فلسطین کو تسلیم کرنے کے حق میں ہیں، لیکن؟ وزیرِاعظم اٹلی
اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی ایسی چیز کو کاغذ پر تسلیم کر لیا جائے جو حقیقت میں موجود ہی نہیں، تو مسئلہ حل شدہ محسوس ہو سکتا ہے، حالانکہ وہ ہوتا نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اطالوی وزیرِاعظم میلونی نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حق میں ہوں لیکن پہلے اس کا باضابطہ قیام عمل میں آنے دیں۔ اطالوی اخبار "لا ریپبلیکا" کو دیے گئے ایک انٹرویو میں میلونی نے کہا کہ میں فلسطینی ریاست کے حق میں ہوں، لیکن اس کے قیام سے پہلے اسے تسلیم کرنے کے حق میں نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی ایسی چیز کو کاغذ پر تسلیم کر لیا جائے جو حقیقت میں موجود ہی نہیں، تو مسئلہ حل شدہ محسوس ہو سکتا ہے، حالانکہ وہ ہوتا نہیں۔ جمعہ کے روز اٹلی کے وزیرِ خارجہ نے بھی کہا تھا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عمل اُس وقت ہونا چاہیے جب نئی فلسطینی قیادت اسرائیل کو بھی تسلیم کرے۔
یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب فرانس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ستمبر کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کی اسرائیل اور امریکا نے شدید مذمت کی ہے۔ دوسری جانب جرمنی کے سرکاری ترجمان نے کہا ہے کہ فی الحال فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اس وقت پہلی ترجیح مشرقِ وسطیٰ میں دو ریاستی حل کی طرف طویل عرصے سے زیر التوا پیش رفت ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حق میں
پڑھیں:
فرانس فلسطینی ریاست کو جلد ہی تسلیم کر لے گا، ماکروں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جولائی 2025ء) فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے اعلان کیا کہ ان کا ملک جلدی ہی باضابطہ فلسطین کو بطور ایک ریاست کے تسلیم کر لے گا۔ ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں فرانس کے صدر نے کہا کہ اس کا باقاعدہ اعلان نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کیا جائے گا۔
فرانس دنیا کے بڑے صنعتی ممالک جی سیون گروپ کا ایک رکن ہے اور اگر اس نے اس پر عمل کیا تو وہ ایسا کرنے والا گروپ کا پہلا ملک ہو گا۔
اس گروپ میں فرانس کے ساتھ امریکہ، برطانیہ، اٹلی، جرمنی، کینیڈا اور جاپان بھی شامل ہیں۔ فرانسیسی صدر نے کیا کہا؟جمعرات کے روز ایکس پر اپنی ایک اور پوسٹ میں ماکروں نے لکھا: "مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور دیرپا امن کے لیے اپنے تاریخی عزم کے مطابق، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔
(جاری ہے)
"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "ہمیں حماس کو بھی غیر مسلح کرنے اور غزہ کو محفوظ بنانے نیز دوبارہ تعمیر کرنے کی بھی ضمانت دینی ہو گی۔
"انہوں نے کہا، "بالآخر ہمیں فلسطینی ریاست کی تعمیر کرنی ہے، اس پر عملداری کو یقینی بنانا چاہیے اور اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ اسے غیر مسلح کرنے کو تسلیم کیا جائے اور اسرائیل کو مکمل طور پر تسلیم کر لیا جائے۔ اس سے مشرق وسطیٰ میں تمام لوگوں کی سلامتی میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔"
فرانس کے صدر نے مزید لکھا: "آج فوری ضرورت غزہ میں جنگ کے خاتمے اور شہری آبادی کو بچانے کی ہے۔
امن ممکن ہے۔ ہمیں فوری جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کے لوگوں کے لیے بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی ضرورت ہے۔"فرانس کے صدر نے اس سلسلے میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے نام ایک مکتوب بھی لکھا ہے، جس میں انہوں نے اپنے اس فیصلے کی تصدیق کی ہے۔
اعلان کا خیر مقدم کیاخبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ماکروں کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے عباس کے نائب حسین الشیخ نے کہا، "یہ موقف فرانس کی بین الاقوامی قانون اور فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور ہماری آزاد ریاست کے قیام کے لیے ان کی حمایت کی عکاسی کرتا ہے۔
"اسپین پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکا ہے اور ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے ماکروں کے اعلان کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے ایکس پر لکھا: "ہم سب کو مل کر اس چیز کی حفاظت کرنی چاہیے، جسے نیتن یاہو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دو ریاستی حل ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔"
سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بھی ماکروں کے اعلان کو "تاریخی" قرار دیتے ہوئے اس کی تعریف کی اور دوسرے ممالک سے بھی اس کی پیروی کرنے کی اپیل کی ہے۔
آئرلینڈ کے وزیر خارجہ سائمن ہیرس نے ایکس پر ایک پوسٹ میں فرانس کے اس اقدام کو "اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے امن اور سلامتی کی واحد پائیدار بنیاد" قرار دیا۔
امریکہ اور اسرائیل نے مذمت کیامریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فیصلے کو "لاپرواہی" قرار دیتے ہوئے فرانسیسی صدر کے اس اعلان پر اپنے رد عمل میں کہا کہ وہ " اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے منصوبے کو "سختی سے مسترد کرتے ہیں۔
"انہوں نے ایکس پر لکھا: "لاپرواہی پر مبنی یہ فیصلہ صرف حماس کے پروپیگنڈے کا کام کرتا ہے اور امن کو خراب کرتا ہے۔ یہ سات اکتوبر کے متاثرین کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔"
اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا: "سات اکتوبر کے قتل عام کے بعد ہم صدر ماکروں کے تل ابیب کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
"نیتن یاہو نے مزید کہا کہ "ان حالات میں ایک فلسطینی ریاست اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کے لیے ایک لانچ پیڈ ہو گی، نہ کہ اس کے ساتھ امن میں رہنے کے لیے۔۔۔"
اسرائیل کے نائب وزیر اعظم یاریو لیون نے بھی فرانس کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے "فرانس کی تاریخ پر سیاہ نشان اور دہشت گردی کی براہ راست مدد" قرار دیا۔
برطانیہ کا کیا کہنا ہے؟برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر کا کہنا ہے کہ وہ 25 جولائی جمعہ کے روز غزہ میں انسانی بحران کے حوالے سے فرانس اور جرمنی کے ساتھ "ہنگامی کال" کریں گے۔ اسٹارمر نے جنگ بندی اور "فلسطینی ریاست" کی طرف قدم اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا۔
جمعرات کے روز انہوں نے ایک بیان میں کہا، "میں کل اپنے ای تھری (برطانیہ، جرمنی اور فرانس) کے شراکت داروں کے ساتھ ایک ہنگامی کال کروں گا، جہاں ہم اس بات پر تبادلہ خیال کریں گے کہ ہم ہلاکتوں کو روکنے کے لیے فوری طور پر کیا کر سکتے ہیں اور لوگوں کو وہ خوراک پہنچانے کی اشد ضرورت ہے جس کے وہ مستحق ہیں، ایک پائیدار امن کے قیام کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتے ہوئے۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "جنگ بندی ہمیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے اور ایسے دو ریاستی حل کی راہ پر گامزن کرے گی، جو فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن اور سلامتی کی ضامن ہو۔"
ادارت: جاوید اختر