کراچی:

سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ نے برنس روڈ کے علاقے میں رہائشی عمارت میں کمرشل سرگرمیوں کیخلاف درخواست پر ایس بی سی اے اور دیگر متعلقہ اداروں سے 2 ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی۔ 
 

جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں 2رکنی آئینی بینچ کے روبرو برنس روڈ کے علاقے میں رہائشی عمارت میں کمرشل سرگرمیوں سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔ 

دورانِ سماعت ایس بی سی اے کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ غیر قانونی دکانوں کو سیل کیا تھا کچھ افراد نے خود سیل دکانیں ڈی سیل کرلیں۔ دوبارہ سیل کیا تو پھر بھی سیلیں توڑ کر دکانیں کھول لی گئیں۔ اب ان عناصر کے خلاف مقدمات کا اندارج کیا جارہا ہے۔ 

درخواستگزار کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ عدالت نے ایس بی سی اے کو رہائشی عمارت میں کمرشل سرگرمیاں روکنے کا حکم دیا تھا۔ عمارت آثار قدیمہ میں شامل ہے، دیواریں توڑ کر دکانیں بنائی جارہی ہیں، جس سے  عمارت گرنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ 

بعد ازاں عدالت نے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کا حکم دیدیا۔ 

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جن افراد نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے، ان کے خلاف  مقدمات درج کرکے قانونی کارروائی شروع کی جائے۔  عدالت نے ایس بی سی اے اور دیگر متعلقہ اداروں سے 2 ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رہائشی عمارت میں کمرشل ایس بی سی اے عدالت نے

پڑھیں:

کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانوں کی شرح پر قانونی جنگ شروع

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

شہر قائد میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر 5 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کے بھاری جرمانوں پر مبنی ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (ٹریکس) کو باقاعدہ طور پر سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔

پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے بعد دیگر جماعتوں کی جانب سے بھی اس نظام کے خلاف آئینی درخواست دائر کردی گئی ہے، جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایک ہی ملک میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر مختلف شہروں میں جرمانوں کی شرح میں ناانصافی  قابلِ قبول نہیں ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت اس کیس کا جائزہ لے کر قانون کے مطابق فیصلہ کرے۔

دوسری جانب ماہرین  قانون نے بھی اس نظام پر کئی بنیادی اور تکنیکی سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ جدید نظام ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پکڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اسٹریٹ کرمنلز کو کیوں نہیں پکڑا جا سکتا؟ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ نظام شہریوں کی حفاظت کے بجائے حکومت کی آمدنی بڑھانے کا ایک ذریعہ ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ماہرین نے   اس چالان نظام کے تحت آن لائن فراڈ شروع ہونے کی اطلاعات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے اور جرمانوں کے خلاف اپیل کے مشکل طریقہ کار پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا ہے کہ ای چالان سے حاصل ہونے والا ریونیو کہاں خرچ کیا جائے گا، اس بارے میں عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • جعلی اکاونٹس کیس،عدالتی حکم پر جج احتساب عدالت نے نیب دائرہ اختیار پر فیصلہ نہ سنانے کی وجوہات پر مبنی رپورٹ جمع کروادی
  • 26 نومبر احتجاج کیس، علیمہ خان کے ساتویں مرتبہ ناقابل ضمانت وارنٹ جاری
  • کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانوں کی شرح پر قانونی جنگ شروع
  • عدالتی حکم پر مسلسل غیر حاضری، علیمہ خان کے ساتویں مرتبہ وارنٹ جاری
  • کراچی میں سرکاری اسکول کو سیل کرکے قبضے کی کوششیں، متعلقہ اداروں کا اظہارِ لاعلمی
  • کراچی کے رہائشی ٹیکسی ڈرائیور کی لاش اور گاڑی کوٹ ڈیجی سے برآمد
  • کے ایم سی ٹیم نے اورنگی ٹائون میں5ایکٹر کمرشل زمین کوکامیابی سے دوبار قبضے میں لیکرسیل کردیاہے
  • کھارادر میں رہائشی عمارت کی لفٹ گرنے سے 10 افراد زخمی
  • کھارادر ، رہائشی عمارت کی لفٹ گرنے سے 10 افراد زخمی
  • کھارادر کی عمارت میں لفٹ گرگئی، 10 افراد زخمی