ایک سوشل میڈیا صارف نے دعویٰ کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت مصنوعی ذہانت، چیٹ جی پی ٹی نے جان لیوا بیماری کی تشخیص کرکے اس کی جان بچانے میں مدد کی۔ گمنام صارف نے ریڈاٹ پوسٹ میں بتایا کہ اس نے کچھ دن پہلے ہلکی ورزش کی، جس کے بعد اسے پورے جسم میں شدید درد محسوس ہونے لگا، صحت میں اچانک بگاڑ کے بارے میں الجھن میں صارف نے چیٹ جی پی ٹی نے اسے فوری طور پر ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کی تجویز دی۔

یہ بھی پڑھیں: اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی نے آواز پر مبنی نیا فیچر متعارف کروا دیا

’میں نے چیٹ جی پی ٹی کو اپنی علامات کی وضاحت کی اور اس نے مجھے فوری طور پر اسپتال جانے کی سفارش کی اور بتایا کہ اس کی بتایا کہ میری بتائی گئی علامات رابڈومائلیسس کے ساتھ منسلک ہیں۔‘

چیٹ جی پی ٹی کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے، وہ شخص اسپتال گیا، جہاں اس نے ٹیسٹ کروائے جو رابڈومائلیسس کے لیے مثبت آئے۔’جس کے بعد مجھے ایک ہفتہ اسپتال میں رہنا پڑا، میں نے اپنے لیب ٹسٹ کا تجزیہ کرنے کے لیے چیٹجی پی ٹی کا بھی استعمال کیا،جو کہ میڈیکل ٹیم کے کہنے کے برابر تھا، میں جانتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے اس سے پہلے کہ مجھے ڈاکٹر کی طرف سے بتایا جائے کہ چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے کیے گئے تجزیہ کی وجہ سے کیا ہو رہا ہے، ایک ہفتہ علاج کے بعد میں بالکل ٹھیک ہوں جو کہ چیٹ جی پی ٹی کے مرہون منت ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیں: نیویڈیا کا مصنوعی ذہانت پر مبنی نیا اور مفت چیٹ بوٹ متعارف، یہ چیٹ جی پی ٹی سے کیسے مختلف ہوگا؟

یاد رہے کہ رابڈومائلیسس ایک سنگین طبی حالت ہے ، جس میں مبتلا انسان کے پٹھوں کے ٹشو تیزی سے ٹوٹ جاتے ہیں، جو کئی پیچیدگیوں جیسے گردے کو نقصان، میٹابولک ایسڈوسس اور الیکٹرولائٹ عدم توازن کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر علاج نہ کیا جائے تو یہ موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news بیماری چیٹ جی پی ٹی ڈاکٹر رابڈومائلیسس علاج ورزش.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: چیٹ جی پی ٹی ڈاکٹر رابڈومائلیسس علاج

پڑھیں:

وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر

کتنی اچھی تھی وہ بیسویں صدی۔تھوڑے سے ڈاکٹر، اور تھوڑے ہی مریض ہوتے۔ موسمی بخار  اور نزلہ زکام ہی معمول کی بیماریاں تھیں۔ ہاں کسی کو ماں کی بددعا یا فقیر کی آہ لگ جاتی تو دانت یا کان کے درد جیسے ’سنگین امراض‘ بھی لاحق ہوجاتے۔ تشویشناک مریضوں کی اکثریت وہ ہوتی جو ٹرک اور بس کے تصادم میں اوپر پہنچنے کی بجائے اسپتال پہنچ جاتے۔ یوں سرجیکل وارڈ ہی ہر اسپتال کے بڑے وارڈز ہوتے۔ تب پبلک ٹرانسپورٹ کم اور شاہراہیں شہروں میں بھی یکطرفہ پر دو طرفہ تھیں۔ سو تصادم آمنے سامنے کے ہوتے اور ہر دوسرے ہفتے 20 ہلاک 40 زخمی کی خبر اخبارات میں نظر آتی۔ پھر نواز شریف کی حکومت آئی اور اس نے دو رویہ شاہراہوں کا جال پھیلا کر قوم کو مزید معذور ہونے سے بچا لیا۔  یوں پاکستان نئے دور یعنی اکیسویں صدی میں دو رویہ سڑکوں کے ساتھ داخل ہوا۔

نئی صدی تھی، سو لوگ بھی نئے تھے۔ اور لوگ نئے تھے تو ڈاکٹر بھی نئے تھے۔ بیسویں صدی والا ڈاکٹر بہت بڑی بے ایمانی بھی کرتا تو یہ کہ 50 روپے فیس پتلون میں اڑسنے کے بعد جو دوا لکھ کر دیتا وہ ایسی دیتا کہ مریض پہلے ہی چکر پر ٹھیک نہ ہو۔ کم از کم 50 کا ایک نوٹ مزید دینے کو حاضر ہو پھر بیشک صحت مند ہوجائے۔ مطب بند ہوتا تو شٹر کو چائنا والے 2 عدد تالے لگے ہوتے۔ یوں بورڈ پڑھے بغیر بند شٹرز سے پتہ ہی نہ چلتا کہ کون سا کلینک ہے اور کون سی پرچون کی دکان؟ مطب کھلتا تو کوئی ریسیپشن نہ ہوتا۔ ڈاکٹر اور اس کا  کمپاؤڈرہی کل اہلیان مطب ہوتے۔ اور کمپاؤڈر کمپاؤڈری کے ساتھ مطب کے جھاڑو پوچے اور چوکیداری کے اضافی قلمدان بھی رکھتا۔ بھروسہ اس پر  ڈاکٹر  ٹکے کا نہ کرتا۔ جس کا پتہ یوں چلتا کہ فیس ڈاکٹر صاحب ہر حال میں بدست خود وصول فرماتے اور پتلون کی جیب میں اڑستے جاتے۔ گھر جاتے تو بیگم کو ساتھ ملا کر ان مڑے تڑے 50 کے نوٹوں کو استری کر لیتے۔ بیگم کسی ہفتہ صفائی کے نتیجے میں  کم آمدنی کی شکایت کرتی تو وہ فرماتے

’ڈارلنگ ! بس کسی طرح یہ مہینہ گزار لو۔ اگلے مہینے ساون شروع ہوجائے گا، پھر مریض ہی مریض ہوں گے۔‘

دور نے گزرنا ہوتا ہے، سو وہ دور بھی نہ رہا۔ اب  ہم کھڑے ہیں اکیسویں صدی میں۔

جہاں وہ بیسویں صدی والا ڈاکٹر ایکسپائر ہوچکا۔ اور اس کی جگہ لے لی ہے نئے دور کے نئے ڈاکٹر نے۔ جتنا یہ ڈاکٹر  خود عجیب و غریب ہے اتنی ہی عجیب و غریب یہ بیماریاں ساتھ لایا ہے، جس کے لیے اسے جراثیمی امور کے سائنسدانوں کی مدد حاصل ہے۔ اس کے کلینک کی دیوار شیشے کی  ہے۔ سلائیڈنگ ڈورز ہیں، اور سلائیڈنگ ہی کھڑکیاں۔ جھاڑو پوچے کے لیے سویپر رکھا ہوا ہے۔ باہر ایک کاؤنٹر ہے، اور کاؤنٹر پر ایک دوشیزہ ہے۔ صورت بیشک ڈراؤنی ہے مگر ہے دوشیزہ ہی۔ اندر ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ ایک اسسٹنٹ چوکس و تیار کھڑا ہے۔ جو بوقت ضرورت مریض کا ناڑا کھولنے کی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ اور ماشاءاللہ  کلینک میں اے سی بھی چل رہا ہے۔ یوں پہلے صرف ڈاکٹر کی فیس دینا پڑتی تھی جو 50 روپے ہوتی۔ اب ڈاکٹر کے کلینک کے کھڑکی شیشوں کا خرچ بھی مریض نے ہی تاحیات قسطوں میں اٹھانا ہے۔ اے سی کا بل، وہ باہر والی دوشیزہ،  اندر والے اسسٹنٹ اور سویپر کی تنخواہیں بھی مریض کی جب سے جائیں گی۔ یوں جاتے ہم ڈاکٹر کے پاس ہیں مگر فیس ہمیں ان 4 لوگوں کی ادا کرنا ہوتی ہے۔

آپ نے غور کیا؟ اس اکیسویں صدی والے ڈاکٹر کے اسٹاف میں کمپاؤڈر کا ذکر نہیں آیا۔ ہے نا عجیب بات ؟ سوال یہ ہے کہ کمپاؤڈر گیا کہا ں؟ اگر کوئی ارتقاء ہوا ہے تو اس کی جگہ لینے والا اب کیا کہلاتا ہے ؟ یہی تو سب سے بڑی واردات ہوئی ہے۔ کمپاؤڈر کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے نسل ہی ختم کردی۔ اب آپ کو مطب سے دوا نہیں صرف پرچی ملتی ہے۔ اور پرچی بھی نہیں بلکہ پرچیاں ملتی ہیں۔ وہ 50 روپے والا ڈاکٹر اتنا وضعدار تھا  کہ ہم منہ بنا کر جاتے تو وہ کہتا

’منہ کیوں لٹکا رکھا ہے؟ ہلکا سا بخار ہے دو دن میں ٹھیک ہوجائے گا’

اور یہ آج کل والے نمونے کے پاس اگر ہنستے مسکراتے جایئے تو یہ فورا کہتا ہے

مجھے لگتا ہے آپ اپنی بیماری کو سیریس نہیں لے رہے !

‘سیریس؟ ہلکا سا زکام ہی تو ہے، اس میں سیریس کیا چیز ہے ؟‘

’نہیں بھئی !  مجھے یہ کچھ اور لگ رہا ہے۔ بس دعا کیجیے کہ جو مجھے لگ رہا ہے وہ ہو ناں۔ یہ پرچی لیجیے، اور ’لٹ مچاؤ لیب‘ سے ٹیسٹ کروا کر رپورٹس لائیے تب ہی صورتحال واضح ہوگی۔‘

جو شخص کچھ ہی دیر قبل  بہت پر اعتماد قدموں سے چلتا کلینک میں داخل ہوا تھا۔ وہ خود پر آیت الکرسیاں پڑھتے ٹیسٹ کروانے کے لیے روانہ ہوجاتا ہے تو  اکیسویں صدی کا ڈاکٹر پیچھے سے آواز دے کر کہتا ہے:

میں ’لٹ مچاؤ لیب‘ کے سوا کسی بھی لیب پر ٹرسٹ نہیں کرتا۔ ٹیسٹ وہیں کے ہونے چاہئیں۔

اور جب وہ 10 ہزار روپے کے ٹیسٹ کرا کر رپورٹس کا لفافہ ڈاکٹر کے ہاتھ پر لا رکھتا ہے تو  یہ رپورٹ پر ایک  نظر ڈالتا ہے اور پھر چہرے پر مصنوعی تبسم پھیلا کر یوں گویا ہوتا ہے

’شکر الحمدللہ ! ! ! ! ! مبارک ہو سر ! مجھے جو خدشہ تھا وہ غلط ثابت ہوا۔ یہ زکام ہی ہے۔ 5 دوائیں لکھ کر دے رہا ہوں۔ باہر فارمیسی ہے، اسی سے یہ ساری دوائیاں لیجیے گا، کیونکہ باقی سب جعلی دوائیاں فروخت کرتے ہیں۔ پورے شہر میں اصلی دوائیاں صرف اسی فارمیسی سے ملتی ہیں۔ انشاءاللہ دو تین ہفتے میں ٹھیک ہو جائیں گے۔‘

’سر ! زکام کے لیے اتنی ساری دوائیں؟‘

’یہ عام زکام نہیں ہے۔ اسے ہلکا مت لیجیے۔ معمولی سی بھی غفلت برتی  توکووڈ 19 میں کنورٹ ہوجائے گا۔‘

یوں یہ اکیسویں صدی کا ڈاکٹر  لیب اور فارماسیوٹیکل کمپنی دونوں سے کمیشن پاتا ہے۔ اور اس لیے پاتا ہے کہ لیب اور فارما کے لیے ہماری جیبوں بلکہ تجوریوں پر ڈاکہ ڈاکٹر صاحب نے ہی ڈالا ہے۔ یہ محض اتفاق تو نہیں ہوسکتا کہ جس طرح ’ڈاکے‘ والا ڈاکو کہلاتا ہے، اسی طرح ڈاکٹر بھی ڈاکے سے ہی ماخوذ لگ رہا ہے۔ صورتحال اس قدر افسوسناک ہے کہ نیورالوجسٹ ڈپریشن کےشکار شخص کا ڈیڑھ برس تک اس کے باوجود علاج کرتے ہیں کہ ڈپریشن سرے سے طبی مرض ہی نہیں۔ انسان ایک سوشل اینمل ہے۔ سو یہ جب بھی سوشل سرگرمیاں کمپرومائز کرے گا، ڈپریشن کا شکار ہونا طے ہے۔ کیا نیورالوجسٹ کو نہیں معلوم کہ ڈپریشن طبی عارضہ نہیں؟ اور اس کا شکار شخص کبھی بھی دوا کے ذریعے اس سے نجات نہیں پاسکتا ؟ وہ اچھی طرح جانتا ہے مگر کلینک آیا شخص تو ڈاکٹر کی روزی روٹی ہے۔ بھلا کوئی روزی روٹی کو بھی لات مارتا ہے؟

اگر آپ ڈپریشن کا شکار ہیں تو کسی ڈاکٹر کے پاس مت جایئے۔ بس اتنا کر لیجیے کہ اپنی سوشل سرگرمی کے تینوں سرکل پوری طرح ایکٹو کر لیجیے۔ پہلا سرکل فیملی کا ہے۔ فیملی کو باقاعدہ وقت دیجیے۔ اہلخانہ سے روز کم از کم گھنٹہ دو گپ شپ کیجیے۔ اس کی بہترین صورت یہ ہوسکتی ہے کہ شام 6 بجھے سے رات 9 تک گھر کا وائی فائی بند رکھیے۔ وہ بند ہوگا سب اہلخانہ ٹی وی لاؤنج میں ہوں گے، اور خود کار طور پر گپ شپ کا ماحول بن جایا کرے گا۔

دوسرا سرکل آپ کے رشتے داروں کا ہے، ان سے اسی طرح میل جول اختیار کر لیجیے جس طرح سوشل میڈیا دور سے قبل والی نسل کا تھا۔

تیسرا سرکل ذاتی دوستوں کا ہے۔ ان میں آپ کے کلاس فیلوز، کولیگز، ٹیم میٹس، اور گاؤں والوں سمیت وہ سب آتے ہیں جن سے آپ کی ذاتی دوستی ہے۔ ان سے بھی آپ کا میل جول متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

اگر آپ کے یہ تینوں سرکل پورے بھی ہیں اور نارمل بھی ہیں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ آپ ڈپریشن کا شکار ہوں۔ یہ وبا سوشل میڈیا دور کی دین ہے۔ اس کا میڈیکل سائنس سے دور کا بھی کوئی لینا دینا نہیں۔ سو اس کے علاج کے لیے نیورالوجسٹ سے دور رہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

رعایت اللہ فاروقی

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں ڈاکٹر کی ڈاکٹروں کے خلاف ایف آئی آر  درج، معاملہ کیا ہے؟
  • جناح اسپتال میں ینگ ڈاکٹروں کے 2 گروپوں میں جھگڑا، 5 ڈاکٹرز زخمی
  • کراچی: جناح اسپتال میں ڈاکٹروں کے 2 گروپوں میں جھگڑا، 5 ڈاکٹرز زخمی
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • کراچی: فائرنگ کے واقعات میں سیکیورٹی گارڈ سمیت 2 افراد زخمی
  • انجمن تحفظ عزاداری جنوبی پنجاب کا اجلاس، محرم الحرام سے قبل مسائل کی نشاندہی 
  • آئی ایم ایف کے پاکستانی سول سروس سسٹم پر خدشات، تقرریوں میں سیاسی مداخلت کی نشاندہی
  • آئی ایم ایف کے پاکستانی سول سروس سسٹم پر خدشات، تقرریوں میں سیاسی مداخلت کی نشاندہی
  • کراچی: فائرنگ کے واقعات میں سیکیورٹی گارڈ سمیت تین افراد زخمی
  • سرکاری اسپتالوں میں قواعد کیخلاف تعیناتیاں، مریضوں کو دشواریاں