بینچز اختیارات کیس مقرر نہ کرنے کا معاملہ: ایڈیشنل رجسٹرار کو او ایس ڈی بنا دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
بینچز اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کے معاملہ سامنے آنے کے بعد گریڈ 21 کے افسر سپریم کورٹ میں تعینات ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) بنا دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل رجسٹرار ایڈمن پرویز اقبال کے دستخط سے انہیں او ایس ڈی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
نوٹیفکیشن رجسٹرار سپریم کورٹ کی منظوری کے بعد جاری کیا گیا، ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کو تاحکم ثانی فوری رجسٹرار آفس کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کر دی گئی۔
جوڈیشل آرڈر کے باوجود کیس فکس نہ کرنے پر جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نذر عباس کو شوکاز نوٹس جاری کر رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس منصور نے بینچز اختیارات کیس مقرر نہ ہونے کا معاملہ توہین عدالت قرار دیدیا
یاد رہے کہ بینچز اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کے معاملے پر سپریم کورٹ کے جسٹس منصور، جسٹس عائشہ اور جسٹس عقیل عباسی نے چیف جسٹس آفریدی کو خط لکھ دیا جس میں جسٹس منصور نے معاملے کو توہین عدالت بھی قرار دیا تھا۔
ذرائع کے مطابق جسٹس امین الدین خان کو بھی تینوں ججز کی جانب سے خط لکھا گیا تھا جس میں بینچ اختیارات سے متعلق کیس کا ذکر کیا گیا تھا۔
خط میں کہا گیا جسٹس عقیل عباسی کو 16 جنوری کو بینچ میں شامل کیا گیا جو سندھ ہائیکورٹ میں بھی کیس سن چکے ہیں۔ خط میں 20 جنوری کو کیس سماعت کے لیے مقرر نہ ہونے کی شکایت کی گئی۔
خط کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی 17 جنوری اجلاس کا ذکر کیا گیا۔ جسٹس منصور نے کمیٹی کو آگاہ کیا ان کا نقطہ نظر ریکارڈ پر موجود ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی اجلاس میں شرکت سے انکار کیا اور جسٹس منصور علی شاہ نے ان کے آرڈر پر عمل کیا۔
جسٹس منصور نے کہا کہ انھیں کمیٹی میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کمیٹی پہلے والا بینچ تشکیل دیکر 20 جنوری کو سماعت فکس کر سکتی تھی۔
جسٹس منصور نے خط میں کہا کیس فکس نہ کرنا جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننے کے مترادف ہے۔ جسٹس منصور نے معاملے کو توہین عدالت بھی قرار دیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایڈیشنل رجسٹرار بینچز اختیارات مقرر نہ ہونے کیس مقرر نہ کیا گیا
پڑھیں:
وفاقی بجٹ کا حجم 17600 ارب مقرر‘ دفاع‘ تنخواہ اور پنشن میں اضافے کی تجویز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(نمائندہ جسارت) نئے مالی سال کے بجٹ کا حجم 17600 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، مجوزہ بجٹ کے مطابق حکومت نے دفاعی بجٹ میں 18 فی صد اضافہ کیا ہے، قرض ادائیگی پر 6200 ارب روپے خرچ ہوں گے۔وفاقی حکومت کا مالی سال 2025-26ء کے لیے 17600 ارب روپے حجم کا بجٹ آج منگل کو پیش کیا جائے گا ۔ وزارتِ خزانہ نے بجٹ کے اہم خدوخال طے کر لیے ہیں، جن میں ٹیکس وصولی، آمدن، خسارے اور اخراجات سے متعلق تفصیلات شامل ہیں۔وفاقی بجٹ میں مجموعی آمدن کا تخمینہ 19 ہزار 400 ارب روپے لگایا گیا ہے جب کہ ایف بی آر کے ذریعے ٹیکس وصولی کا ہدف 14 ہزار 130 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔اسی طرح قرضوں کی ادائیگی پر 6 ہزار 200 ارب روپے خرچ ہوں گے جو بجٹ خسارے کے برابر ہیں۔ بجٹ خسارے کا ہدف بھی یہی 6200 ارب روپے رکھا گیا ہے۔سرکاری ملازمین کے لیے اچھی خبر ہے کہ ان کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 5 سے ساڑھے 7 فیصد تک اضافے کی تجویز زیر غور ہے۔ دفاعی بجٹ میں 18 فیصد اضافے کا امکان ہے۔دوسری جانب تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے نسبتاً کم فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ تعلیم کے لیے صرف 13 ارب 58 کروڑ روپے اور صحت کے لیے 14 ارب 30 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔علاوہ ازیں ڈیجیٹل معیشت اور آئی ٹی سیکٹر کے لیے 16 ارب 22 کروڑ روپے مختص کیے جانے کا امکان ہے، جسے معیشت کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بجٹ اجلاس کے باقاعدہ شیڈول کی منظوری دے دی ہے، جس کے مطابق بجٹ آج 10 جون کو پیش کیا جائے گا جب کہ 11 اور 12 جون کو اسمبلی اجلاس منعقد نہیں ہوگا۔ بجٹ پر باقاعدہ بحث 13 جون سے شروع ہوگی اور یہ 21 جون تک جاری رہے گی اور 22 جون کو اجلاس منعقد نہیں ہوگا۔بجٹ اجلاس کا سب سے اہم دن 26 جون ہوگا، جس دن فنانس بل 2025-26ء کی منظوری لی جائے گی۔ اس سے قبل 23 جون کو مختص اخراجات پر بحث جب کہ 24 اور 25 جون کو مطالبات، گرانٹس اور کٹوتی کی تحاریک پر بحث اور ووٹنگ ہوگی۔ 27 جون کو سپلیمنٹری گرانٹس سمیت دیگر امور پر ووٹنگ مکمل کی جائے گی۔اسپیکر ایاز صادق نے واضح کیا ہے کہ شیڈول میں کسی بھی قسم کی تبدیلی ان کی اجازت سے مشروط ہوگی جب کہ تمام پارلیمانی جماعتوں کو بجٹ بحث میں حصہ لینے کا بھرپور موقع فراہم کیا جائے گا۔وفاقی بجٹ کے بعد صوبائی حکومتیں بھی اپنے اپنے بجٹ پیش کریں گی، جس کے ساتھ ہی ملک میں مالی سال 2025-26ء کے لیے معاشی حکمت عملی کا باضابطہ آغاز ہو جائے گا۔