میلبرن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 جنوری ۔2025 )آسٹریلیا میں میلبرن کی ایک عدالت نے ایک شادی کو اس وقت کالعدم قرار دے دیا جب دلہن نے گواہی دی کہ اسے لگا کہ یہ شادی ایک سوشل میڈیا سٹنٹ ہے تاکہ دلہا کی انسٹاگرام مقبولیت بڑھائی جا سکے جاری کیے گئے فیصلے کے مطابق خاندانی معاملات کی عدالت نے دسمبر 2023 میں ہونے والی اس شادی کو یہ کہہ کر کالعدم قرار دیا کہ دلہن کو لگا کہ وہ کسی سوشل میڈیا پرینک میں حصہ لے رہی تھیں نہ کہ قانونی طور پر باندھنے والی کسی شادی میں یہ جوڑا شادی سے تین ماہ قبل ایک دوسرے سے ملا تھا.

(جاری ہے)

دلہن نے عدالت میں گواہی دی کہ تین ماہ تک رابطے میں رہنے کے بعد دلہا نے انہیں دسمبر 2023 میں سڈنی میں ہونے والی ایک ”وائٹ پارٹی“ میں مدعو کیا جب وہ وہاں پہنچیں تو حیران ہوئیں کہ دلہا نے شادی کا اہتمام کر رکھا تھا جب انہوں نے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے تو دلہا نے کہا کہ یہ ایک سادہ سا پرینک ہے. خاتون نے عدالت کو بتایا کہ جب میں وہاں پہنچی اور کسی کو سفید لباس میں نہیں دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے سوشل میڈیا کے لیے شادی کے پرینک کا اہتمام کیا ہے مختصر یہ کہ انسٹاگرام کے لیے کیوں کہ وہ اپنے مواد کو مقبول بنانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنے انسٹاگرام پیج سے پیسے کمائیں.

دلہا جن کے انسٹاگرام پر 17 ہزار فالوورز تھے نے ان دعوﺅں کی تردید کی ویڈیو فوٹیج میں جوڑے کو تقریب کے دوران ایک دوسرے سے وعدے کرتے اور انگوٹھیاں بدلتے ہوئے دکھایا گیا دلہن نے عدالت کو بتایا کہ انہیں ایسا ظاہر کرنے کے لیے اداکاری کرنا پڑی کہ سب کچھ حقیقت ہے ان کا کہنا تھا کہ یہ سب ایک ڈراما تھا. دلہن کو جعلی شادی کے قانونی ہونے کا علم تب ہوا جب دلہا نے ان سے درخواست کی کہ انہیں خاتون کی آسٹریلیا میں مستقل رہائش کی درخواست میں شامل کیا جائے دلہا نے اعتراف کیا کہ وہ مستقل رہائشی نہیں اور انہوں نے اپنی مدد کے لیے اس شادی کا اہتمام کیا دلہا نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ ایک نجی تقریب تھی اور باضابطہ شادی بعد میں ہونی تھی لیکن عدالت نے خامیوں کی وجہ سے ان کے دلائل مسترد کرتے ہوئے دلہن کے حق میں فیصلہ سنایا جج نے دلہا کے دعوﺅں کو تفصیل سے اتنا عاری قرار دیا کہ وہ تقریباً لا یعنی ہو گئے.

جج نے یہ بھی کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے کہ دلہن شادی کی کسی ایسی تقریب میں شرکت کرے جس میں ان کا کوئی دوست یا خاندان کا رکن موجود نہ ہو جج کا کہنا تھا کہ وہ مذہبی خیالات کی مالک تھیں اس لیے یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ وہ کسی گرجا گھر میں شادی کی بجائے صرف عام شادی میں حصہ لیں میری سمجھ نہیں آتا کہ وہ ایسا کریں گی.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عدالت نے انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ

کابل(انٹرنیشنل ڈیسک)طالبان دور کی سختیوں اور شدید معاشی بحران کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، جہاں خواتین اور مرد اپنی ظاہری خوبصورتی نکھارنے کے لیے بوٹوکس، فلرز اور ہیئر ٹرانسپلانٹ جیسی سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔

نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کابل کے کاسمیٹک سرجری کلینکس مخملی صوفوں کے ساتھ اس طرح سجے ہیں کہ یہ طالبان دور کی سختیوں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں، جہاں بوٹوکس، لپ فلر اور بالوں کے ٹرانسپلانٹ عام ہو چکے ہیں۔

طالبان کی سخت حکمرانی، قدامت پسندی اور غربت کے باوجود کابل میں جنگ کے خاتمے کے بعد تقریباً 20 کلینکس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

غیر ملکی ڈاکٹر خاص طور پر ترکی سے کابل آ کر افغان ڈاکٹروں کو تربیت دیتے ہیں، جب کہ افغان ڈاکٹر استنبول میں انٹرن شپ کرتے ہیں اور کلینکس کے آلات ایشیا اور یورپ سے منگوائے جاتے ہیں۔

ویٹنگ رومز میں زیادہ تر خوشحال لوگ آتے ہیں، جن میں بال جھڑنے والے مرد بھی شامل ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو اکثر میک اپ کیے ہوئے اور سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوتی ہیں، بعض اوقات مکمل برقع میں بھی۔

25 سالہ سلسلہ حمیدی نے دوسرا فیس لفٹ کرانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ افغانستان میں عورت ہونے کے دباؤ نے ان کی جلد خراب کر دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چاہے دوسرے ہمیں نہ دیکھ سکیں، لیکن ہم خود کو دیکھتے ہیں، آئینے میں خوبصورت لگنا ہمیں حوصلہ دیتا ہے، یہ کہہ کر وہ سرجری کے لیے گئیں تاکہ چہرے کا اوپری حصہ، جو ڈھلکنے لگا تھا، دوبارہ درست کیا جا سکے۔

میڈیکل اسکول سے فارغ التحصیل سلسلہ کا کہنا تھا کہ افغان خواتین پر زیادہ دباؤ کی وجہ سے ان کی جلد متاثر ہو جاتی ہے۔

طالبان حکومت کی پابندیوں کے باعث خواتین کی ملازمت پر سخت روک ہے، وہ مرد سرپرست کے بغیر لمبا سفر نہیں کر سکتیں، گھر سے باہر بلند آواز میں بات نہیں کر سکتیں اور ان پر یونیورسٹی، پارک اور جم جانے کی بھی پابندی ہے۔

سیلونز پر پابندی، مگر بوٹوکس پر نہیں
جہاں کاسمیٹک سرجری عروج پر ہے، وہیں خواتین کے بیوٹی سیلونز اور پارلرز پر مکمل پابندی ہے۔

23 سال کی عمر میں چہرے کے نچلے حصے کی سرجری کرانے والی سلسلہ کا کہنا ہے کہ اگر بیوٹی سیلونز کھلے ہوتے تو ہماری جلد اس حالت میں نہ پہنچتی اور سرجری کی ضرورت نہ پڑتی۔

طالبان حکام جو عموماً جسمانی ساخت میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے، کاسمیٹک سرجری سے متعلق بار بار کیے گئے سوالات پر خاموش رہے۔

اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق یہ اس لیے جائز ہے کیونکہ اسے طب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

کلینک کے عملے کے مطابق حکومت ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتی، لیکن اخلاقی پولیس یہ دیکھتی ہے کہ صنفی علیحدگی برقرار رہے، یعنی مرد مریض کے ساتھ مرد نرس اور خاتون مریضہ کے ساتھ خاتون نرس ہو۔

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے اپنے ارکان بھی ان کلینکس کے گاہک ہیں۔

نگین ایشیا کلینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد زدران کا کہنا ہے کہ یہاں بال یا داڑھی نہ ہونا کمزوری کی نشانی سمجھا جاتا ہے، یہ کلینک جدید چینی آلات سے مکمل طور پر لیس ہے۔

یوروایشیا کلینک کے ڈائریکٹر بلال خان کے مطابق طالبان کے مردوں کو کم از کم ایک مُٹھی لمبی داڑھی رکھنے کے حکم کے بعد ہیئر ٹرانسپلانٹ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ شادی سے پہلے بال لگوانے کے لیے قرض بھی لے لیتے ہیں۔

چار منزلہ ولا کو کلینک میں تبدیل کرنے والے ماہر امراض جلد عبدالنصیم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہاں وہی طریقے استعمال ہوتے ہیں جو بیرون ملک رائج ہیں اور ان میں کوئی خطرہ نہیں، ان کے کلینک میں بوٹوکس کی قیمت 43 سے 87 ڈالر اور بال لگوانے کی لاگت 260 سے 509 ڈالر ہے۔

انسٹاگرام کا اثر
یہ رقم اکثر افغانوں کے لیے بہت زیادہ ہے، جن میں سے تقریباً نصف غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جو بیرون ملک رہتے ہیں۔

لندن میں مقیم افغان ریسٹورنٹ کے مالک محمد شعیب یارزادہ نے برطانیہ میں ہزاروں پاؤنڈ کے اخراجات سے بچنے کے لیے 14 سال بعد افغانستان کے اپنے پہلے دورے میں سر پر بال لگوانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ کلینک میں داخل ہوتے ہیں تو لگتا ہے جیسے یورپ میں ہوں۔

نئے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کلینکس سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور دعوے شیئر کرتے ہیں، جیسے چمکتی جلد، بھرے ہونٹ اور گھنے بال۔

نگین ایشیا کلینک کے شریک ڈائریکٹر 29 سالہ لکی خان کے مطابق افغانستان بھی مغربی ممالک کی طرح سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے اثر سے محفوظ نہیں رہا، ان کے کلینک میں روزانہ درجنوں نئے مریض آتے ہیں۔

روسی نژاد افغان ڈاکٹر لکی خان کا کہنا ہے کہ کئی مریضوں کو اصل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن وہ انسٹاگرام پر دیکھے گئے ٹرینڈز کی وجہ سے سرجری کروانا چاہتے ہیں، ان کا اپنا چہرہ جھریوں سے پاک ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اگرچہ ایک کروڑ افغان بھوک سے دوچار ہیں اور ہر تین میں سے ایک کو بنیادی طبی سہولتیں میسر نہیں، لیکن کچھ لوگ کھانے کے بجائے اپنی خوبصورتی پر پیسہ خرچ کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ
  • امریکی صدر ٹرمپ کا آسٹریلوی صحافی سے جھگڑا کس سوال پر ہوا؟
  • کراچی: کورنگی سے لاپتہ ہوکر گھر واپس آنے والے دلہے کا ابتدائی بیان سامنے آگیا
  • جعلی ڈگری کیس، جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج کام سے روک دیا گیا
  • اداکارہ کا طلاق کے بعد فوٹو شوٹ سوشل میڈیا پر وائرل
  • کراچی: شادی والے دن لاپتہ ہونیوالا دلہا واپس لوٹ آیا، پولیس
  • کراچی: شادی کے روز پراسرار طور پر لاپتہ ہونے والا دلہا 5 دن بعد گھر واپس پہنچ گیا
  • چیٹ جی پی ٹی مقبولیت کھو بیٹھا، امریکا اور برطانیہ میں گوگل جیمینائی ٹاپ پر
  • کراچی، شادی کے دن پراسرار طور پر لاپتہ ہونے والا دلہا 5 دن بعد گھر واپس پہنچ گیا
  • ٹنڈوآدم ،جعلی چیک دینے کے الزام میں ضمانت کی درخواستیں رد