ماہرین کا سندھ کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے ہنر مند لیبر پر زور
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 جنوری ۔2025 )ماہرین کا کہنا ہے کہ لیبر فورس میں تعلیم اور ہنر کی کم سطح سندھ میں کم پیداواری صلاحیت، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت کی ایک بڑی وجہ ہے سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی کو کئی مسائل کا سامنا ہے اور لیبر مارکیٹ میں دی جانے والی مہارتوں اور اس کی ضرورت کے درمیان کوئی مماثلت نہیں ہے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی بڑے پیمانے پر افراد، کاروباری اداروں اور معیشت کی ضروریات کو پورا کرتا ہے یہ ضروری ہے کہ مہارت کی ترقی کی حکمت عملی اور پالیسیاں لیبر مارکیٹ کی حقیقی ضروریات پر مبنی ہوں.
(جاری ہے)
صنعت کے ایک ماہر تنزیل حسین نے بتایا کہ اس کے لیے ایک موثر لیبر مارکیٹ سسٹم بنانے کی ضرورت ہے جو لیبر مارکیٹ کی جامع معلومات فراہم کر سکے انہوں نے کہا کہ لیبر مارکیٹ کی معلومات کی دستیابی لیبر، روزگار اور ہنر کی ترقی کی حکمت عملیوں کو ڈیزائن کرنے کی بنیاد ہے جو مہذب اور پیداواری روزگار اور میکرو اکنامک پالیسیوں کو فروغ دیتی ہے. انہوں نے کہا کہ انسانی وسائل کی ترقی، روزگار اور ہنر کی ترقی کی حکمت عملی باوقار روزگار کے مواقع کو فروغ دینے کے لیے لیبر مارکیٹ کی تازہ ترین معلومات پر مبنی ہونی چاہئیں روزگار میں اضافے کو محدود کرنے والا ایک اہم عنصر اور غربت کو کم کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ صوبے کی لیبر فورس میں تعلیم اور مہارت کی کم سطح ہے یہ معیشت کے زیادہ تر شعبوں میں کم پیداواری اور روزگار کی تخلیق کی بنیادی وجوہات میں سے ایک رہا ہے سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی نظام لیبر مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق مناسب نہیں تھا اور اس نے تربیت کی ضروریات کے صرف ایک چھوٹے سے حصے کا احاطہ کیا . صنعتی افرادی قوت کی تربیت کے ماہرمرغوب عثمانی نے بتایا کہ صنعتی اداروں کو مزید فیصلہ سازی کی کمی، ناکافی فنڈنگ، کم اجرت اور عملے کی حوصلہ افزائی کی کم سطح کا سامنا کرنا پڑا ان سب کا معیار اور کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ لیبر مارکیٹ ایک موثر انداز میں ترقی کرے اور سب کے لیے باوقار کام پیدا کرے، حکومت کو مضبوط روزگار کی پالیسیاں تشکیل دینی چاہئیں . انہوں نے کہا کہ روزگار کی معقول پالیسیاں وضع کرنے کے لیے لیبر مارکیٹ کی معلومات کے جامع مجموعہ، تنظیم اور تجزیہ کی ضرورت ہے نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی لیبر فورس کو نتیجہ خیز طور پر استعمال کرنے کے لیے انہوں نے مارکیٹ کی قیادت میں مہارتوں کی نشوونما کو فروغ دینے اور نوجوانوں کے لیے دیگر ٹارگٹڈ انٹرپرینیورشپ پروگراموں کے علاوہ نیشنل یوتھ سروس پالیسی ریفارمز کے قیام کا مشورہ دیا. انہوں نے کہا کہ زراعت، تعمیرات اور تجارت سمیت محنت کی زیادہ شدت والے اہم شعبوں میں پیداواری صلاحیت کم ہے پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے انہوں نے سرکاری اور نجی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر مارکیٹ میں جوابدہ، موثر اور مضبوط ہنر مندی کی ترقی کا طریقہ کار تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ کی ضرورت کو فروغ کی ترقی کے لیے
پڑھیں:
ایک سال میں بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: گزشتہ ایک سال کے دوران بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
پاکستان میں معاشی دباؤ، بڑھتی مہنگائی اور مقامی سطح پر روزگار کی کمی ایک عرصے سے عوام کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنے بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک کا رخ کریں۔ حالیہ اقتصادی سروے رپورٹ نے اس رجحان کی ایک چونکا دینے والی تصویر پیش کی ہے، جس کے مطابق صرف رواں مالی سال میں لاکھوں پاکستانیوں نے روزگار کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑ کر غیرملکی سرزمین پر قدم رکھا ہے۔
یہ رپورٹ نہ صرف اعداد و شمار کا ایک مجموعہ ہے بلکہ اس میں وہ تلخ حقیقت بھی جھلکتی ہے جس کا سامنا پاکستانی نوجوان روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ رواں سال میں مجموعی طور پر جو پاکستانی ملازمت کے لیے بیرون ملک گئے، ان کی تعداد 7 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان میں سے ہر ایک شخص ایک خواب، ایک امید اور ایک جدوجہد لے کر سرحد پار گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ افراد صوبہ پنجاب سے بیرون ملک روانہ ہوئے، جہاں معاشی حالات اور آبادی کے دباؤ نے اس رجحان کو اور تیز کر دیا ہے۔ پنجاب سے مجموعی طور پر 4 لاکھ 4 ہزار 345 افراد نے دیگر ممالک میں روزگار کی تلاش میں ہجرت کی۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ صوبہ بھر میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں یا جو موجود ہیں وہ خاطر خواہ تنخواہ یا معیار زندگی فراہم نہیں کرتے۔
دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا رہا، جہاں سے ایک لاکھ 87 ہزار افراد نے غیرملکی ملازمتوں کے لیے رجوع کیا۔ صوبے میں اگرچہ ترسیلات زر کا ایک مضبوط کلچر موجود ہے، تاہم اتنی بڑی تعداد میں نقل مکانی اس بات کی علامت ہے کہ مقامی سطح پر معاشی بہتری کے دعوے زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے۔
تیسرے نمبر پر سندھ سے 60 ہزار 424 افراد بیرون ملک گئے، جو کہ خاص طور پر شہری علاقوں میں بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ کے بیشتر افراد مشرق وسطیٰ کے ممالک، بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب گئے جہاں تعمیرات، ڈرائیونگ، سیکورٹی اور دیگر خدمات کی شعبہ جات میں روزگار کے مواقع دستیاب تھے۔
رپورٹ میں ملک کے دیگر علاقوں کی صورتحال بھی سامنے لائی گئی ہے، جو کم توجہ کے باوجود قابلِ غور ہے۔ سابقہ فاٹا، اب ضم شدہ قبائلی اضلاع سے 29 ہزار 937 افراد نے ملک چھوڑا۔ ان علاقوں میں تعلیمی اور پیشہ ورانہ مواقع کی کمی پہلے ہی عوام کو بیرونی دنیا کی طرف متوجہ کرتی رہی ہے، اور موجودہ اعداد و شمار اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر سے 29 ہزار 591 افراد نے روزگار کے لیے ہجرت کی، جس میں زیادہ تر لوگ برطانیہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کی طرف گئے۔ یہ تعداد خاص طور پر اس لیے اہم ہے کیونکہ آزاد کشمیر میں پہلے سے ہی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے، جس کا اثر نوجوانوں کی سوچ پر بھی پڑتا ہے۔
اسلام آباد جو کہ ملک کا دارالحکومت اور نسبتاً خوشحال شہر تصور کیا جاتا ہے، وہاں سے بھی 8 ہزار 621 افراد نے بیرون ملک ملازمت کو ترجیح دی۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روزگار کی کمی صرف پسماندہ علاقوں تک محدود نہیں رہی بلکہ بڑے شہروں تک پھیل چکی ہے۔
بلوچستان سے صرف 5 ہزار 668 افراد نے بیرون ملک ہجرت کی، جو نسبتاً کم تعداد ضرور ہے لیکن اسے بلوچستان کی آبادی اور رسائی کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہاں بنیادی سہولیات، تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے محدود وسائل عوام کو عالمی مارکیٹ کے لیے مکمل تیار نہیں کر پاتے۔
اسی طرح شمالی علاقہ جات، جیسے گلگت بلتستان وغیرہ سے صرف 1692 افراد نے بیرون ملک روزگار کے لیے سفر کیا۔ یہ تعداد کم ضرور ہے لیکن ان علاقوں میں روزگار کے مواقع کی قلت اور انفرا اسٹرکچر کی عدم موجودگی مستقبل میں اس رجحان کو بڑھا سکتی ہے۔
اقتصادی سروے کی یہ رپورٹ محض ایک عددی تجزیہ نہیں دیتی، بلکہ اس سے یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ آخر ہماری ریاست، حکومتیں اور ادارے کب اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے؟ کیا بیرون ملک جانے والے ہر پاکستانی کا خواب، عزت کی روٹی کمانا، ہمیں ایک قومی پالیسی بنانے پر مجبور نہیں کرتا؟ کیا ہمیں ملک میں ایسے حالات فراہم نہیں کرنے چاہییں کہ ہماری افرادی قوت ملک میں ہی استعمال ہو؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر ہماری معیشت کے لیے اہم ضرور ہیں، لیکن مسلسل بڑھتی ہجرت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو وہ مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں جن کی وہ حق دار ہے۔ اگر اس رجحان کو روکنا ہے تو ہمیں تعلیم، ہنر مندی، روزگار کی فراہمی اور کاروباری مواقع کے شعبوں میں فوری اور دیرپا اقدامات کرنے ہوں گے۔