قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نےڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 منظور کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 منظور کرلیا، چیئرمین کمیٹی امین الحق کے مطابق مذکورہ بل کی حمایت میں 10 جبکہ مخالفت میں 6 اراکین نے ووٹ دیا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے امین الحق کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے معاملات جمہوری رویے کے ساتھ چلائے جارہے ہیں، بل کے تحت ڈیجیٹل سوسائٹی اور ڈیجیٹل معیشت کو بڑھانے کی غرض سے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل پیش کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
کمیٹی رکن شیر ارباب کا موقف تھا کہ ایک طرف ڈیجیٹل اکانومی کی باتیں کی جارہی ہیں تو دوسری جانب انٹرنیٹ کا حال چیک کریں، اربوں روپے کا نقصان انٹرنیٹ کی سست روی اور فائر وال سے ہورہا ہے۔
اپوزیشن لیڈر اوررہنما تحریک انصاف عمرایوب کا کہنا تھا کہ ہم اس بل کے سیکشن آف لا کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں، بل کو بلڈوز نہیں ہونے دیں گے، پی ٹی اے کے چیئرمین پہلے سے ریٹائر فوجی افسر ہیں، نادرا، پی ٹی اے میں ریٹائر فوجی جرنیل بیٹھے ہیں۔
مزید پڑھیں:
عمرایوب نے واضح طور پر ڈیجیٹل نیشن بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ سینٹرل ڈیٹا کے غلط استعمال کو کیسے روکا جائے گا، شارک مچھلیوں نے انٹرنیٹ کیبل کا ستیاناس کردیا ہے، تحریک انصاف کا جب جلسہ ہوتا ہے تو انٹرنیٹ کی اسپیڈ سست کردی جاتی ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر خان نے گزارشات پیش کرتے ہوئے پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی کو فکس کرنے کا مطالبہ کیا، ان کا موقف تھا کہ حکومت اس اتھارٹی کو 5 ارکان پر مشتمل ادارہ بنالیں، ایک چیئرپرسن اور 4 اراکین صوبوں سے لیں، تعلیمی قابلیت بھی بیچلرز کے بجائے ماسٹر کرلیں۔
مزید پڑھیں:
وزیر مملکت شزہ فاطمہ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئےبتایا کہ کوئی بھی ادارہ ڈیجیٹل نہیں ہونے جارہا ہے، مجھے اس کے خلاف جنگ لڑنا پڑ رہی ہے، سرکاری ادارے ڈیجیٹل نہیں ہونا چاہتے ہیں،
شزہ فاطمہ کے مطابق یہ بل ایک انفرادی شخصیت کو طاقتور بنائے گا، ڈیجیٹل ہونے سے لوگوں کے بنیادی مسائل حل ہوں گے،کسی بھی ایک ادارے کے پاس ڈیٹا سینٹرل نہیں ہورہا ہے۔
مزید پڑھیں:
شزہ فاطمہ نے کہا کہ فائنانشل فراڈ سے متعلق ابھی مسائل آرہے ہیں، قومی سطح پر سائبر سیکورٹی تھریٹس بڑھتے جارہے ہیں، ہمیں خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ رشوت کے بازار کو ختم کرنا ہے یا نہیں؟ اگر رشوت کو ختم کرنا، اور نظام میں شفافیت لانی ہے تو ڈیجیٹل ہونا پڑے گا۔
عمیر نیازی کا کہنا تھا کہ ملک کی ڈیجیٹل اکانومی تباہی کے دہانے پر ہے، پاکستان میں ٹولز ہی دستیاب نہیں ہیں، اتنا جلدبازی نہ کریں، اپوزیشن اراکین کے تحفظات دور کیے جائیں۔
مزید پڑھیں:
وزیرمملکت شزہ فاطمہ کا موقف تھا کہ ڈیٹا پول ایک جگہ اکٹھا نہیں ہورہا ہے، یہ غلط تاثر دیا جارہا کہ ڈیٹا ایک جگہ جمع ہوگا تو مسائل ہوں گے، ادارے ڈیجٹلائز ہورہے ہیں، ڈیجیٹل شناخت سے بہت ساری چیزیں آسانی سے دستیاب ہوجائیں گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بیرسٹر گوہر ڈیجیٹل اکانومی عمر ایوب عمیر نیازی فائنانشل فراڈ وزیرمملکت شزہ فاطمہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بیرسٹر گوہر عمر ایوب عمیر نیازی ڈیجیٹل نیشن مزید پڑھیں شزہ فاطمہ تھا کہ
پڑھیں:
قومی اسمبلی ارکان کو 1.16 ارب روپے کے فری سفری واؤچرز دیے گئے
ایک آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے مالی سال 2021-22ء سے 2023-24ء کے دوران ارکان قومی اسمبلی کو 1.16 ارب روپے کے فری سفری واؤچرز جاری کیے، جن میں سے 16 کروڑ 10 لاکھ روپے کے جاری کردہ واؤچرز اور بیان کردہ اخراجات میں فرق سامنے آیا ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی انتظامیہ نے بتایا کہ اس عرصہ کے دوران سفری واؤچرز کی مد میں باز ادائیگیوں (Reimbursement) اور انکیشمنٹ (Encashment) پر ایک ارب روپے کے اخراجات ہوئے ہیں۔تاہم، آڈٹ حکام کے مطابق قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اُن واؤچرز کے اخراجات کا مفصل انداز میں میزانیہ (Reconciled Statement) بنانے میں ناکام رہا جو اسٹیٹ بینک نے باز ادائیگیوں کی صورت میں کیے تھے اور یہ اے جی پی آر کے پاس درج ہیں۔ پورٹ نے ان اخراجات کو غیر مجاز اور بے ضابطہ قرار دیتے ہوئے مالی رپورٹنگ میں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ضابطوں میں خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ 31 جنوری 2025ء کو منعقد ہونے والے ڈپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) کے اجلاس میں قومی اسمبلی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی کہ سفری واؤچرز کی باز ادائیگیوں کے اعداد و شمار درست کر کے آڈٹ حکام کو مکمل ریکارڈ فراہم کیے جائیں۔جب اس معاملے پر تبصرے کیلئے رابطہ کیا گیا تو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے باضابطہ طور پر کوئی بیان دینے سے گریز کیا تاہم، ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ Reconciled Statement تیار کرنے کا عمل جاری ہے لیکن اس میں وقت لگے گا۔اس عہدیدار نے مزید کہا کہ ری کنسائلمنٹ کے زیادہ تر کیسز سندھ اور بلوچستان کے ارکان قومی اسمبلی کے ہیں۔