سٹوڈنٹ ویزا سے متعلق وہ تمام معلومات جو آ پ کے لیے جاننا ضروری ہیں ، جانیں
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
اٹلی کو یورپ میں اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی میں اہم مقام حاصل ہے اور طلبا کی خواہش ہوتی ہے کہ ان یونیورسٹیز میں داخلہ لے کر تعلیم حاصل کی جائے۔
قواعد کے مطابق پاکستانی شہریوں سمیت دیگر ممالک کے طلبا کو اپنے ملک میں مقیم اطالوی قونصل خانے میں اسٹوڈنٹ ویزا کے لیے درخواست دینا ہوگی۔
درخواست دہندگان کو مندرجہ ذیل شرائط پر عمل کرنا ہوگا۔
داخلہ ویزا درخواست فارم۔
حالیہ پاسپورٹ سائز تصویر۔
پاسپورٹ ویزا کے بعد کم از کم تین ماہ تک کارآمد ہونا چاہیے۔
یونیورسٹی کے کورس میں اندراج یا پری انرولمنٹ۔
اٹلی میں رہائش کا ثبوت۔
اٹلی میں قیام کے لیے ثبوت فنڈز۔
میڈیکل انشورنس
وطن واپسی کے لیے درکار مالی ذرائع کی دستیابی کا ثبوت۔
پروگرام کی زبان کے مطابق اطالوی یا انگریزی کے مناسب علم کا ثبوت۔
اٹلی کے اسٹڈی ویزا کے لیے بینک اسٹیٹمنٹ
درخواست دہندہ کے پاس مطالعہ کی مدت کے دوران اٹلی میں قیام کے لیے بینک اسٹیٹمنٹ میں رقم بھی موجود ہونی چاہیے۔بینک اسٹیٹمنٹ کے ذریعے یہ بات ثابت کی جا سکتی ہے طالب علم اٹلی میں قیام کے اخراجات برداشت کر سکتا ہے۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ درخواست دہندہ کو تعلیمی سال کے لیے کم از کم 467.
واضح رہے کہ 17 جنوری تک ایک یورو 287 روپے 75 پیسے کے برابر ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-19
عمان/برلن( مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘غزہ پلان’ کے تحت جنگ بندی کے بعد علاقے میں عالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی تجاویز پراردن اور جرمنی، نے واضح کیا ہے کہ اس فورس کی کامیابی اور قانونی حیثیت کے لیے اسے لازماً اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔ عالمی میڈیا کے مطابق، امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی۔ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ “ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مؤثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔تاہم، اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا۔ الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزرخارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نہ صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے‘۔واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔