اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علماء مشائخ نے کہا کہ فلسطینی مقاومتی و حمایتی قوتوں کا اتحاد اسی طرح مضبوط و برقرار رہا تو عنقریب وہ دن ضرور آجائے گا جب بیت المقدس پر آزادی کا جھنڈا لہرائے گا اور دنیا بھر کے مسلمان بیت المقدس میں نماز شکر ادا کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ متحدہ علماء محاذ پاکستان میں شامل مختلف مکاتب فکر کے جید علماء مشائخ نے مرکزی سیکریٹریٹ گلشن اقبال میں محاذ کے بانی سیکریٹری جنرل مولانا محمد امین انصاری کی عیادت و دعائے صحت کے بعد امن معاہدہ فلسطین کے حوالے سے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی امن معاہدہ طوفانِ اقصیٰ و شہدائے مقاومت فلسطین کی فتح مبین ہے۔

علماء مشائخ نے کہا کہ  حماس، حزب اللہ، ایران، لبنان، یمن، شام، عراق و دیگر فلسطینی مزاحمتی و حمایتی قوتوں نے اسلام و ملک دشمن اسرائیل، امریکہ و استعماری، استکباری، استبدادی، تکفیری، یزیدی، خارجی قوتوں کی سازشوں کے خلاف واضح دوٹوک عملی پیغام دے دیا ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی فلسطینی مظلوم مسلمانوں کی کامیابی کیلئے بلاامتیاز رنگ و مسلک متحد و بیدار ہیں، اسرائیل 15 ماہ کی مسلسل خونی جارحیت لاکھوں کو شہید و زخمی ہیں۔

علماء مشائخ نے کہا کہ ہسپتالوں، مساجد، چرچوں، اسکولوں، کیمپوں، رہائشی علاقوں پر وحشیانہ بمباری کرکے بھی اسرائیل اپنے متکبرانہ مذموم مقاصد میں تمام تر کوششوں کے باوجود بھی کامیاب نہیں ہوسکا، بالآخر اسرائیل کو جنگ بندی و امن معاہدے پر مجبور ہونا پڑا، فلسطینی مقاومتی و حمایتی قوتوں کا اتحاد اسی طرح مضبوط و برقرار رہا تو عنقریب وہ دن ضرور آجائے گا جب بیت المقدس پر آزادی کا جھنڈا لہرائے گا اور دنیا بھر کے مسلمان بیت المقدس میں نماز شکر ادا کریں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: علماء مشائخ نے بیت المقدس

پڑھیں:

فلسطین کو دنیا سے نقشے سے مٹانے کے آرزو مند اسرائیل کے دیگر عزائم کیا ہیں؟

7 اکتوبر 2023 کو ہونے والے واقعات ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئے، جس کے بعد اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت نے فلسطینی مسئلے کے مکمل خاتمے کا راستہ اختیار کیا۔

وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت نے قومی سلامتی اور حماس کے حملوں کا بہانہ بنا کر غزہ پر بھرپور فوجی حملے شروع کیے، لیکن اس فوجی مہم کے پیچھے اصل مقصد فلسطینی خودمختاری کا خاتمہ اور آبادی کی جبری نقل مکانی یعنی ایک طرح کی نسل کشی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:نیتن یاہو نے کس کے دباؤ میں آکر غزہ چرچ پر گولہ باری کو ’غلطی‘ قراردیا

غزہ میں تباہ کن انسانی بحران کے باوجود، جس میں  ہزاروں اموات، بنیادی ڈھانچے کی تباہی، اور انسانی امداد پر پابندی شامل ہے، اسرائیلی حملے جاری ہیں۔

اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، مگر اسرائیل نے بین الاقوامی قانون کی پروا کیے بغیر اپنی کارروائیاں جاری رکھی ہیں۔

نتیجتاً یہ تنازع ایک ایسی سطح تک جا پہنچا ہے جہاں شدت اور ظلم اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔

18 جولائی 2024 کو اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف ایک قرارداد منظور کی، جس کے مطابق فلسطینی ریاست اسرائیل کے لیے ایک ’وجودی خطرہ‘ ہے۔

اس قرارداد میں دعویٰ کیا گیا کہ فلسطینی ریاست کا قیام دہشتگردی کو انعام دینا، تنازع کو مزید بڑھانا، اور خطے کو غیر مستحکم کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل ایران جنگ کے 40 دن بعد، ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای نے قوم کے لیے نئے اہداف کا اعلان کردیا

ان کا خیال ہے کہ اگر فلسطینی ریاست قائم ہوئی تو وہ جلد حماس کے قبضے میں آ جائے گی اور ایران کے زیر اثر ایک ’دہشتگرد مرکز‘ بن جائے گی۔

اس کے بعد 23 جولائی 2025 کو کنیسٹ نے ایک اور سخت قرارداد منظور کی، جس میں اعلان کیا گیا کہ پورے مغربی کنارے (ویسٹ بینک) پر اسرائیلی حاکمیت قائم کی جائے گی اور ان علاقوں کو قانونی و انتظامی طور پر اسرائیل کا حصہ بنایا جائے گا۔

یہ اقدام اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اسرائیل اب مغربی کنارے کے الحاق کو ایک طویل مدتی حکمتِ عملی کے طور پر آگے بڑھا رہا ہے۔

اس میں یہ بھی شامل ہے کہ یہودی بستیوں کو مزید وسعت دی جائے گی، فلسطینیوں کو بےدخل کیا جائے گا اور فوجی قبضے کو مزید سخت کیا جائے گا، چاہے بین الاقوامی قوانین اور احتجاج کچھ بھی کہیں۔

اسرائیل اب تنازع کو روکنے کی پالیسی چھوڑ کر پورے مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی و سیاسی حقیقت کو یکطرفہ طور پر بدلنے کے درپے ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی پاور پلانٹ سے زہریلی گیس کا اخراج، شہری گھروں محصور ہونے پر مجبور

صرف اندرونی اقدامات ہی نہیں، اسرائیل اب اپنے علاقائی مخالفین کے خلاف بھی فوجی و سیاسی اقدامات کر رہا ہے، جن میں ایران، حزب اللہ، حوثی اور ترکی شامل ہیں۔

ستمبر 2024 میں اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا، جو اس گروہ کی مزاحمت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔

اس کے بعد اسرائیل نے لبنان میں متعدد حملے کیے اور حزب اللہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔

اسرائیل نے امریکا کی مدد سے لبنان کی نئی حکومت کو حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے پر آمادہ کرنے کی سفارتی کوششیں بھی تیز کر دی ہیں۔

یمن میں اسرائیل نے حوثیوں کے خلاف بھی کئی کارروائیاں کی ہیں، خاص طور پر ان کے میزائل مراکز اور اسلحہ کے ذخائر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان حملوں میں امریکا اور برطانیہ کی افواج بھی شامل رہی ہیں تاکہ بحیرہ احمر میں جہاز رانی کو محفوظ رکھا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیلی فوج کے لیے دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والی فیکٹری ہیک کر لی گئی

اسی طرح شام میں اسرائیل نے اپنے روایتی فضائی حملے جاری رکھے ہیں، لیکن اب وہ دروز اور کرد گروپوں کو علیحدگی کی تحریکوں کے لیے خاموش حمایت دے رہا ہے تاکہ شام میں ایران اور ترکی کا اثر کم کیا جا سکے۔

موسمِ بہار 2025 میں اسرائیل اور ایران کے درمیان کئی دہائیوں کا سب سے بڑا تنازع سامنے آیا، جسے ’12 روزہ جنگ‘ کہا جا رہا ہے۔

اس میں ایران نے اسرائیل پر میزائل حملے کیے، جس کے بدلے اسرائیل نے ایران کے ایئر ڈیفنس، نیوکلیئر تنصیبات اور عسکری مراکز کو نشانہ بنایا۔

یہ جنگ امریکی اور قطری سفارتی کوششوں سے رکی، لیکن یہ واضح ہو گیا کہ اسرائیل اب کھلے فوجی تصادم کے لیے بھی تیار ہے تاکہ ایران کے اثر کو ختم کیا جا سکے۔

تاہم اسرائیل کی یہ پالیسی امریکا کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن رہی ہے، خاص طور پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے لیے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل میں بجلی کے نظام میں خلل، دھماکے اور آتشزدگیوں کے مشتبہ واقعات

ٹرمپ نے انتخابی مہم میں غزہ تنازع ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، مگر اسرائیل کی جارحیت نے امریکا کو ایک نازک پوزیشن میں ڈال دیا ہے۔

اسرائیل نے حال ہی میں ایک اور متنازع منصوبہ پیش کیا ہے، جس کے مطابق غزہ کے تمام فلسطینیوں کو بےدخل کر کے اسے ایک سیاحتی علاقے، ’غزہ ریویرا‘ میں تبدیل کیا جائے گا، جہاں خلیجی ممالک کی سرمایہ کاری سے جدید منصوبے بنائے جائیں گے۔

ٹرمپ نے اسے ’عملی‘ اور ’جدید سوچ‘ قرار دیا، لیکن اس پر کوئی عملی اقدام نہیں ہوا۔

مجموعی طور پر اسرائیل اب ایک جامع حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے جس کا مقصد فلسطینی مسئلے کا مکمل خاتمہ اور پورے مغربی کنارے و غزہ پر مستقل قبضہ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ ایران، ترکی، حزب اللہ اور حوثیوں جیسے مخالفین کو بھی کمزور کرنے میں مصروف ہے۔

اس مقصد کے لیے فوجی طاقت، سفارت کاری، لابنگ اور پروپیگنڈا سبھی کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

اسرائیل

مگر اس منصوبے کے مکمل ہونے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ مغربی ممالک، خاص طور پر امریکا میں، فلسطین کے مسئلے پر اختلاف موجود ہے۔ کچھ حلقے 2 ریاستی حل کے حامی ہیں۔

دوسری طرف اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت عرب ممالک میں نفرت بڑھا رہی ہے، اور اس سے خطے میں بڑا تصادم پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

دنیا کے بدلتے حالات اور عدم استحکام میں، مشرق وسطیٰ کی یہ صورتحال کسی بڑے عالمی تنازع میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

اس بحران کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر سفارتی مداخلت کی ضرورت ہے، اگرچہ حقیقت میں ایسا لگ رہا ہے کہ ہم پہلے ہی ایک بےقابو تباہی کی طرف بڑھ چکے ہیں۔

تجزیہ نگار : مراد صادق زادہ، صدر مشرق وسطیٰ مطالعاتی مرکز، وزیٹنگ لیکچرر، ایچ ایس ای یونیورسٹی (ماسکو)۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل امریکا ایران حزب اللہ حسن نصراللہ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ مشرق وسطیٰ

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کو دنیا سے نقشے سے مٹانے کے آرزو مند اسرائیل کے دیگر عزائم کیا ہیں؟
  • فلسطین کو تسلیم کرنے کے حق میں ہیں، لیکن؟ وزیرِاعظم اٹلی
  • فلسطین کو تسلیم کرنے کے حق میں ہیں؛ وزیرِاعظم اٹلی
  • فلسطینی مغربی کنارے کا الحاق غیر قانونی، عالمی برادری اسرائیل کو جواب دہ ٹھہرائے: پاکستان
  • فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کا معاملہ جلد حل ہونا چاہیئے، حاجی محمد حنیف طیب
  • فرانس کے فلسطین کو تسلیم کرنے کے اعلان پر امریکا برہم؛ اسرائیل بھی ناراض
  • فرانس کا فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان، امریکا برہم، اسرائیل ناراض
  • فرانس کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان، پاکستان علماء کونسل کا خیر مقدم
  • فرانس کا فلسطین کو باضابطہ ریاست تسلیم کرنے کا عندیہ، اسرائیل کو تشویش لاحق
  • تنازعہ فلسطین اور امریکا