تاریخی اکبری منڈی کی بحالی کا منصوبہ، لاہور کے ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کی جانب اہم قدم
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
لاہور:
تاریخی اکبری منڈی کی بحالی اور آرائش وتزئین کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مغلیہ دور میں قائم ہونیوالی یہ منڈی آج بھی پنجاب میں مصالحہ جات اور خشک میوہ جات کی خریداری کا سب سے بڑا مرکز ہے جہاں پنجاب کے مختلف شہروں سے تاجر اور دکاندار خریداری کے لئے آتے ہیں ۔اکبری منڈی کی بحالی کا منصوبہ والڈسٹی آف لاہور اتھارٹی اور آغاخان کلچر سروس پاکستان کے اشتراک سے مکمل کیا جائیگا۔
یہ ایشیا کی سب سے بڑی مصالحہ منڈی ہے اور برصغیر کے کئی تاریخی واقعات کی جگہ رہی ہے۔ یہ 16ویں صدی میں مغل بادشاہ اکبر اعظم کے دور میں تقریباً 500 سال قبل قائم کی گئی تھی، اسی لئے اس کا نام ان کے نام پر رکھا گیا تھا۔
اکبری منڈی کے ایک تاجر محمدعمران نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ یہ منڈی دہلی گیٹ کے قریب قائم کی تھی جو فصیل بند شہر کے اکبری گیٹ تک پھیلتی تھی۔ اس منڈی کو گیٹ کے باہر رکھنے کا مقصد تاجروں کو آسانی فراہم کرنا اور انہیں شہر سے دور رکھنا تھا۔ موجودہ وقت میں یہ منڈی ہول سیل اور ریٹیل کا مرکز ہے، اور یہاں آپ کو ایسے کھلے مصالحے اور جڑی بوٹیاں ملتی ہیں جو بڑے شہروں میں دستیاب نہیں ہیں۔
اکبری منڈی میں متعدد تاریخی عمارتیں موجود ہیں جو مغل اور نوآبادیاتی طرزِ تعمیر کے امتزاج کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان میں سے بہت سی عمارتیں صدی سے زیادہ پرانی ہیں اور ان میں آرچڈ فرنٹ، جھروکے (بالکونیاں)، اور پیچیدہ لکڑی کی کندہ کاری جیسی اصل خصوصیات موجود ہیں۔ یہ طرزِ تعمیر فصیل بند شہر میں روایتی شہری منصوبہ بندی کی عکاسی کرتا ہے۔اکبری منڈی کی خصوصیت تنگ گلیوں سے ہے جو قریبی دکانوں اور گھروں سے بھری ہوئی ہیں۔
اکبری منڈی کے ایک اور تاجر سہیل احمد کہتے ہیں کہ پانچ سو سال پرانی اس منڈی کی اصل شکل میں بحالی سے ناصرف یہاں کے دکانداروں، تاجروں کو فائدہ ہوگا بلکہ مقامی رہائشیوں کو بھی سہولت ہوگی، تجاوزات اور گندگی کا خاتمہ ہوگا، دکانوں کے قریب گندہ نالہ ہے جو کئی جگہوں سے اوپن ہے اس سے اٹھنے والی بدبو سے ماحول آلودہ رہتا ہے۔
یہ منصوبہ حکومت پنجاب کی مالی معاونت سے چلایا جا رہا ہے اور اس میں 273 دکانوں اور 115 گھروں کے فرنٹ کی بحالی شامل ہے۔ منصوبے کے تحت بنیادی ڈھانچے کی بہتری، مصالحہ منڈی تک رسائی کے لئے سڑک، اور ڈیزائن اور کیوریشن شامل ہیں۔
والڈسٹی آف لاہور اتھارٹی کے چیئرمین کامران لاشاری کا کہنا ہے اس منصوبے کا بنیادی مقصد مصالحہ منڈی میں موجود دکانوں اور عمارتوں کے فرنٹ کی بحالی اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے ساتھ ساتھ کے داخلی اور ذیلی راستوں کی دوبارہ ترتیب دینا ہے تاکہ فعالیت، رسائی اور جمالیاتی کشش کو بہتر بنایا جا سکے۔
اس کے علاوہ تاریخی مکانات کی بحالی تاکہ علاقے کی معماری وراثت کو محفوظ رکھا جا سکے اور اس کے تاریخی کردار کو بحال کیا جا سکے۔ سڑک اور ذیلی گلیوں کی بہتربنایا جائیگا اس کے علاوہ موجودہ سیوریج کے نظام کو بہتر اور ماحول دوست بنایا جائیگا، پارکنگ سسٹم بہتر اور وسیع کیا جائیگا۔
آغا خان کلچرل سروس کے سی ای او توصیف احمد کا کہنا ہے ہم اس مارکیٹ کو اس کی ماضی کی شان میں بحال کرنے کی امید کرتے ہیں جس سے سیاحوں،تاجروں اور قریبی رہائشیوں کو سہولت ملے گی جو تاریخی مقام کو اس کی پوری شان و شوکت سے دیکھ سکیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اکبری منڈی کی کی بحالی
پڑھیں:
فلسطینی ریاست کو دفن کرنے کا اسرائیل کا ناپاک منصوبہ؛ او آئی سی کا بیان سامنے آگیا
مسلم ممالک کی عالمی تنظیم ’ اسلامی تعاون تنظیم (OIC) نے اسرائیل کے مغربی کنارے میں یہودی بستیاں آباد کرکے فلسطینی ریاست کے تصور کو ختم کرنے کی کوشش کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسلامی تعاون تنظیم نے مغربی کنارے میں اسرائیل کے ان ناپاک عزائم کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور منظم جنگی جرم قرار دیا۔
او آئی سی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی منصوبے نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں بلکہ ان کا مقصد مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل کے امکانات کو بھی نقصان پہنچانا ہے۔
تنظیم نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی اقدامات کا فوری نوٹس لے اور اپنی اخلاقی و قانونی ذمہ داریاں پوری کرے تاکہ فلسطینی عوام کے حقوق کا تحفظ ممکن بنایا جا سکے۔
بیان میں اسرائیلی عزائم کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسرائیلی پالیسیوں کا تسلسل خطے میں امن کے قیام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور ان اقدامات کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
خیال رہے کہ اسرائیلی وزیر خزانہ نے مغربی کنارے کے متنازع علاقے میں یہودی بستیاں آباد کرنے کی منطوری دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح فلسطینی ریاست کے تصور کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا۔
اسرائیل کے اس اقدام کی عرب ممالک، اقوام متحدہ اور برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک نے شدید الفاظ میں مذمت کی تھی جب کہ امریکا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔