ جیل میں ان کی عمران خان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ لوگ آپ کے نام پر یوٹیوب پر پیسے بنا رہے ہیں، وکیلوں کو فیس دینے کے لیے آپ کے نام پر فنڈنگ ہو رہی ہے۔ ٹھیک ہے کہ حکومت نے آپ کو اندر رکھا ہوا ہے لیکن آپ کے لوگ بھی آپ کو باہر نہیں آنے دیں گے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی اور حکومت کی مخاصمت میں ملک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ آج پی ٹی آئی جو کچھ ہے وہ ہماری وجہ سے ہے، شیخ وقاص کی وجہ سے نہیں جو دو سال سے پشاور میں چھپے ہوئے ہیں، بل سے باہر نہیں آئے۔ تکلیفیں اور دکھ سب نو مئی سے پہلے پی ٹی آئی پر ہیں، میں خود نو مہینے جیل میں رہا۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ لیڈر شپ میں کوئی بھی ایک دن کے لیے جیل نہیں گیا، ان کی دیہاڑیاں لگی ہوئی ہیں۔ ان کو ڈر یہی ہے کہ ہمارے فارمولے میں عمران خان پلس ہوں گے یا مائنس ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کرائے پر لائی گئی ہے، فواد چوہدری

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے عثمان بزدار اور محمود خان کو بھی وزیرِاعلیٰ بنایا تھا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ وہ خود کنٹرول کر کے صوبے چلائیں۔ ابھی بھی عمران خان نے سہیل آفریدی جیسے لوگوں کو اسی لیے سامنے لایا ہے کہ وہ پارٹی کو خود کنٹرول کر سکیں، تو ایسا ہی ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ابھی اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ اور سینیئر وزرا سے کہہ رہے ہیں کہ ہم ان سے ملنا چاہتے ہیں، ان سے ہم یہ درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ آپ پہل کریں، آپ ریلیف دیں گے تو ملک کا ٹمپریچر نیچے آئے گا۔ جیل میں بیٹھے عقلمند لوگوں کو عمران خان کے ساتھ بیٹھنے دیں۔ عمران خان کے لیے سب بہتر لوگ وہی ہیں جو دو سال سے جیل میں ہیں، مجھے عمران خان سے ملنے کی اجازت دی جائے تو میں بھی مل سکتا ہوں۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ عمران خان کے قریب رہ کر خود کو متعلقہ رکھنا چاہتے ہیں۔ بانی نے بیرسٹر گوہر، سلمان اکرم راجا جیسے لوگوں کو اس لیے رکھا ہوا ہے کہ معاملات خود کنٹرول کرسکیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اڈیالہ جیل اعجاز چوہدری بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی عمران خان فواد چوہدری مذاکرات میاں محمود الرشید وفاقی حکومت یاسمین راشد

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند
  • عمران کی رہائی اولین ترجیح، کارکن  سرگرمیاں جاری رکھیں:سہیل آفریدی 
  • ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
  • پی ٹی آئی کی اصل قیادت جیل میں ہے، باہر موجود لوگ متعلقہ نہیں: فواد چوہدری
  • شاہ محمود قریشی نے عمران خان کی رہائی مہم میں شمولیت کی مبینہ پیشکش مسترد کر دی
  • عمران خان کی رہائی کے لیے ایک اور کوشش ،سابق رہنماؤں نے اہم فیصلہ کرلیا ۔
  • خیبرپختونخوا کابینہ ممبران کے محکموں کا باضابطہ اعلامیہ جاری،شفیع اللہ جان معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر
  • جب کوئی پیچھے سے دھمکی دے تو مذاکرات پر برا اثر پڑتا ہے: طالبان حکومت کے ترجمان
  •  عمران خان کی رہائی کےلیے تحریک چلانے کا اعلان
  • پاک افغان تعلقات اورمذاکرات کا پتلی تماشہ