سٹوڈنٹ ویزا سے متعلق وہ تمام معلومات جو آ پ کے لیے جاننا ضروری ہیں ، جانیں
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
اٹلی کو یورپ میں اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی میں اہم مقام حاصل ہے اور طلبا کی خواہش ہوتی ہے کہ ان یونیورسٹیز میں داخلہ لے کر تعلیم حاصل کی جائے۔
قواعد کے مطابق پاکستانی شہریوں سمیت دیگر ممالک کے طلبا کو اپنے ملک میں مقیم اطالوی قونصل خانے میں اسٹوڈنٹ ویزا کے لیے درخواست دینا ہوگی۔
درخواست دہندگان کو مندرجہ ذیل شرائط پر عمل کرنا ہوگا۔
داخلہ ویزا درخواست فارم۔
حالیہ پاسپورٹ سائز تصویر۔
پاسپورٹ ویزا کے بعد کم از کم تین ماہ تک کارآمد ہونا چاہیے۔
یونیورسٹی کے کورس میں اندراج یا پری انرولمنٹ۔
اٹلی میں رہائش کا ثبوت۔
اٹلی میں قیام کے لیے ثبوت فنڈز۔
میڈیکل انشورنس
وطن واپسی کے لیے درکار مالی ذرائع کی دستیابی کا ثبوت۔
پروگرام کی زبان کے مطابق اطالوی یا انگریزی کے مناسب علم کا ثبوت۔
اٹلی کے اسٹڈی ویزا کے لیے بینک اسٹیٹمنٹ
درخواست دہندہ کے پاس مطالعہ کی مدت کے دوران اٹلی میں قیام کے لیے بینک اسٹیٹمنٹ میں رقم بھی موجود ہونی چاہیے۔بینک اسٹیٹمنٹ کے ذریعے یہ بات ثابت کی جا سکتی ہے طالب علم اٹلی میں قیام کے اخراجات برداشت کر سکتا ہے۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ درخواست دہندہ کو تعلیمی سال کے لیے کم از کم 467.
واضح رہے کہ 17 جنوری تک ایک یورو 287 روپے 75 پیسے کے برابر ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
مودی حکومت کے ذریعہ "وقف پورٹل" کا قیام غیر قانونی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر نے کہا ہے کہ تمام مسلم تنظیموں نے وقف ایکٹ کو مسترد کر دیا ہے مگر افسوس ہے کہ اسکے باوجود حکومت "وقف امید پورٹل” قائم کررہی ہے اور اس میں اوقافی جائیداد کے اندراج کو لازم قرار دے رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انتہائی متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف مسلمان سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور سپریم کورٹ آف انڈیا میں بھی ابھی معاملہ زیر سماعت ہے۔ سپریم کورٹ نے نئے قانون پر تعمیل پر روک لگا دی ہے اور حتمی فیصلہ ابھی آنا باقی ہے۔ دریں اثنا مودی حکومت نے "امید پورٹل" کے لانچ کرنے کی تیاری کی خبروں نے ہلچل پیدا کر دی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مودی حکومت کے اس قدام کی شدید تنقید کی ہے اور اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے عدالت کی توہین قرار دیا ہے۔ در اصل گزشتہ روز میڈیا میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ مودی حکومت نے نئے متنازعہ وقف قانون کے تحت وقف جائدادوں کی رجسٹریشن کے لئے ایک "امید" نامی پورٹل لانچ کرنے کی تیاری کر رہی ہے جس میں چھ ماہ کے اندر تمام وقف املاک کی رجسٹری لازمی ہے، اگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے تو اس جائداد کو متنازعہ تصور کیا جائے گا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے پریس نوٹ میں کہا ہے کہ حکومت کا پیش کردہ وقف ایکٹ اس وقت سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام مسلم تنظیموں نے اسے مسترد کر دیا ہے، اپوزیشن پارٹیوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور سکھ، عیسائی نیز دیگر اقلیتوں نے بھی اسے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے، مگر افسوس ہے کہ اس کے باوجود مودی حکومت 6 جون سے "وقف امید پورٹل” قائم کر رہی ہے اور اس میں اوقافی جائیداد کے اندراج کو لازم قرار دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پوری طرح حکومت کی غیر قانونی حرکت ہے اور واضح طور پر عدالت کی توہین کا ارتکاب ہے۔
اطلاعات کے مطابق یہ رجسٹریشن پوری طرح اس متنازعہ قانون پر مبنی ہے، جس کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے اور جس کو آئین سے متصادم قرار دیا گیا ہے۔ اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سختی سے اس کی مخالفت کرتا ہے۔ مسلمانوں اور ریاستی وقف بورڈوں سے اپیل کرتا ہے کہ جب تک عدالت اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہ کردے، اوقاف کو اس پورٹل میں درج کرانے سے گریز کریں۔ متولیان وقف بورڈ کو میمورنڈم پیش کریں کہ جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں ہو جائے، اس طرح کی کارروائی سے گریز کیا جائے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ عنقریب حکومت کے اس اقدام کے خلاف عدالت سے رجوع کرے گا۔