بینچز کے اختیارات کا کیس سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کیس،رجسٹرار آفس کو نوٹ رجسٹرار کے موقف سے متضاد نکلا
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)بینچز کے اختیارات کا کیس سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کیس میں رجسٹرار آفس کو نوٹ رجسٹرار کے موقف سے متضاد نکل آیا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اس نوٹ میں غلطی کا ادراک تو نہیں کیاگیا، اس میں آپ لکھ رہے ہیں 16جنوری کو ایک آرڈر جاری ہوا ہے،آپ اس آرڈر کی بنیاد پر نیا بنچ بنانے کاکہہ رہے ہیں۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریمکورٹ میں بینچزکے اختیارات کا کیس سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی،جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 2رکنی بنچ نے سماعت کی،رجسٹرار سپریم کورٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے ۔
جسٹس منصور، جسٹس عائشہ اور جسٹس عقیل عباسی کا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس امین الدین کو خط
سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ بتائیں عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر کیوں نہیں ہوا؟رجسٹرار نے کہاکہ بینچزکے اختیارات سے متعلق کیس آئینی بنچ کا تھا، غلطی سے ریگولر بنچ میں لگ گیا،جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کہ اگر غلطی تھی تو عرصے سے جاری تھی اب ادراک کیسے ہوا؟معذرت کے ساتھ غلطی صرف اس بنچ میں مجھے شامل کرنا تھی،میں اس کیس کو ہائیکورٹ میں سن چکا تھا، معلوم نہیں مجھے اس بنچ میں شامل کرنا غلطی تھی یا کیاتھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ پریکٹس اینٖڈ پروسیجر کمیٹی کا اس معاملے پر اجلاس کیسے ہوا؟کیا کمیٹی نے خود اجلاس بلایا یا آپ نے درخواست کی؟رجسٹرار سپریم کورٹ نے کہاکہ ہم نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ جب جوڈیشل آرڈر موجود تھا تو نوٹ کیوں لکھا گیا؟ہمارا آرڈر بہت واضح تھا کہ کیس کس بنچ کے سامنے لگنا ہے،ہمیں نوٹ دکھائیں جو آپ نے کمیٹی کو بھیجا۔
ٹرمپ کی حلف برداری میں امریکی سینیٹر کی شارٹس میں شرکت
رجسٹرا رنے کمیٹی کو بھیجا گیا نوٹ پیش کردیا،رجسٹرار آفس کو نوٹ رجسٹرار کے موقف سے متضاد نکلا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ اس نوٹ میں غلطی کا ادراک تو نہیں کیاگیا، اس میں آپ لکھ رہے ہیں 16جنوری کو ایک آرڈر جاری ہوا ہے،آپ اس آرڈر کی بنیاد پر نیا بنچ بنانے کاکہہ رہے ہیں۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: کے اختیارات سماعت کی رہے ہیں کو نوٹ
پڑھیں:
ہائیکورٹ جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر) صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا ہے کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ حکومتی وکیل نے کہا صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کے خلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کر دیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دئیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہو چکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہو رہی تو وہ اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دئیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دی۔