جنگلی ڈرائی فروٹ جو صرف بلوچستان میں کھایا جاتا ہے
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
بلوچستان کے خشک میو ہ جات اپنی مثال آپ ہیں۔ یہاں کے ڈرائی فروٹ کی اعلیٰ کوالٹی ان کو دیگر علاقوں کے ڈرائی فروٹ سے منفرد بناتی ہے۔ بلوچستان میں ایک ایسا جنگلی خشک میوہ بھی بڑے چاؤ سے کھایا جاتا ہے جسے مقامی زبان میں شنے کہا جاتا ہے۔
شنے یوں تو افغانستان کے مختلف پہاڑی جنگلات میں جھاڑیوں پر پائے جاتے ہیں، لیکن بلوچستان کے ضلع یوگ اور لورالائی کے پہاڑی سلسلے بھی اس سے بھرے پڑے ہیں۔ موتی کے دانوں جیسے یہ مزیدار شنے ان دنوں بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ہر خاص عام شخص کی جیب میں ہیں۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے شنے کے کاروبار سے منسلک شخص نے بتایا کہ شنے سخت سردی میں استعمال کیا جانے والا ڈرائی فروٹ ہے، جس کی مانگ بلوچستان بھر میں ہے۔ جتنا یہ ڈرائی فروٹ منفرد ہے اسی طرح اسے کھانے کا انداز بھی الگ ہے ۔پہلے شنے کا سبز حصہ کھایا جاتا ہے ۔بعد اس سے نکلنے والی گٹھلی توڑ کر اس کے اندر کا مغز کھایا جاتا ہے جو انتہائی گرم اور طاقتور چیز ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شنے کی بڑی کھیپ افغانستان سے پاکستان لائی جاتی ہے، لیکن پہاڑی سلسلوں پر بھی یہ اُگتے ہیں، جسے لوگ بڑے چاؤ سے کھاتے ہیں۔ بعض لوگ کوٹ کر ان کا شوربہ بھی بناتے ہیں۔ جبکہ ویسے بھی کھایا جا سکتا۔ بات کی جائے اگر ان کی قیمتوں کی تو 5 سو سے لے کر 5 ہزار روپے تک کلوں تک میں دستیاب ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈرائی فروٹ
پڑھیں:
جب سے حکومت آئی ہے بلوچستان جل رہا ہے، اے این پی
اپنے بیان میں اے این پی رہنماء رشید ناصر نے ترجمان حکومت بلوچستان کے ایمل ولی خان کیخلاف بیان کی شدید مذمت کی۔ اسلام ٹائمز۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء رشید خان ناصر نے بلوچستان حکومت کے ترجمان کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت جب سے بنی ہے بلوچستان جل رہا ہے۔ ترجمان کا اے این پی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان کے خلاف بیان قابل مذمت ہے۔ اپنے جاری بیان میں رشید خان ناصر نے بلوچستان حکومت کے ترجمان کے سینٹر ایمل ولی خان کے خلاف بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اے این پی ایسی سیاسی جماعت جس کی سو سال سے زیادہ قدیم تاریخ ہے اور جن کے اکابرین اور کارکنوں نے پشتون قومی حقوق اور عام عوام کے آئینی حقوق کے حصول کے لئے شہادتوں، جیلوں، کوڑوں اور جائیدادوں کی ضبطگیوں تک قربانیاں دیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت جب سے وجود میں آئی ہے، بلوچستان جل رہا ہے۔ صوبے کے اربوں روپے ترقیاتی کاموں پر خرچ کرنے کے بجائے سکیورٹی پر خرچ کئے جارے ہیں، لیکن اس کے باوجود بدترین بدامنی ہے۔ وزراء، مشیروں اور پارلیمانی سیکرٹریز میں پشتونوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔